احسان شناسی
ماہرین نفسیات اور ماہرینِ سماجیات یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ انسانی و معاشرتی روابط کو مضبوط بنانے میں احسان شناسی اور کسی کی تعریف کردینا، دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ خاص طور سے ازدواجی رشتوں میں تو ان دونوں چیزوں کی بہت اہمیت ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ اس پہلو سے غفلت برتتے ہیں، بلکہ اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔
شوہر کی زبان سے کھانے کی تعریف سن کر یا خوبصورتی اور لباس و زینت کی تعریف سن کر بیوی کو کس قدر خوشی ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، البتہ بیوی کے لیے یہ تعریفی جملے ادا کرنے سے آپ کو کوئی زحمت نہیں ہوگی، بلکہ ان کے اثرات آپ کی محبوب بیوی پر انتہائی زبردست ہوں گے، وہ آپ پر حد سے زیادہ مہربان ہوجائے گی۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ تعریف پسند کرتا ہے اور یہ بات اسے اچھی لگتی ہے کہ کوئی اس کے احسان کو تسلیم کرے اور اس کی تعریف کرے۔ یہ چیزیں محبت و الفت کو دوام بخشتی ہیں۔ لیکن بہت سے شوہر اپنی بیویوں کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں، حالاںکہ یہ بخل ان کے لیے بیشمار پریشانیوں کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
بیوی کی بروقت تعریف نہ کرنے اور کسی کام پر اس کے لیے کلمہ شکر زبان سے نہ کہنے کی وجہ سے کتنی ہی شادی شدہ زندگیاں اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہیں۔ بہت سی بیویاں جب اپنے شوہر کی جانب سے اس قسم کا رویہ دیکھتی ہیں تو وہ اس کے لیے زینت و آرائش کااہتمام ختم کردیتی ہیں، بننا سنورنا بند کردیتی ہیں۔ عورت تو اس بات کی منتظر رہتی ہے اور وہ اسے اپنی جذباتی ضرورت سمجھتی ہے کہ اس کی شخصیت اور اس کے کام کی تعریف کی جائے، اسے سراہا جائے۔
شوہر کی خدمت میں
— اگر آپ بیوی کی تعریف نہیں کرتے ہیں تو اس سے آپ کا کیا نقصان ہے؟
٭ کوئی نقصان نہیں، البتہ کچھ برے نتائج ضرور سامنے آجاتے ہیں۔
—بیوی کی تعریف کردینے سے آپ کو کیا حاصل ہوجائے گا؟
٭بعض انتہائی اہم اور خوشگوار فوائد حاصل ہوں گے۔ مثلاً:
(۱) شوہر کے تعلق سے بیوی کے اندر غصہ و ناراضی اور نفرت و کراہیت کی آگ یکسر سرد پڑجائے گی۔
(۲) بیوی کی تعریف کردینے سے آپ اسے مایوسی اور احساس کمتری سے محفوظ رکھ سکیں گے۔ جس کا شکار بالعموم بیویاں رہتی ہیں۔ یہ چیز جب بڑھ جاتی ہے تو ازدواجی خوشیوں میں خلل پیدا کردیتی ہے۔
(۳) آپ کی زبان سے ادا کیا ہوا تعریف کا ایک جملہ آپ کی بیوی کو اپنی دن بھر کی تھکان اور بوجھل پن کو بھلا دینے کی طاقت فراہم کردیتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات وہ اپنے محبوب شوہر کی خوشی کے لیے اس تھکان اور پریشانی کو برداشت کرنے میں بھی لذت اور حلاوت محسوس کرنے لگتی ہے۔ کیونکہ اسے امید رہتی ہے کہ اس پر وہ اپنے شوہر کی زبان سے تعریف و استحسان کے جملے سن سکے گی۔
(۴) وہ شوہر کے لیے خود کو فنا کرنے، اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتی ہے۔
(۵) گھر میں ایسا نفسیاتی و تربیتی ماحول پیدا ہونے لگتا ہے جو بیوی کو بچوں کی تربیت صحیح انداز سے کرنے میں مدد دیتا ہے اور گھر کے کاموں کو بھی وہ خوش اسلوبی سے انجام دینے لگتی ہے۔
(۶) شوہر کی زبان سے اپنی تعریف سن کر وہ بھی جواباً شوہر کی تعریف کے لیے تیار رہتی ہے اور اس کی چھوٹی موٹی لغزشوں کو نظر انداز کرجاتی ہے۔
(۷) ایک دوسرے کی تعریف کرنا خوش گوار ازدواجی زندگی کی شاہ کلید اور خوش حال گھر کی عمارت کا بنیادی ستون ہے۔ اس کے ذریعے ایک دوسرے سے آسانی سے بلا تکلف کام لیا جاسکتا ہے۔
(۸) تعریف سے بیوی کے دل میں اپنے شوہر کے لیے محبت کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ اس کے اچھے اثرات پورے گھر کی خوشیوں پر پڑتے ہیں۔ کیونکہ بیوی شوہر سے زیادہ اس احساس کی ضرورت مند ہے کہ اس کا شوہر اس سے محبت کرتا ہے۔ اگرچہ دونوں ہی ایک دوسرے کی محبت کے ضرورت مند ہیں، لیکن بیوی کو زیادہ محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔
میری بونا پارٹ اپنی کتاب ’’عورت کی نفسیات‘‘ میں لکھتی ہیں: ’’یہ حقیقت ہے کہ مرد کے مقابلے عورت کہیں زیادہ محبت و الفت کی پیاسی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں وہ گویا بڑی عمر کی بچی ہے۔ عورت محبت میں ہی جیتی ہے۔ شوہر اور بچے کی محبت میں اور شوہر سے محبت میں۔‘‘
تعریف کیوں نہیں کرتے؟
بیوی کی خوبیوں کو اس کے سامنے بیان کرنا محض ایک اچھی اور قابلِ تحسین عادت ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جس کے ذریعہ وہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے، اپنی بیوی کو ہر طرح محفوظ کرلیتا ہے۔ اپنے گھر اور خاندان کی حفاظت کرتا ہے، لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس میں کنجوسی اور بخل سے کام لیتے ہیں۔
ذمہ داریوں میں مشغولیت
جو لوگ ہر وقت اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں اور بہانا بناتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ بیٹھ کر بیوی کی تعریف کریں؟ ایسے حضرات سے میں یہ کہوں گا کہ یہ محض ایک وہم ہے۔ کیونکہ اس کام کے لیے آپ کو کسی بڑے وقت کو فارغ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ اس میں کوئی محنت صرف کرنی ہے۔ اس کے لیے تو آپ کو صرف اس کی اہمیت کو محسوس کرنا ہے، اہمیت کا احساس ہوتے ہی آپ اس کام کو انجام دینے لگیں گے۔ اپنے ذہن میں یہ بات ہمیشہ رکھیں کہ ’’جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ بھی اس کے احسان کو نہیں مانتا‘‘ یہ آیت بھی ذہن میں رکھیے کہ ’’اچھائیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔ یہ نصیحت لینے والوں کے لیے یاد دہانی ہے۔‘‘ (ہود: ۱۱۴) اللہ کے رسولﷺ کی ہدایت ہے کہ ’’اگر بیوی کی ایک بات تمہیں بری لگتی ہے تو کوئی دوسری بات اچھی لگ جائے گی۔‘‘
بیوی کی تعریف سے بے اطمینانی
بہت سے لوگوں کو بیوی کی تعریف کرنے میں کوئی فائدہ ہی نظر نہیں آتا اس کے برعکس وہ اسے بیوی کی عادت خراب کرنے کا سبب سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اس کے اندر غرور آجائے گا۔ ان لوگوں کے ذہن میں بیوی کی تعریف کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ وہ عورت کے مزاج اور اس کی طبیعت سے واقف نہیں ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ اپنی بیوی حضرت فاطمہؓ بنت محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ آپ اس وقت پیلو کی لکڑی سے مسواک کررہی تھیں۔ حضرت علیؓ نے ان کے منہ سے وہ مسواک نکالی اور اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے (گویا اس مسواک کو مخاطب کرتے ہوئے) اشعار پڑھے جن کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے:
’’اے پیلو کی لکڑی تو حضرت فاطمہ کے منہ تک جانے میں کامیاب ہوگئی؟!! کیا تجھے ڈر نہیں لگا کہ میں تجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لوں گا ؟ اگر تو اہل قتال میں سے ہوتی تو میں تجھے قتل کردیتا کیونکہ تیرے علاوہ کوئی بھی میرے ہوتے ہوئے ان تک (حضرت فاطمہؓ) پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔‘‘
بیوی کی طرف سے تنگ دلی
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے حضرات اپنی بیویوں سے انتقام اور بدلہ لینے کے درپے رہتے ہیں۔ اسی انتقام کی آگ میں وہ ان کے محاسن اور ان کی خوبیوں کو دبانے لگتے ہیں، ان کی صلاحیتوں کو چھپانے لگتے ہیں۔ یہ کسی مسلم شوہر کا اخلاق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ ایک کامیاب شوہر کی نشانی ہے۔
ایک مسلمان شوہر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی،بردباری کا رویہ اختیار کرے، اس کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کردے۔ اسے یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ گھر کی کشتی کا ملاَّح ہے اور اس کشتی کو پرامن ساحل تک لے جانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے کشتی کو موجوں کے تھپیڑوں اور طوفانوں سے بچاتے ہوئے لے کر چلنا ہے۔ اسی طرح اسے یہ احساس اور شعور بھی رہنا چاہیے کہ اس کشتی میں اس کے علاوہ جو لوگ سوار ہیں وہ اس کی اپنی ہی اولاد ہیں۔ ان کی نجات اور حفاظت کی ذمہ داری اسی پر ہے، ان کی کسی بے راہ روی پر وہی گناہ گار ہوگا۔
فرض کیجیے کہ بیوی کا رویہ اذیت ناک ہے۔ وہ اس کو ایذا اور تکلیف دیتی رہتی ہے تو ایسی صورت میں اہلِ مصر کی اس کہاوت پر عمل کرنا چاہیے کہ ’’گلاب کا پھول حاصل کرنے کے لیے کانٹوں کو بھی سیراب کیا جاتا ہے۔‘‘ اسے اپنی اولاد کی خاطر ایسی بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک اختیار کرنا چاہیے۔
اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنا مدِ مقابل سمجھ کر کوئی رویہ اختیار کرے گا تو خاندانی سکون اور گھریلو خوشی حاصل ہونا ناممکن ہے۔ دونوں میں سے کسی میں بھی ایک دوسرے کے لیے انتقام اور بدلہ لینے کا جذبہ رہتا ہو تو اس صورت میں ازدواجی خوشیاں حاصل نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تو ضروری ہے کہ ازدواجی تعلقات کی بنیاد ہی باہمی تعاون پر ہو۔ اگر کسی ایک سے کوئی لغزش ہوگئی تو اس پر قابو پانے کے لیے دوسرا اسے نظر انداز کردے اور اس گڑھے کو وہیں پُر کردے کیونکہ اس گڑھے کو بند نہیں کیا جائے گا تو ممکن ہے گھر کے تمام لوگ اس میں گرجائیں۔ (ختم شد)
——