السلام علیکم

ابوالمجاہد زاہدؔ مرحوم

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ اَنَّ رَجُلًا جَائَ اِلٰی النَّبِیْﷺ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ فَرَدَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ النَّبِیُّﷺ عَشْرٌ۔ ثُمَّ جَآئَ آخَرُ، فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ فَرَدَّ عَلَیْہِ۔ فَجَلَسَ، فَقَالَ عِشْرُوْنَ۔ ثُمَّ جَآئَ آخَرُ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرْکَاتُہٗ، فَرَدَّ عَلَیْہ فَجَلَسَ، فَقَالَ ثَلَاثُوْنَ۔ (رواہ الترمذی، ابوداؤد)

’’حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا پھر جب وہ مجلس میں بیٹھ گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:دس (یعنی اس بندے کے لیے اس سلام کی وجہ سے دس نیکیاں لکھی گئیں) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: بیس (یعنی اس کے لیے بیس نیکیاں لکھی گئیں) پھر ایک تیسرا آدمی آیا، اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور جب وہ مجلس میں بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا: تیس (یعنی اس کے لیے تیس نیکیاں ثابت ہوگئیں)۔‘‘

تشریح

اللہ تعالیٰ کا یہ قانونِ رحمت ہے، اس کا یہ اصولِ کریمانہ ہے کہ اس نے ایک نیکی کا اجر وثواب اس آخری امت کے لیے دس نیکیو ںکے برابر مقرر کیا ہے۔ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے: من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا۔ اسی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں جس نے صرف السلام علیکم کہا تھا فرمایا کہ اس کو دس نیکیاں مل گئیں۔ اور جس شخص نے السلام علیکم کے ساتھ سلام کے دوسرے کلمے ورحمۃ اللہ کا بھی اضافہ کیا، اس کے لیے آپ نے فرمایا کہ بیس نیکیاں ثابت ہوگئیں، اور تیسرے شخص کے لیے جس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کے ساتھ تیسرے کلمے وبرکاتہ کا بھی اضافہ کیا اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا، آپ نے فرمایا کہ اس کے لیے تیس نیکیاں ثابت ہوگئیں۔

امام مالکؒ نے اپنی مؤطا میں اُبی بن کعب کے صاحب زادے طفیل کا یہ بیان نقل کیا ہے: ’’میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ ان کا طریقہ تھا کہ وہ ہمیں لے کر بازار جاتے اور جس دکان دار، جس کباڑیے اور جس فقیر و مسکین کے پاس سے گزرتے اس کو بس سلام کرتے (اور کچھ خریدوفروخت کیے بغیر واپس آجاتے) جناب طفیل کہتے ہیں کہ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو معمول کے مطابق مجھے ساتھ لے کر بازار جانے لگے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ بازار جاکے کیا کریں گے، نہ تو آپ کسی دکان پر کھڑے ہوتے ہیں، نہ کسی چیز کا سودا کرتے ہیں، نہ بھاؤ تاؤ ہی کی بات کرتے ہیں اور بازار کی مجلسوں میں بھی نہیں بیٹھتے۔ (پھر آپ بازار کس لیے جائیں؟) یہیں بیٹھئے، باتیں ہوں اور ہم استفادہ کریں۔

حضرت ابنِ عمرؓ نے فرمایا: ہم تو صرف اس غرض سے اور اس نیت سے بازار جاتے ہیں کہ جو سامنے پڑے اس کوسلام کریں اور ہر سلام پر کم از کم دس نیکیاں کما کر اللہ کی رحمتیں اور بندگانِ خدا کے جوابی سلاموں کی برکتیں حاصل کریں۔

ملاقات کے وقت اسلامی طریقے سے ایک دوسرے کو سلام کرنا رسول کریم ﷺ کی مبارک تعلیمات میں سے ہے۔ السلام علیکم، اللہ کا تعلیم فرمایا ہوا دعائیہ کلمہ اور اسلام کا شعار ہے، اسی لیے آپ نے سلام کرنے کی بڑی تاکید اور بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کی طرح سلام کا جواب دینے والے کو بھی دس سے تیس تک نیکیاں ملتی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146