’’بھائی جان! آپ سے ایک بات کہنی ہے۔‘‘ نبیل نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اپنے بڑے بھائی سے کہا۔
’’ہاں بولو۔‘‘ ارشد اخبار کا مطالعہ کررہے تھے۔
’’وہ میں …‘‘ نبیل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔
’’ارے کیا میں بھئی۔‘‘ بھائی ارشد بولے۔
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا، دراصل ہم کئی دنوں سے آپ سے یہ بات کہنا چاہ رہے تھے لیکن ہمت نہیں پڑرہی۔‘‘نبیل نے استری کرتی اپنی بیوی کو مدد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا بات ہے نبیل! کھل کر کہو، میں تمہارا بھائی کم، دوست زیادہ ہوں۔ کیا تمہیں رقم کی ضرورت ہے؟‘‘ ارشد نے نبیل کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔
’’نہیں یہ بات تو نہیں، اصل میں …‘‘ پھر توقف کرکے بولا ’’آپ تو جانتے ہیں بھائی کہ ہماری شادی کو پچھلے مہینے پورے چھ سال ہوگئے اور اب تک ہم اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔‘‘ نبیل پھر رکا۔
’’ہاں یہ تو قدرت کے کھیل ہیں، پھر میرے بچے تمہارے بھی تو بچے ہیں، تم ان کو اپنا ہی سمجھو۔‘‘ ارشد بولے۔
’’جی بس بھائی ہم یہی چاہ رہے ہیں۔‘‘ نبیل جلدی سے بولا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اب اٹکنے کی باری ارشد کی تھی۔
’’دراصل بھابی کو اللہ کی طرف سے پھر خوشی ملنے والی ہے، تو ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ آپ اور بھابی اگر اس بات پر خوشی سے راضی ہوں تو اس دفعہ یہ بچہ آپ ہم کو دے دیں تو… بھائی جان آپ کا یہ احسان ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ آپ… آپ بھابی سے پوچھ لیں… اگر وہ بھی راضی ہوں خوشی سے تو… تو پھر…‘‘ نبیل جذباتی انداز میں جلدی جلدی بے ربطی سے بول رہا تھا۔
دوسری طرف ارشد حیرت سے دونوں میاں بیوی کو دیکھ رہے تھے، ان سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔
’’بھائی جان کوئی زبردستی نہیں ہے، آپ اگر دل سے راضی ہوں پھر۔‘‘ آمنہ بولی۔
’’آپ ناراض تو نہیں ہوگئے میری اس جرأت پر۔‘‘ نبیل، ارشد کی خاموشی دیکھ کر بولا۔
’’نہیں نہیں، ناراضی کیسی؟ لیکن دیکھو ہم دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ بچے تمہارے پاس اسی طرح رہتے ہیں، پیار کرتے ہیں، پھر کیا بات ہے!‘‘ ارشد بولے۔
’’لیکن بھائی جان! بچے بے شک میرے پاس آئیں، ہم ان سے محبت کرتے ہیں، لیکن وہ رہیں گے تو آپ کے بچے۔‘‘
’’تو وہ آنے والا بچہ بھی تو میرا ہی ہوگا۔‘‘
’’اصل میں ہم پھر اس بچہ کو مستقل اپنے پاس ہی رکھیں گے، ہم ہی اسے پالیں گے، وہ ہم کو اپنے والدین سمجھے گا۔‘‘ آمنہ نے مزید وضاحت کی۔
’’بھائی اگر آپ نہیں چاہ رہے تو کوئی بات نہیں، آپ پر کوئی دباؤ نہیں۔‘‘ نبیل، بھائی کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔ ارشد خاموش ہوگئے تھے۔ ایک طرف اولاد کی محبت تھی، تو دوسری طرف جان سے پیارا بھائی تھا۔ آخر وہ دیر تک سوچ کر بولے: ’’میں تمہیں شمسہ سے مشورہ کرکے بتاؤں گا۔‘‘
’’ہاں ہاں بالکل، بھائی جان جو ہوگا، وہ آپ کی اور بھابی کی مکمل اجازت و مرضی سے ہوگا۔‘‘ نبیل خوش ہوکر بولا۔
…٭…
ارشد کا ایک ہفتہ تو اسی سوچ بچار میں گزرگیا۔ ان کی شمسہ سے اس معاملے پر بات کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ ویسے بھی وہ آنے والے مہمان کی تیاری کررہی تھی۔ آخر انھوں نے ہمت کرکے بات کرنے کی ٹھانی۔ انھوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں شمسہ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ اور جب انھوں نے اس موضوع پر شمسہ سے بات کی تو وہ بھی گنگ رہ گئی۔ کافی دیر تک تو وہ کچھ کہہ ہی نہ سکی، پھر بولی بھی تو یہ کہ ’’اولاد کوئی دینے کی چیز نہیں۔‘‘
’’تم بالکل درست کہہ رہی ہو، لیکن اپنے آپ کو ان کی جگہ رکھ کر سوچو تو شاید تمھیں ان کی محرومی کا احساس ہوجائے۔‘‘ وہ نرمی سے بولے۔ ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ وہ دونوں یقینا ہمارے بچوں کو ہنستے کھیلتے، لڑتے دیکھ کر اپنی خالی گود کا احساس کرتے ہوں گے۔ لیکن یہ بچے ان کے پاس بھی تو اسی طرح جاتے ہیں، وہ ان سے ہی اپنی پیاس بجھائیں، کیا ضروری ہے کہ ایک بچہ مستقل اپنے پاس رکھ کر ہی…‘‘ وہ جھنجھلا سی گئی تھی۔
’’دیکھو تمہارے اوپر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ تم اطمینان سے سوچ لو، ابھی تمہارے پاس کافی وقت پڑا ہے۔ تمہاراجو بھی فیصلہ ہوگا وہ مجھے اور سب کو قبول ہوگا۔ تم اپنی خوشی سے دینا چاہو تو ٹھیک، ورنہ کوئی بات نہیں۔ بس یہ سوچو کہ اللہ دے کر بھی آزماتا ہے۔ آج ہمارے پاس یہ نعمت ہے۔ اگر خدا ہمیں محروم رکھتا تو ہماراپھر کیا رویہ ہوتا؟‘‘
’’تو آپ بھی پوری طرح راضی ہیں۔‘‘ شمسہ میاں کوغور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
’’پورا تو نہیں… ہاں کسی حد تک۔‘‘
’’اور اگر ان کے ہاں بچے ہوگئے تو پھر، کیا پھر وہ ہماری اولاد واپس کردیں گے؟‘‘ شمسہ نے ایک نکتہ اٹھایا۔
’’اس سلسلے میں میری بات نہیں ہوئی، لیکن تم ٹھنڈے دل و دماغ سے اس پر غورکرلو۔ ہم پھر بات کریں گے۔‘‘ ارشد نے یہ کہہ کر بات کو ختم کیا۔
اور شمسہ بری طرح ڈسٹرب ہوگئی۔ اس کا ذہن الجھ کر رہ گیا۔ وہ جتنا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچتی اتنا ہی اسے نبیل اور آمنہ درست لگتے۔ وہ جتنا سوچتی اتنا ہی الجھتی۔ دوہ دونوں اولاد کو ترسے ہوئے تھے، یہ صحیح تھا۔ ’’یا اللہ ان کو بھی اولاد کی نعمت دے دے۔‘‘ وہ اٹھتے بیٹھتے دل سے دعا مانگتی۔ بالآخر وہ ایک فیصلے پر پہنچ گئی۔ اس نے ارشد کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔
’’میں نے بہت سوچا، پھر آخر میں اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر میرے توسط سے کسی کو یہ خوشی مل رہی ہے تو یونہی سہی۔ آخر وہ بچہ بھی تو میری ہی نظروں کے سامنے رہے گا، ہے ناں؟‘‘ شمسہ نے سوالیہ نظروں سے ارشد کو دیکھا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں… تمہارا بہت شکریہ شمسہ! تم نے میرا مان رکھ لیا۔‘‘ ارشد بہت شکر گزار تھے۔ اور جب شمسہ کا جواب نبیل اور آمنہ کو ملا تو وہ دونوں دوڑتے ہوئے شمسہ کے پاس آئے۔
’’بھابی! آپ کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔‘‘
آمنہ نے شمسہ سے لپٹتے ہوئے کہا اور شمسہ نے اس کا کندھا تھپتھپا کر اسے تسلی دی۔
پھر شمسہ اور ارشد نے اپنے وعدہ کے مطابق اپنی نومولود بیٹی ان دونوں کے حوالے کردی۔وہ دونوں بچی پاکر گویا آسمان پر اڑ رہے تھے۔ نبیل نے بچی کے لیے زمانے بھر کی اشیاء اکٹھی کرلی تھیں۔ شمسہ کے تینوں بچے بھی اس گڑیا سے لپٹے رہتے۔
…٭…
وقت یونہی سبک رفتاری سے گزرتا رہا۔ تین سال پورے ہونے والے تھے۔ آمنہ نے بچی کا نام ماہا رکھا تھا۔ اگرچہ وہ بچی کے بڑے لاڈ اٹھاتی تھی، لیکن وہ سارا وقت رہتی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہی، کتنا ہی اسے کھلونے دے کر کمرے میں بٹھاتی،لیکن اسے بھی قدرتی طور پر اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنے، بھاگنے، دوڑنے میں لطف آتا۔ آمنہ کسی کسی وقت چڑ کر اسے ڈانٹتی لیکن بچہ اپنے ہم عمر بچوں میں ہی خوش ہوتا ہے۔
’’آمنہ! ماہا تین سال کی ہونے والی ہے، تم اب اسے اسکول میں داخل کرادینا۔ یہی صحیح وقت ہے۔‘‘ شمسہ نے ایک دن آمنہ کو کہا۔
’’ارے بھابی ابھی تو وہ بہت چھوٹی ہے، روئے گی۔ کم از کم سال چھ مہینے تو اور نکل جائیں پھر دیکھا جائے گا۔‘‘ وہ بے پروائی سے بولی۔
’’کیسی بات کررہی ہو! سال نکال دو گی تو وہ اپنی عمر کے بچوں سے پیچھے رہ جائے گی اور پھر …‘‘
’’وہ ابھی میرے بغیر نہیں رہ سکتی اتنا ٹائم۔‘‘ آمنہ بات کاٹتے ہوئے بولی۔
’’سارے بچے شروع میںایسے ہی پریشان کرتے ہیں، ہفتہ دس دن میں سیٹ ہوجاتے ہیں، پھر ویسے بھی اس کے بھائی بہن اس کا خیال رکھیں گے، دیکھنا کیسے خوشی خوشی ان کے ساتھ جائے گی اور کتنی جلدی سیکھے گی۔‘‘ شمسہ سمجھاتے ہوئے بولی۔
’’میں اپنی بچی کو زیادہ سمجھتی ہوں۔‘‘ وہ رکھائی سے کہتی باہر نکل گئی اور شمسہ اس کی پشت دیکھتی رہ گئی۔
…٭…
’’بھابی آئندہ ہفتہ ماہا تین سال کی ہوجائے گی، ہم اس کی سالگرہ کررہے ہیں، بس اس سلسلے میں تیاری کررہے ہیں۔‘‘ آمنہ نے شمسہ کے سوال کے جواب میں کہا۔
شمسہ پچھلے تین دن سے دیکھ رہی تھی کہ دونوں میاں بیوی روز بازار جارہے ہیں اور ڈھیر سارا سامان لارہے ہیں۔ آج اس نے آخر کار پوچھ ہی لیا تو جواب میںآمنہ نے اسے یہ مژدہ سنایا۔
’’لیکن میںنے تم کو پچھلے سال ہی تنبیہ کردی تھی کہ آئندہ یہ سالگرہ کے فنکشن مت کرنا۔ پہلی دفعہ تم نے بہت دھوم دھام سے کی، میں خاموش رہی کہ بھئی پہلی پہلی خوشی ہے، حالاںکہ تم عقیقہ بھی اسی طرح اونچے پیمانے پر کرچکی تھیں۔ دوسری دفعہ بھی تم نے ایسے ہی بڑی تقریب کی، سب کو بلایا۔ اب پھر تم … جب باقی بچے یہ سب دیکھ رہے ہیں تو وہ مجھ سے ضد کرتے ہیں، ان کو میں کیا جواب دوں۔ میں تو تینوں بچوں کا فنکشن سالگرہ کا الگ الگ نہیں کرسکتی، پھر گناہ الگ، پچھلی دفعہ بھی انھیں سمجھا بجھا کر تھک گئی تھی، اب پھر یہی ہوگا۔‘‘ شمسہ تو سالگرہ کا سنتے ہی چڑگئی تھی۔
’’اوہو بھابی میری تو ایک ہی بیٹی ہے۔ پھر یہ تو مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے۔‘‘
’’ایسا ہی بہانہ چاہیے تو خیر سے اگلے سال بسم اللہ کرلینا، پھر روزہ کشائی وغیرہ… کیا سالگرہ اور وہ بھی اتنی دھوم سے کرنی ضروری ہے؟‘‘ شمسہ تیز لہجہ میں بولی۔
’’اس گھر میں تو کوئی اپنی مرضی سے خوش بھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ آمنہ پیر پٹختی ہوئی چلی گئی، اور پھر وہی ہوا۔ ارشد اور شمسہ کے لاکھ سمھانے کے باوجود سالگرہ کا فنکشن بڑی شان سے ہوا۔ نبیل نے ماہا کے ساتھ تینوں بچوں کے کپڑے بھی بڑے قیمتی لے کر دیے تھے۔ لیکن ارشد کو یہ سب اچھا نہیں لگا تھا۔ دوسری طرف شمسہ نے بھی بڑی باتیں بنائی تھیں۔ ’’آخر ہے تو وہ میری بچی۔‘‘ آمنہ بار بار یہ جملہ دوہراتی جس سے شمسہ خار کھاتی۔ آخر جب ایک دفعہ اسی طرح آمنہ نے یہ جملہ کہا تو شمسہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
’’تمہاری کہاں سے آگئی، یہ بچی میری ہے اور میری رہے گی، اس کے باپ کے خانے میں ارشد کا نام لکھا جائے گا۔‘‘ وہ زور سے بولی۔
اور آمنہ سے یہ سب برداشت نہ ہوسکا۔ اس نے نبیل کو دو کی چار لگا کر سنائیں۔ نبیل خود کئی دنوں سے ماحول کا تناؤ دیکھ رہا تھا۔ یہ سب اب برداشت سے باہر ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوتے، اس نے ایک دن بھائی کو یہ دھماکہ خیز خبر سنائی کے وہ دوسرے گھر منتقل ہورہے ہیں۔
’’لیکن کیوں؟‘‘ ارشد حیران رہ گئے۔
’’اصل میں اب جگہ چھوٹی پڑرہی ہے، پھر بھی جس اسکول میں ماہا کو داخل کررہا ہوں وہ یہاں سے بہت دور ہے، لہٰذا اس لیے…‘‘وہ مزید بہانہ نہ بناسکا۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تینوں چلے گئے۔ ارشد اور شمسہ نے انھیں بہت سمجھایا لیکن ان کا فیصلہ حتمی تھا۔ ماہا بھی بہت روئی، چیخی لیکن دونوں نے ایک نہ سنی۔ ادھر شمسہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی اس کا کلیجہ چیر رہا ہے۔ بچی کی جدائی اب اسے معلوم ہوئی تھی۔
’’یہ صلہ ملا ہے مجھے قربانی کا۔‘‘ وہ رورہی تھی۔
’’سب تمہارا قصور ہے۔‘‘ ارشد نے اس کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا۔
’’میرا کیا قصور؟ ایک تو اپنی اولاد ان کے حوالے کی پھر غلطی بھی میری۔‘‘
’’نہ تم روک ٹوک کرتیں نہ وہ جاتے۔‘‘ ارشد الگ تھکے تھکے تھے۔
’’وہ چلے ہی جاتے، میں کافی دنوں سے ان کے تیور دیکھ رہی تھی۔ یہ تو ایک بہانہ تھا۔ اب دیکھیے گا وہ دونوں اس کو (ماہا) ہم سے ملنے بھی نہیں دیں گے۔ واقعی غلطی میری تھی، صحیح کہہ رہے ہیں… بہت بڑی غلطی کی۔‘‘ شمسہ منہ سر لپیٹے پڑگئی تھی۔
اور ارشد سوچ رہے تھے کہ غلطی کس کی ہے؟
——