الفتح اور حماس کے درمیان امن معاہدہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے لیے ایک بری خبر ہے۔ خطہ میں امریکی بالادستی اور منصب منصفی کو زک تو پہنچتی ہے ساتھ ہی حماس کو دنیا بھر سے اور خود اس کے ملک میں یک و تنہا کردینے کی اعلانیہ کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ ایسے وقت میں جب بیشتر عرب ممالک نے اس امن معاہدے کا استقبال کیا ہے اور غزّہ اور رام اللہ میں اتحاد کے جشن منائے جارہے ہیں امریکی حکومت نے یہ کہہ کر دامن بچایا ہے کہ وہ اس معاہدے کے مشمولات پر مطالعہ کا وقت چاہتا ہے۔ لیکن اس کی وزیر خارجہ نے دبے الفاظ میں اس تکلیف کا اظہار کیاہے کہ محمود عباس سے ایسی امید نہیں تھی۔ البتہ روس جوامریکہ یوروپی یونین اقوام متحدہ کے quartetمیں شامل ہے۔ اس معاہدے پر بہتر امید کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے حماس کے ساتھ گفتگو کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اسی طرح کا تاثریوروپی یونین کا بھی آیا ہے۔ البتہ اقوام متحدہ کے نئے جنرل سکریٹری جنھیں امریکی مفادات کی طویل عرصے سے خدمت کے صلے میں یہ منصب ملا ہے۔ بڑے محتاط انداز میں رائے ظاہر کررہے ہیں۔ اتنا واضح ہورہا ہے کہ حماس اور الفتح کی قیادت اور سعودی حکمراں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی کوششوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکی ایجنڈہ اپنا دم توڑ دے گا۔
گذشتہ سال جب سے حماس اقتدار میں آئی ہے۔ تب سے فلسطینی عوام کا عالم برادری نے مقاطعہ کررکھا تھا۔ فلسطینی عوام کے لیے بھکمری کی نوبت ہے اور حماس کے اقتدار میں آنے کی سزا ساری عوام کو دی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ جو عرب ممالک تعاون دینا چاہتے تھے انھیں سخت الفاظ میں وارننگ دے کر روک دیا گیا۔ اس کے باوجود عرب ملکوں کی عوام نے فلسطینی بھائیوں کے لیے مالی تعاون کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اس رقم کو بھی فلسطینی حکومت کے کھاتوں سے نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ دوسری طرف قابض قوت اسرائیل نے فلسطینی علاقوں سے جمع کیے ہوئے سارے ریونیوز بھی فلسطینی اتھارٹی کو دینا بند کردیا۔ جس کے بعد فلسطین کی داخلی صورتحال دھماکہ خیز ہوگئی تھی۔ اور اس کا سیاسی فائدہ الفتح اور ان کے قائد محمودعباس نے بھر پور انداز میں اٹھایا۔ یہاں تک کہ حماس کو بلیک میل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ الفتح اور اس کی قیادت بہت پہلے ہی اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرچکی ہے۔ جس کا انعام انھیں مسلسل ’’عالمی قوتوں‘‘ کی جانب سے اور اسرائیل کی طرف سے ملتا رہا ہے۔ لیکن اس انعام نے ان کے وقار کو ہی نہیں بلکہ ایمان کو بھی داغدار بنادیا۔نتیجہ یہ ہے کہ الفتح اور اس سے وابستہ ہر گروہ مالی بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہے۔ عالمی برادری سے ملنے والی امداد عرصہ دراز تک فلسطینی عوام پر خرچ کرنے کی بجائے داد و دہش دیتے رہے۔ اور حماس جیسی تنظیموں نے زمینی سطح پر رفاہی اور تعمیری کاموں کی کمان سنبھالے رکھی۔ زبردست عوامی حمایت کے باوجود حماس نے خود کو عملی سیاست سے دور رکھا تاکہ وہ اپنی مسلح جدوجہد اور تربیت و تزکیہ کے کاموں پر مرکوز رہے، لیکن جب نوبت یہ جاپہنچی کہ الفتح اور ان کے حواری امریکہ کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئے تو حماس نے انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور پہلے ہی بلدیاتی و پارلیمانی انتخاب میں الفتح اور اس کے بعدعنوان ٹولے کو اقتدار سے باہر کردیا۔
یہاں سے شروع ہوا حماس کا امتحان جہاں اس کو امریکہ اور اس کے حواریوں کی مسلسل دھمکی ملتی رہی کہ اگر اس نے اسرائیلی وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر اس نے مسلح سیاست بھی ’’دہشت گردی‘‘ کا راستہ نہیں ترک کیا۔ اور اسرائیل سے کیے ہوئے معاہدوں کا احترام نہیں کیا تو وہ اس کا ناطقہ بند کردے گا۔حماس پہلے سے ہی امریکہ کی دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں درج ہے۔ حماس قیادت کی غیر معمولی حکیمانہ کوششوں اور تدبر کی بدولت امریکہ اور اسرائیل کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہاں تک جی ایٹ اور بڑے ممالک کے درمیان اختلاف ہوگیا اور حماس لیڈران کو روس، سمیت متعدد مغربی ممالک اور تنظیموں نے حماس حکومت کو تسلیم کرلیا۔ اور عرب ممالک کی طرف سے مثبت جوابات اور عملی تعاون کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اس طرح سے عالمی پیمانے پر حماس کو یک و تنہا کردینے کی امریکی کوششیں ناکام ہوتی رہیں اور اس بات کو عالمی برادری سے تسلیم کرالیا کہ فلسطین میں ایسے گروہ بھی حکومت کرنے کا حق رکھتے ہیں جو اسرائیلی وجود کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے۔ اپنی سخت پالیسیوں کے باوجود اس کامیابی نے الفتح اور اس کے ٹولے کو بے چین کرکے رکھ دیا۔ اور اس کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں نے داخلی سیاست کو گرمانے کا راستہ اختیار کیا جس کا نتیجہ وہ حالات تھے جو گزشتہ ایک سال تک فلسطین میں دیکھے گئے۔ الفتح کے مسلح افراد حماس قیادت پر قاتلانہ حملے کرتے رہے۔ محمود عباس ایک منتخب حکومت کو Bypassکرنے لگے یہاں تک کہ حکومت کو برطرف کرنے کے لیے انھوں نے Document of Prisnorsپر ریفرنڈم کا اعلان کردیا جس کی رو سے حماس کو اسرائیل کا وجود تسلیم کرنا پڑتا یا حکومت چھوڑنی پڑتی لیکن پارلیمنٹ نے اس ریفرنڈم کو یکسر مسترد کردیا۔ انتہا اس وقت ہوئی جبکہ الفتح اور اس کے ٹولے نے حماس حکومت کے سربراہ اسماعیل ہانیہ پر قاتلانہ حملہ کیا اور ان کے ایک بھائی کو شدید طور پر زخمی بھی کردیا۔ ان سب اشتعال انگیز کارروائیوں کا حماس نے صبر و احتیاط سے جواب دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلے ایک سال میں مارے گئے ۱۰۰ سے زائد لوگوں میں اکثریت ایسے حماس سے وابستہ افراد کی ہے – عرب عوام اور فلسطینی عوام کو یہ معلوم ہونے لگا کہ الفتح کس کے ساتھ وفاداری نبھارہی ہے۔ ان کے منصوبے واشنگٹن اور اسرائیلی چینلوں میں تیار ہوتے رہیں اور حماس قیادت کو چاروں طرف سے گھیرنے کی یہ مذموم سازش رچتے رہے۔
یہ ہے وہ پس منظر جس کے بعد حماس نے امن معاہدہ کی اس پیشکش کو خوش خوشی قبول کرلیا ہے جسے سعودی فرمانرواں شاہ عبداللہ نے کی تھی۔ ظاہر تھا ایسے کسی معاہدے میں جو حماس پر داخلی دباؤ بنانے کے بعد ہونے جارہا ہو۔ حماس کو ہی زیادہ نقصان اٹھانا تھا۔ لیکن شاید حماس قیادت داخلی سطح پر انتشار ختم کرنے کی اپنی پالیسی پر مضبوطی سی قائم رہنا چاہتی تھی اور بالآخر یہ طے پایا کہ دو تین وزارتیں وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزارت مالیات چھوڑ دے گی۔ وزیر خارجہ آزاد ممبران پارلیمنٹ میں سے کسی کو بھی الفتح کی قیادت نامزد کرے گی جبکہ وزیر داخلہ کا تقرر آزاد اور مالیات، ممبران پارلیمنٹ میں سے حماس کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی ایک نائب وزیر اعظم الفتح کی طرف سے ہوگا۔ یہ ہے وہ معاہدہ جو حماس اور الفتح کی قیادت نے تسلیم کیا ہے جس کی پیش کش اور نقشہ سعودی عرب میں تیار کیا گیا اور مبارک شہر مکہ مکرمہ میں اسے اختیار کیا گیا۔ بظاہر اس میں حماس قیادت نے اپنی حیثیت کو اکثریت کے باوجود کمزور کرلیا ہے۔ لیکن عالمی ادارے، امریکی تھنک ٹینک کا نتیجہ یہی ہے کہ اس معاہدے میں سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہوا ہے۔ کیوں کہ اس پورے معاہدے میں کسی بھی امریکی مطالبے کو اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اسرائیلی وجود کو تسلیم کرنا، ’’دہشت گردی‘‘ کا راستہ ترک کرنا اور سابقہ معاہدوں کا پاس و لحاظ کرنا، ان میں سے کسی شرط پر کوئی گفتگو ہی نہیں ہوئی۔ ایک اہم پلیٹ فارم پر ان شرطوں کے بغیر کسی معاہدے کا ہونا امریکی اسرائیلی خیمے کے لیے بڑی setbackہے۔ عالمی اور داخلی سطح پر حماس کو Isolateکرنے کی سازش ناکام ہوجانے کے بعد اب امریکی وزارت خارجہ دوبارہ ایک نئے منصوبے کی تشکیل میں مصروف ہونے جارہا ہے۔
ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین