اللہ تعالیٰ سے تعلق مومن کا سرمایہ ہے

ساجدہ فرزانہ صادق

نیک عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا تعلق خدا سے صحیح اور مضبوط ہو۔ کیوں کہ اس کے بغیر کوئی انسان بھی نیکی نہیں کرسکتا، نہ ہی نیکی پر قائم رہ سکتا ہے۔ خود اللہ کے پیارے رسول ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو یہی تاکید کی ہے کہ لوگ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ یہ دوسرے تمام کاموں پر مقدم ہے۔ عبادت کے لیے ضروری ہے کہ بندے کا دل اللہ تعالیٰ سے لگا ہو۔ اخلاق درست کرنے کے لیے شرط ہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہو۔ معاملات کی درستگی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اللہ کی رضا کا حصول بندے کا مقصد نہ بن جائے اور اسی طرح ساری زندگی کا معاملہ ہے۔

اگر ہماری دوڑ دھوپ اور اعمال و افکار کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا جذبہ موجود ہو تو ہم یہی کہیں گے کہ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے درست ہے اور جو کچھ ہم کررہے ہیں وہ سب دینی کام ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ صورت نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ دینی کام نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے سب سے مقدم بات اللہ سے ہمارا تعلق ہے۔ یہ جتنامضبوط ہوگا اتنا ہی ہمارے کاموں میں خیروبرکت ہوگی اور آخرت کے انجام کے لحاظ سے ہمارے کام ہمارے لیے اتنے ہی مفید ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ سے تعلق ایک غیر محسوس کیفیت کا نام ہے لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کو ظاہر کرنے والی کچھ علامتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی پہچان کی پہلی علامت یہ ہے کہ انسان کے دل میں صرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہو اور اس کی نافرمانی و ناپسندیدگی سے بچنا ہو۔ اس کا ہر کام اللہ کی خاطر ہو، وہ کسی سے ملے تو اس لیے ملے کہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا اور کسی سے کٹے تو اس لیے کٹے کہ اللہ کو یہی پسند ہے۔

اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ ہی کے لیے روک رکھا اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا۔‘‘ (بخاری)

اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دوسری پہچان یہ ہے کہ انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت سے لبریز ہو۔یعنی خدا کی ایسی محبت بندے کے دل میں رہے جس پر دنیا کی ساری محبتوں کو قربان کیا جاسکے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور ایمان رکھنے والے مومنین اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔‘‘

قرآن و حدیث میں جابجا فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام کا دعویٰ کریں اور ان کو اللہ اور رسولؐ کے ساتھ اور اس کے دین کے ساتھ ایسی محبت اور اس درجہ کا تعلق نہ ہو وہ اصلی مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت سزا اور عذاب کے مستحق ہیں۔ سورۃ توبہ میں فرمایا گیا ہے:

’’(اے رسولؐ) تم ان لوگوں کو جتلادو کہ اگر تمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی برادر، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ اور تمہارا مال و دولت جسے تم نے کمایا ہے اور تمہاری تجارت جس کی کساد بازار سے تم ڈرتے ہو، اور تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں پسند ہیں (سو اگر یہ چیزیں) تم کو زیادہ محبوب ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کے دین کے لیے کوشش کرنے سے، تو اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو اور یاد رکھو کہ اللہ نہیںہدایت دیتانافرمانوں کو۔‘‘

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایمان کی مٹھاس اور دین کا ذائقہ اسی شحص کو نصیب ہوگا جس میں تین باتیں جمع ہوں (۱) اول یہ کہ اللہ و رسولؐ کی محبت اس کو تمام ماسوا سے زیادہ ہو (۲) دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی محبت کرے صرف خدا کے لیے کرے (گویا ذاتی اور حقیقی محبت صرف اللہ سے ہو) (۳) تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اور دین کو چھوڑنا اس کو ایسا ناگوار اور گراں ہو جیسا کہ آگ میں ڈالا جانا۔‘‘ (مشکوٰۃ)

اللہ تعالیٰ سے تعلق کی تیسری پہچان یہ ہے کہ نیک آدمی ان لوگوں سے دلی تعلق برقرار نہیں رکھ سکتا جو اللہ کے باغی اور اس کے مسلسل نافرمان ہوں۔ یہی اقرار ہم روزانہ دعائے قنوت پڑھتے ہوئے کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ اللہ کے نیک بندوں کی صحبت کو پسند کرتا ہے اور نیک لوگوں سے لگاؤ اور محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی بڑی پہچان اس کی اطاعت اور اس کے احکام کی فرمانبرداری ہے۔ اتفاقیہ غلطی ہوجانا اور بات ہے اگر ایسا ہوگا تو وہ بندئہ مومن جس کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہے فوری اپنے گناہ پر نادم و شرمسار ہوگا اور اللہ سے سچی توبہ کرے گا اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا اقرار کرے گا۔ مسلسل نافرمانی کرنے کے بارے میں یہی سمجھا جائے گا کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ٹوٹ گیا ہے یا بہت کمزور ہوچکا ہے۔اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق پیدا کرنے اور اسے بڑھانے میں نماز سب سے مقدم ہے۔ نماز ہی وہ عبادت ہے جو بندے اور خدا میں تعلق پیدا کرتی ہے اور اسے ہمیشہ قائم رکھتی ہے۔ دوسری اہم چیز ذکر الٰہی ہے یعنی اللہ کو ہر حال میں یاد رکھنا۔ تیسری چیز روزہ ہے۔ فرض ہی نہیں بلکہ نفل بھی۔ اور چوتھی چیز اللہ کی راہ میں اس کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرنا ہے اور جہاں تک ہوسکے اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے رکھنا اور کبھی غفلت میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فوری اپنے مالک سے معافی مانگ لینا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146