الاؤ

رؤف ظفر

وہ سب ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ اچانک عرفان نے کہا: ’’امی! میاں جی کب گاؤں واپس جائیں گے؟‘‘

احمد نے اخبار ایک طرف کرکے غصہ بھری نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا۔ وہ ناشتے کے دوران اخبار بھی پڑھ رہا تھا۔ عاصمہ اور جہانگیر اس انتظار میں تھے کہ اب عرفان بھائی کو ابو سے سخت ڈانٹ پڑے گی لیکن احمد نے کچھ نہ کہا اور پھر اخبار میں محو ہوگیا۔

رضیہ بیگم نے عرفان کو کوئی جواب نہ دیا۔ شوہر کا موڈ دیکھتے ہوئے اس نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور احمد کو مخاطب کرکے بولی: ’’ذرا دس بجے دفتر کی گاڑی بھجوادیجیے گا۔ مجھے نئی جیولری لانی ہے۔‘‘

’’آپ کی گاڑی کو کیا ہوا؟‘‘ احمد نے میز سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔ اس کا لہجہ قدرے درشت تھا۔

’’اسے تو عرفان کالج لے جائے گا۔‘‘

’’اس کی موٹر سائیکل کو کیا ہوا؟‘‘ اس نے اسی لہجے میں پوچھا۔

’’اتنی تیز ہوا اور سردی میں اس کا موٹر سائیکل پر جانا ٹھیک نہیں۔ میں نے خود ہی اسے گاڑی لے جانے کے لیے کہا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، بھجوادوںگا۔‘‘وہ جیسے اس جواب سے مطمئن ہوگیا۔ دروازے کی طرف بڑھا تو رضیہ بیگم نے تجویز پیش کی : ’’آپ اسے ایک چھوٹی کار لے دیں تو اس کا مسئلہ بھی حل ہوجائے۔‘‘ یہ سن کر وہ رک گیا، پھر پلٹ کر میز کی طرف آیا اور اس پر سے اپنا پڑھنے کا چشمہ اٹھا کر جیب میں ڈالتے ہوئے بولا: ’’کیوں اس کی عادتیں بگاڑنے پر تلی ہو؟ اس کے پاس اچھی بھلی موٹر سائیکل موجود ہے، پھر کار کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’ضرورت ہے۔‘‘ رضیہ بیگم نے زور دے کر کہا۔ ’’تبھی تو کہہ رہی ہوں۔‘‘

’’سوچوں گا۔‘‘ اس نے جواب دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

رضیہ بیگم بھی الوداع کہنے کے لیے اس کے پیچھے لپکی اور پورچ میں اسے رخصت کرکے واپس کمرے میں آئی اور عرفان پر برس پڑی: ’’یہ تمہیں میاں جی کے بارے میں سوال کرنے کی کیا سوجھی؟ اور وہ بھی اپنے ابو کے سامنے!‘‘ اس نے ذرا توقف کے بعد بات جاری رکھی۔ ’’میں جانتی ہوں کہ جب سے میاں جی آئے ہیں، گھر میںجیسے ایمرجنسی لگ گئی ہے۔ تم سب تنگ ہو، لیکن وہ تمہارے دادا ہیں اور یہاں صرف چند روز اورٹھہریں گے۔ اس لیے انہیں برداشت کرنا ہوگا۔‘‘

’’لیکن کب تک؟‘‘ عرفان ے تنگ آکر پوچھا۔

’’وہ آئے تو ایک ہفتے کے لیے تھے۔‘‘ رضیہ بیگم نے جھنجھلا کر جواب دیا ’’لیکن دس دن ہوگئے ہیں، جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔‘‘

’’ہم سب ان کے سامنے مروت اور جھوٹ موٹ کے احترام کا اظہار جو کررہے ہیں۔‘‘ عرفان بولا: ’’اس سے وہ سمجھ رہے ہیں جیسے ہم ان کے رک جانے پر بہت خوش ہیں۔ اسی لیے تو وہ یہاں ٹک گئے ہیں۔‘‘

’’اللہ کرے میاں جی اب یہاں سے کبھی نہ جائیں۔‘‘ عاصمہ نے معصومیت سے خواہش ظاہر کی۔ وہ گھر میں سب سے چھوٹی تھی اور اس کی عمر تقریباً دس برس تھی۔

’’وہ کیوں؟‘‘ جہانگیر نے جو اس سے تین سال بڑا تھا، تنک کر پوچھا۔

’’رات کو سوتے وقت وہ مجھے اچھی اچھی کہانیاں اور باتیں سناتے ہیں۔‘‘ اس نے اسی معصومیت سے جواب دیا۔

’’تمہارا تو دماغ خراب ہے۔ میاں جی نے ہماری زندگی عذاب کردی ہے۔ ٹی وی دیکھ سکتے ہیں نہ آزادی سے میوزک سن سکتے ہیں۔‘‘

’’مجھے تو صبح سویرے اٹھنے سے بڑی چڑ ہے مگر۔‘‘ جہانگیر نے جھنجھلا کر کہا’’میاں جی ہر روز منہ اندھیرے اٹھا دیتے ہیں اور پھر اس کڑا کے کی سردی میں ان کے ساتھ مسجد جانا پڑتا ہے۔‘‘

’’نماز پڑھنا تو اچھی بات ہے بیٹا۔‘‘ رضیہ بیگم بولی ’’مسجد جانے سے ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔‘‘

’’خود تو میاں جی مسجدسے آکر سوجاتے ہیں۔‘‘ عرفان شکایت کے لہجے میں بولا ’’اور ہمیں اسکول اور کالج جانا ہوتا ہے۔‘‘

’’میاں جی گھر آکر سوتے کب ہیں۔‘‘ عاصمہ نے دادا کی وکالت کی۔ ’’وہ تو مسجد سے آکر تلاوت کرتے ہیں۔‘‘

’’بعد میں تو سوجاتے ہیں نا۔‘‘ عرفان نے کہا ’’اب بھی سورہے ہیں۔‘‘

’’اچھا، اب یہ بحث چھوڑو۔‘‘ رـضیہ بیگم نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’چلو، تم لوگوں کو اسکول اور کالج سے دیر ہورہی ہے۔‘‘

٭٭٭

احمد جب گھر سے دفتر کے لیے روانہ ہوا تو اس کے دل پر ایک بوجھ سا تھا۔ وہ اپنے ضمیر میں ایک خلش سی محسوس کررہا تھا۔ اسے عرفان کا میاں جی کے جانے کے بارے میں اس طرح پوچھنا اچھا نہیں لگا تھا۔ اسے احساس تھا کہ میاں جی کے آنے سے اس کے اپنے کئی مشاغل متاثر ہورہے تھے۔ ان کی موجودگی میں وہ دوستوں کو گھر پر تاش کے لیے مدعو کرسکتا تھا نہ راتوں کو دیر تک گھر سے غائب رہ سکتا تھا۔ وہ بچپن ہی سے میاں جی کا بے حد احترام کرتا تھا اور اب بھی ایک بچے کی طرح ان کا ادب کرتا تھا۔ اسی کے اصرار پر میاں جی زندگی میں پہلی بار اس کے گھر آکر ٹھہرے تھے اور چند روز بعد انھیں چلے جانا تھا۔ پھر عرفان نے ایسی بدتمیزی کیوں کی؟ بظاہرعرفان کا اس طرح پوچھنا کوئی عجیب بات نہ تھی لیکن احمد کو نہ جانے یہ بات کیوں بہت بری لگی۔ اسے احساس تھا کہ میاں جی نے اسے کس طرح اعلیٰ تعلیم دلائی تھی جس کی بدولت وہ آج اس مقام تک پہنچا تھا۔ اگر وہ اسے اتنا نہ لکھاتے پڑھاتے، تو وہ آج کسی گاؤں میں معمولی سا اسکول ٹیچر یا کسی دفتر میں چپراسی ہوتا۔ میاں جی نے اپنی محدود آمدنی کے باوجود اس کی تعلیم پر خاص توجہ دی اور یہ انہی کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ وہ آج ایک کامیاب اور خوشحال زندگی بسر کررہا تھا۔

اچانک بریک لگنے سے گاڑی دھچکے کے ساتھ رکی تو احمد اپنے خیالوں سے باہر آیا۔ کچھ بھینسوں کو راستہ دینے کے لیے ڈرائیور نے بریک لگائی تھی۔ احمد کو فٹ پاتھ پر ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنے کندھوں پر بوریاں لٹکائے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں سے کاغذ اور پلاسٹک کے ٹکڑے چنتے نظر آئے۔ کار ابھی تک رکی ہوئی تھی کیونکہ ہنوز کچھ بھینسیں سڑک پار کررہی تھیں۔ احمد اب ذرا توجہ سے ان دونوں بچوں کی طرف دیکھنے لگا۔ لڑکا جہانگیر کی عمر کا اور لڑکی عاصمہ کی ہم عمر تھی۔ دونوں میلے کچیلے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں تھے۔ لڑکی نے ایک دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا جس میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔ دونوں کے چہرے اور بال گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ وہ بڑی خاموشی سے ڈھیر میں سے کاغذ کے ٹکڑے چن چن کر کندھوں پر لٹکی بوریوں میں ڈال رہے تھے، جو ان کے قد و قامت کے لحاظ سے خاصی بڑی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے بسی تھی جسے دیکھ کر احمد تڑپ اٹھا۔ ایک ثانیے کے لیے اسے یوں لگا جیسے جہانگیر اور عاصمہ کندھوں پر بوریاں لٹکائے میلے کچیلے لباس میں اس کے سامنے کھڑے ہوں۔ بھوکے، فاقہ زدہ، ہڈیوں کے ڈھانچے! پھر گھبرا کر اس نے یہ تصور جھٹک دیا ’’وہ دونوں تو اس وقت اسکول کے راستے میں ہوں گے۔‘‘ اس نے سوچا۔

اس نے دونوں بچوں کو اپنی طرف متوجہ پاکر پاس آنے کا اشارہ کیا لیکن وہ اس کی شخصیت اور شاندار کار سے مرعوب ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے اور ساتھ کی گلی میں غائب ہوگئے۔

احمد نے دفتر پہنچتے ہی اپنے پی اے کو طلب کیا اور دن کی اہم مصروفیات معلوم کیں۔ تھوڑی دیر بعد اس کے ڈائریکٹر پرچیزز مسٹر ٹوکس نے انٹر کام پر اس سے ملنے کے لیے اجازت چاہی جس پر اس نے فوراً آنے کے لیے کہا۔ اس نے پی اے کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور معمول کی ڈاک دیکھنے لگا۔ اس کا ذہن بار بار ان دو بچوں کی طرف بھٹک جاتا جنھیں اس نے تھوڑی دیر پہلے کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ اٹھاتے دیکھا تھا۔ کبھی کبھی ان کے چہروں میں جہانگیر اور عاصمہ کے چہرے گڈمڈ ہوجاتے۔ وہ اپنی اس کیفیت پر جھنجھلا اٹھا اور ذہن سے سب کچھ جھٹک کر ڈاک دیکھنے میں محو ہوگیا۔

’’گڈ مارننگ سر! ‘‘ ٹوکس کی آواز نے اسے چونکا دیا۔

’’آئیے ٹوکس صاحب! بیٹھئے۔‘‘ اس نے بڑے تپاک سے کہا۔

ٹوکس سامنے کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا: ’’سر !مبارک ہو۔ ہم نے مشینری خریدنے کے لیے سودا پکا کرلیا ہے۔ آپ جہاں چاہیں گے کمپنی آپ کا حصہ جمع کرانے کے لیے تیار ہے۔ لوکل یا فارن کرنسی کی چوائس بھی آپ کے پاس ہے۔‘‘

’’گڈ!‘‘ احمد نے ڈاک کا فولڈر آؤٹ ٹرے میں رکھتے ہوئے خوش ہوکر کہا ’’ہاؤ مچ وی آر میکنگ؟‘‘ ان دونوں کے درمیان ناجائز اور بے ایمانی کی کمائی کے بارے میں کوئی تکلف یا پردہ نہیں تھا۔ بے ایمانی کے کاروبار میں افسر اعلیٰ کو کسی نہ کسی سطح پر اپنے کسی ماتحت کو اعتماد میں لینے ہی پڑتا ہے۔

’’تقریباً ڈیڑھ کروڑ۔‘‘ ٹوکس نے مسرت سے کہا۔

’’آل ٹوگیدر؟‘‘ احمد نے پوچھا

’’یہ صرف آپ کا حصہ ہے۔‘‘ ٹوکس نے خوشامد سے کہا۔ ’’معاہدے پر دستخط ہوتے ہی یہ رقم آپ کے سُوِس اکاؤنٹ میں جمع ہوجائے گی یا اس کی ادائیگی یہیں ہوجائے گی۔‘‘

’’کاغذات تیار ہوگئے ہیں؟‘‘ احمد نے پوچھا۔

’’چند روز میں ہوجائیں گے۔‘‘ ٹوکس نے جواب دیا ’’کمیٹی کے ارکان کی کارروائی اور دستخطوں کے بعد جلد ہی فائل آپ کی منظوری کے لیے پیش کردی جائے گی۔‘‘

’’ویری گڈ!‘‘ احمد نے ڈیڑھ کروڑ روپے کا تصور کرتے ہوئے خوش ہوکر جواب دیا۔

٭٭٭

احمد نے اپنے بچپن میں بڑے اچھے اور پھر بہت برے دن بھی دیکھے تھے۔ اسے وہ دن اچھی طرح یاد تھے جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اور اس کی بہن ہاجرہ پہلی جماعت کی طالبہ تھی۔ اس وقت میاں جی بجلی محکمہ میں کلرک تھے۔ انھوں نے خوب محنت کی اور محکمے کا امتحان پاس کرکے اوور سیٹر بن گئے۔ انہیں ہائیڈل کالونی میں ایک کشادہ اورہوادار کوارٹر مل گیا جہاں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کے ہاں پہلے بھی روپے پیسے کی ریل پیل تھی۔ اب وہ اور بڑھ گئی۔ ادھر ادھر سے ان کی ماہانہ آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا اور وہ بڑی خوشحالی سے گزربسر کرنے لگے۔ احمد اور ہاجرہ فوجی گاڑی میں اچھے اسکول میں جاتے۔ انھیں عیش و عشرت کا ہر سامان میسر تھا۔ گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ اب میاں جی نے سائیکل چھوڑ کر اسکوٹر خریدلی تھی۔

پھر ایک دن میاں جی نے اچانک حرام کمائی سے توبہ کرلی اور بیوی سے صاف صاف کہہ دیا کہ اب اسے ان کی معمولی سی تنخواہ پر گزارا کرنا ہوگا۔ اس کے بعد میاں جی یکدم بدل گئے۔ نماز تو پہلے بھی پڑھتے تھے لیکن اب ان کے معمولات یکسر بدل گئے تھے۔ اب وہ بڑے اہتمام سے پانچوں وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے اور بیوی بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ ناجائز ذرائع آمدنی بند ہونے سے گھر کے حالات پر کافی اثر پڑا۔ اب کئی چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے ان کے پاس پیسے نہ ہوتے اور احمد اکثر احساس محرومی کا شکار رہتا۔ اپنی کم آمدنی کے باوجود میاں جی نے بچوں کی تعلیم کے معیار میں کمی نہ آنے دی۔ اب ان کی بیوی اکثر ان سے کم آمدنی اور زیادہ اخراجات کا رونا روتی اورناجائز آمدنی حاصل کرنے کی ترغیب دیتی لیکن میاں جی اسے ڈانٹ دیتے۔

احمد ایک ذہین اور محنتی طالب علم تھا۔ وہ ہر امتحان میں اول آتا اور ایم اے تک وظیفے حاصل کرتا رہا۔ اس نے بڑی اچھی پوزیشن میں ایم اے پاس کیا۔ کچھ دن پروفیسری کی اور پھر مقابلے کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے آئی اے ایس افسر بن گیا۔ اسی دوران ہاجرہ نے میٹرک تک تعلیم مکمل کرلی۔ اس کی شادی ایک متوسط مگر دیندار گھرانے میں ہوگئی اور وہ اپنے گھر میں خوش و خرم رہنے لگی۔

٭٭٭

میاں جی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں چلے گئے تھے۔ وہیں ان کی بیوی کا چند برس پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ احمد نے میاں جی سے اپنے ساتھ رہنے کی درخواست کی لیکن وہ نہ مانے۔ وہ گاؤں والوں کے چھوٹے موٹے کاموں کی خاطر ان کے ساتھ شہر آتے اور اپنے اثر و رسوخ سے ان کی مدد کرتے اور اس میں انھیں بڑی مسرت محسوس ہوتی۔ اپنی اکیلی جان کے لیے ان کی پنشن کافی تھی۔ احمد انھیں ہر ماہ کچھ رقم بھیجنا چاہتا تھا لیکن انھوں نے یہ گوارا نہ کیا۔ احمد کے اصرار پر وہ اس کے گھر ایک ہفتے کے لیے آئے تھے۔

سب نے یہ سوچ کر کہ وہ صرف چند روز کے لیے ان کے ہاں آئے ہیں، ان کی روک ٹوک کو برداشت کررکھا ہے۔ ان کے آتے ہی ٹی وی بند کردیا جاتا۔ عرفان اپنے کمرے میں میوزک بڑے دھیمے سروں میں سنتا۔ میاں جی کو خوش کرنے کے لیے سب نماز پڑھنے لگے۔ وہ علی الصبح سب کو فجر کی نماز کے لیے بیدار کردیتے اور پھر عرفان اور جہانگیر کو اپنے ساتھ مسجد لے جاتے۔ چند روز تک تو سب نے یہ مشقت میاں جی کے احترام میں ہنسی خوشی برداشت کرلی، مگر پھر سب ان کے جانے کی دعائیںمانگنے لگے۔ میاں جی سب کی دلی کیفیات سمجھتے تھے لیکن انھوں نے اپنی روش جاری رکھی۔

چند روز اور گزر گئے لیکن میاں جی نے جانے کا ارادہ ظاہر نہ کیا۔ پھر آہستہ آہستہ سب نے محسوس کرنا شروع کردیا کہ وہ گھر جس میں ٹی وی کے شور اور بے ہنگم اونچی اونچی موسیقی کی وجہ سے ہر وقت ایک ہنگامہ بپا رہتا تھا، اب اس کے ماحول میں سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ہے۔

پھر ایک صبح میاں جی نے گاؤں جانے کا اعلان کردیا۔ سب نے اس پر ملا جلا رد عمل ظاہر کیا۔ احمد نے انھیں روکنا چاہا لیکن وہ نہ مانے۔ وہ احمد کے گھر میں ایک خوشگوار تبدیلی پر بڑے خوش تھے لیکن جانے سے پہلے وہ ایک اہم فرض ادا کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے احمد سے کہا: ’’بیٹا! میں جانے سے پہلے تمہیں کچھ بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ مجھے یہ تمہیں بہت پہلے بتادینا چاہیے تھا، مگر موقع نہ ملا۔ کچھ تم مجھ سے دور رہے، کچھ میں خود تمہارے پاس آنے سے اجتناب کرتا رہا۔ اب میں زندگی کے اس حصے میں ہوں جسے آخری عمر کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد شاید تم سے ملاقات ہو یا نہ ہو۔‘‘ وہ تھوڑی دیر کے لیے سانس لینے کو رکے تو احمد بولا: ’’میاں جی! اللہ آپ کو زندگی دے۔ ایسا نہ کہیں۔‘‘

’’موت اٹل ہے بیٹا!‘‘ میاں جی نے بات جاری رکھی۔ ’’قصہ مختصر یہ ہے کہ اپنی ملازمت کا آغاز میں نے بددیانتی اوربدنیتی کے ساتھ کیا، میں رشوت اور ناجائز کمائی کو اپنا حق سمجھتا اور ہر طریقے سے حرام مال اکٹھا کرتا رہا۔ تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آرام و آسائش پہنچا نے کے لیے دولت سمیٹتا اور اپنے لیے دوزخ کا ایندھن جمع کرتا رہا۔ پھر ایک دن میرے رب رحیم نے مجھ پر اپنی رحمت کی۔ ایک رات میں نے خواب میں اپنے آپ کو قبرستان میں ایک کھلی قبر کے کنارے کھڑا پایا۔ قبرتھی لیکن اس کے اندر ایک بہت بڑا الاؤ دہک رہا تھا جس کے شعلے لپک لپک کر مجھے اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے بے تاب ہورہے تھے۔ میں ان شعلوں کی تپش اپنے تمام جسم پر محسوس کرتا، میں دہشت زدہ ہوکر پسینے میں تر ہوگیا۔ اتنے میں میری نظر ایک سفید ریش اور نورانی چہرے والے بزرگ پر پڑی جو اچانک میرے قریب آکر کھڑے ہوگئے تھے۔ میں خوف اور دہشت سے کانپ رہا تھا۔ میری ابتر حالت دیکھ کر وہ مجھ سے کہنے لگے: ’’الیاس احمد! قبر کے باہر تیرا یہ حال ہے تو قبر کے اندر تجھ پر کیا بیتے گی!‘‘ میں خاموش کھڑا کانپتا رہا۔ میری زبان جیسے گنگ ہوگئی تھی۔ اس بزرگ نے جلتی ہوئی قبر کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے سوال کیا: ’’جانتے ہو یہ قبر کس کی ہے؟‘‘ پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر خود ہی جواب دیا: ’’الیاس احمد! یہ تیری قبر ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ غائب ہوگئے۔ میری آنکھ کھل گئی۔ میرا پورا جسم لرز رہا تھا اور ان دہکتے شعلوں کی تپش مجھے اب تک محسوس ہورہی تھی۔ نیم شب کا عالم تھا۔ میں فوراً اٹھا، وضو کیا اور سجدے میں گرگیا۔ روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی اور اسی حالت میں آنکھ لگ گئی۔

’’میں نے ایک بار پھر اپنے آپ کو اسی قبرستان میں اسی قبر کے کنارے کھڑا پایا لیکن اب ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور قبر کا الاؤ بجھ چکا تھا۔ مجھے عجیب سی فرحت بخش خنکی کا احساس ہوا جیسے کسی نے جنت کی کھڑکی میرے لیے کھول دی ہو۔ اتنے میں مجھے وہی بزرگ اپنے قریب کھڑے نظر آئے، وہ مجھ سے کہنے لگے: ’’الیاس احمد! اپنے رب کا شکر ادا کرو جس نے تیری توبہ قبول کرلی۔ تیری ندامت کے آنسوؤں نے تیری قبر کی آگ ٹھنڈی کردی ہے۔ اب ہمیشہ رب رحیم کا شکر ادا کرتے رہنا۔‘‘ بیٹا! اس کے بعد میں نے رشوت اور ناجائز کمائی کو حرام سمجھا اور توبہ کرکے رزق حلال پر اکتفا کرنے لگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے شاکر بندوں میں شامل ہونے کی توفیق دی۔ ‘‘ بات ختم کرتے کرتے میاں جی کی سفید نورانی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوچکی تھی اور ان کی آواز فرطِ جذبات سے بھرائی ہوئی تھی۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی ہچکیاں روکے ہوئے تھے۔

میاں جی کی باتیں سن کر احمد کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اور وہ احساس جرم سے کانپ اٹھا۔

٭٭٭

میاں جی چلے گئے لیکن وہ احمد کے ذہن میں کئی سلگتے ہوئے سوال چھوڑ گئے۔

وہ سارا دن اس نے ایک عجب کشمکش اور اذیت میں گزارا۔ ایک طرف اسے میاں جی کی باتوں کا خیال آتا تو اس کا ضمیر اسے ناجائز آمدنی کے حصول سے دستکش ہونے کی تلقین کرتا۔ دوسری طرف اسے ڈیڑھ کروڑ روپے کا خیال آتا جو اسے نئی مشینری کے معاہدے کی منظوری دینے کی صورت میں ملنا تھا تو وہ میاں جی کا قصہ ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتا۔ نچلی کمیٹی محکمانہ قواعد کے مطابق معاہدہ تیار کرچکی تھی جو اگلے روز احمد کی منظوری کے لیے پیش ہونا تھا۔ معاہدہ منظور کرکے احمد پر کسی قسم کی بے ایمانی یا بے قاعدگی کا الزام نہیں لگ سکتا تھا۔ وہ اسی کشمکش میں مبتلا دفتر سے گھر پہنچا اور رات بھرپریشان رہا۔ وہ تمام رات اس نے بے چینی اور اضطراب میں گزاری۔

اگلی صبح جب وہ دفتر پہنچا تو اس کی طبیعت خاصی کسلمند تھی۔ اس نے خادم کو کافی لانے کے لیے کہا اور پھر سوچوں میں گم ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹوکس کے آنے پر وہ چونکا۔ اس نے رسمی علیک سلیک کے بعد معاہدے کی فائل اس کے سامنے رکھی اور بولا: ’’سر! ضابطے کے مطابق معاہدہ تیار ہے۔‘‘

احمد کے ذہن میں اب بھی ایک کشمکش جاری تھی۔ ایک طرف ڈیڑھ کروڑ روپے کی رقم تھی اور دوسری طرف میاں جی کی باتیں۔ لالچ اسے معاہدہ منظور کرنے پراکسا رہا تھا اور میاں جی کا خیال اس کے دل میں خدا کا خوف پیدا کررہا تھا۔ اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں جہانگیر اور عاصمہ کے چہرے ان دو غریب بچوں کے چہروں کے ساتھ گڈمڈ ہورہے تھے جنھیں اس نے چند روز پہلے کوڑے کے ڈھیر سے کاغذ اور پلاسٹک کے ٹکڑے چنتے دیکھا تھا۔ کبھی وہ بچے اسے اچھے اچھے لباسوں میں کھیلتے کودتے نظر آتے اور کبھی اپنے بچے حسرت و یاس کی تصویر بنے، کندھوں پر پھٹی پرانی بوریاں لٹکائے۔ پھر اس نے ذہن سے اس تصور کو جھٹک دیا اور قلم اٹھا کر فائل پر کچھ لکھنے لگا۔ اس کے بعد اس نے فائل واپس کرتے ہوئے کہا: ’’ٹوکس صاحب! مجھے اس معاہدے سے کچھ نہیں چاہیے۔ آپ فرم سے دوبارہ بات چیت کرکے وہ رقم اس میں سے کم کریں جو وہ ہمیں آفر کررہے ہیں بلکہ اس میں اور کمی کرائیں اور اگر وہ فرم نہ مانے تو نئے ٹینڈر فلوٹ کرائیں۔‘‘

ٹوکس نے کچھ کہنا چاہا لیکن احمد کی سنجیدگی دیکھ کر اسے کچھ کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ وہ فائل اٹھائے خاموشی سے چلا گیا۔

احمد نے محسوس کیا جیسے اس کے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اترگیا ہو۔ وہ اپنے آپ کو بڑا ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔

٭٭٭

اس شام احمد دفتر سے گھر پہنچا تو جہانگیر اور عاصمہ لان کے ساتھ کی راہداری پر اسکیٹنگ کررہے تھے۔ دونوں نے ہاتھ ہلا ہلاکر اس کا استقبال کیا اور عاصمہ آکر اس سے لپٹ گئی۔ ایک لمحے کے لیے احمد کو یوں لگا جیسے جہانگیر کے بجائے وہ غریب لڑکا صاف ستھرے لباس میں اسکیٹنگ کررہا ہو اور عاصمہ کے بجائے وہ غریب لڑکی آکر اس سے لپٹ گئی ہو، جسے اس نے کوڑے کے ڈھیر پر دیکھا تھا۔

اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ اس نے عاصمہ کو پیار کیا اور پھر مطمئن اور مسرور انداز میں تیز تیز قدم اٹھاتا گھر کے اندر چلا گیا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں