[ڈاکٹر محمد مجدی مرجان ایڈووکیٹ مصر کے رہنے والے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کے اہل قلم حضرات کے ایک بین الاقوامی وفاق کے صدر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اصلاً عیسائی تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والدین نے انھیں کلیسا کے حوالے کر دیا تھا تاکہ وہ خادمِ کلیسا کی حیثیت سے کلیسا کی خدمت کرسکیں۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان پر یہ واضح ہوتا گیا کہ کلیسائی رسومِ عبادت اور عقیدہ تثلیث ایسے امور ہیں جنھیں وہ خود اندر سے قبول نہیں کر پا رہے ہیں۔چنانچہ انھوں نے مطالعہ شروع کیا اور کئی برس حقیقت کی تلاش میں گزرا دیے۔آخر کار انھوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ اسلام نے جس توحید خالص کو پیش کیا ہے وہی برحق ہے اور اس کے علاوہ سارے عقائد باطل ہیںجنھیں عقل اور انسان کی فطرت دونوں ہی رد کرتی ہیں۔
اسلام پر شرح صدر حاصل ہوجانے کے بعد انھوں نے تین کتابیں تحریر کیں۔۱۔ اللہ واحد لا ثالوث ( اللہ: ایک نہ کہ تین)۔ اس کتاب میں انھوں نے عقلی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ عقیدہ تثلیث درست نہیں ہے۔اور یہ بات واضح کی ہے کہ قرآن اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ تمام صفات کا مالک صرف اللہ ہے اور طاقت وقدرت صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ۲۔ المسیح الہ ام انسان ( مسیحؑ: معبودیا انسان)، ۳۔ محمدﷺ نبی الحب (محمدﷺ: پیغمبر محبت)۔ان دونوں کتابوں کے ذریعے سے انھوں نے عیسائیوں کو سیدھی راہ دکھانے اور حقیقت کے لیے ان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن انھیں اپنے اہل خانہ اور مسیحی احباب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان لوگوں نے انھیں قتل کرنے کی کوشش کی، لیکن اللہ تعالی نے انھیں بچا لیا اور ان کی اذیتوں سے محفوظ رکھا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سے عیسائی ایسے ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ہی صحیح دین ہے لیکن اہل خانہ کا خوف اور رسوائی کے ڈر انھیں اسے قبول کرنے سے باز رکھتا ہے، ورنہ اندر سے ان کا دل یہ اعتراف کرتا ہے کہ کلیسائوں میں جو کچھ کہا یا بتایا جاتا ہے وہ غیر روحانی اور غیر منطقی ہوتا ہے۔نومبر کے شمارے میں المجتمع نے ان سے ایک انٹرویو شائع کیا ہے جس کا ترجمہ مسلسل مضمون کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
اسلام کے قریب آنے اور قبول کرنے کے سلسلے میں انھوں نے کہا: ’’قرآن کریم اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔کسی اور بات سے قطع نظر یہ کہ اللہ نے مجھے ہدایت سے نواز دیا۔]
میں اپنی زندگی کے آغاز میں تثلیث کے ایک اسکول سے وابستہ ہوگیا۔ مقصد یہ تھا کہ میں اس عقیدے کا داعی بنوں اور اس کی تعلیم واشاعت کے لیے جدو جہد کروں۔جب میں پوری طرح اس مقصد کے لیے تیار ہوگیا تو میں خدائے ثلاثہ (باپ، بیٹا اور روح القدس) کا داعی بن گیا اور اسی عقیدے کی تعلیمات اور رسوم عبادت کی تبلیع کرنے لگا۔
لیکن میں نے خواب میں نبی محمدﷺ کو دیکھا۔ یہ خواب اسلام کے مطالعے کی طرف راغب ہونے کا سبب بنا۔میں نے گہرائی سے اس کا مطالعہ کیا ۔ میں ہمیشہ مسلمانوں سے ایک بات کہتا ہوں کہ ’’آپ لوگوں کو اسلام وراثت میں ملا ہے، لیکن میں نے سے دراست (یعنی مطالعہ) سے حاصل کیا ہے۔ میرے اندر یہ جرأت تھی کہ خطرات کے باوجود میں قبول اسلام کا اعلان کروں ۔
خادم کلیسا کی حیثیت میں
کلیسائوں کی تعمیر میرے اہل خانہ کا پیشہ تھا۔ کلیسا ئوں کی تعمیر کے کام سے خوش ہو کر بڑے پادریوں نے میرے والد سے کہا کہ ہم تمھاری عزت افزائی کریں گے اور تمھارے بیٹے کو خادم کلیسابنائیں گے۔ اس طرح بچپن سے ہی میری نشو نما کلیسا میں ہونے لگی۔میری پرورش بھی دوسرے پادریوں کی طرح اسی نہج پر ہوئی تھی کہ میں بھی اس دن کا انتظار کرنے لگا جس دن میرے اطراف میں موجود ہر اسلامی شے ، یا ہر اس شے سے مجھے نجات مل جائے گی جس کا اسلام سے دور ونزدیک کا تعلق ہے۔
مصر میں بسنے والے عیسائی اپنی عیسائیت رسموں اور گیتوں کو نہیں بھولتے۔ ان رسموں اور گیتوں کی ادائیگی کے لیے جشن اور پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور بُرجوں اور گھنٹوں سے آراستہ کلیسا تیار کئے جاتے ہیں۔
کلیسا کے اندر میرا جو کام تھا، اس نے مجھے مسیحیت سے بہت زیادہ متنفر کر دیا۔تصویروں کی پوجا، بپتسمہ دینے کی رسم وغیرہ نے مجھے عیسائیت کے خلاف مشتعل اور پریشان کر دیا۔ مجھ پر یہ بات منکشف ہو گئی کہ وہ مسیحیت نہیں ہے جو حضرت عیسیؑ پر نازل ہوئی تھی۔باپ دادا سے وراثت میں ملنے والے اس عقیدے پر میں اپنے دل کو مطمئن نہیں کر سکاجو میرے دل وذہن میں ایک دن کے لیے بھی سما نہیں سکا۔لیکن میں ڈانوا ڈول اور کمزور ہو رہا تھا۔
ہدایت پالینے اور اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ نبیﷺ کے اس ارشاد نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا کہ تمام انبیا بھائی بھائی ہیں اور اسلام وہ آخری اینٹ ہے جس نے عقیدۂ توحید کی عمارت کو مکمل کردیا ہے ۔ چنانچہ میں حقیقی مسیحیت اور اس توحید پر ایمان لے آیاجس کا خاتمہ اسلام پر ہوا ہے اور جس نے مسیحیت میں زمانے سے آئی ہوئی تحریف کو درست کر دیا ہے۔
ہدایت کا سبب: قرآن
جب میں نے قرآن کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو مجھ پر یہ بات عیاںہوئی کہ صرف یہی ایک کتاب ہے جس نے عیسی مسیحؑ کی والدہ حضرت مریم کو بری قرار دیا ہے اور ان کی عزت وتکریم اس طرح کی کہ ان کے نام سے ایک سورت نازل کر دی۔نیز ان کے بارے میں قرآن میں یوں فرمایا گیا: ’’اور جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم !اللہ نے تمھیں چن لیا ہے، اور تمھیں پاک کیا ہے اور تمھیں دنیا کی تمام عورتوں میں سے منتخب کیا ہے۔‘‘ (آل عمران: ۴۲)
میں نے انجیلوں میں یہ پڑھا ہے کہ حضرت عیسیؑ نے یہود کے بارے میں فرمایا: ’’میں اپنے خاص لوگوں کے لیے آیا ، لیکن میرے خاص لوگوں نے ہی مجھے قبول نہیں کیا۔‘‘ یہودیوں نے حضرت عیسیؑ کی نبوت کا انکار کیااور ان کی پاک دامن والدہ حضرت مریم کے دامن پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ان کے بارے میں یہ کہا کہ ’’انھوں نے یوسف بڑھئی کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے اور یوسف زناکار ہیں۔‘‘ میں نے ایک کتاب لکھی ہے اللہ واحد لا ثالوث (اللہ : ایک نہ کہ تین)اور المسیح نبی لا کہنوت (حضرت مسیح: نبی نہ کہ کاہن)۔
اہل خانہ کا ردعمل
میرے اہل خانہ نے میرے خلاف جنگ چھیڑ دی اور بارہا مجھے قتل کرنے کی کوشش کی۔مقام صعید میں آباد میرے خاندان نے تو کئی بار میرے تعلق سے مجلس عزا بھی منعقد کی کیوں کہ ان کے خیال میں اب میرا ان سے کوئی تعلق یا رشتہ نہیں رہ گیا تھا۔میری وجہ سے میری والدہ کو بھی تکلیف دی گئی یہاں تک کہ انھیں اس بات کے لیے مجبور کر دیا گیا کہ وہ مجھ سے نفرت کرنے لگیں۔میں دین کے معاملے میں ان سے بحث مباحثہ بھی کرتا، بعض کے ساتھ میں ساری رات بیٹھ کر اسی مسئلے پر گفتگو کرتا رہا لیکن فجر کے وقت تک بھی وہ مجھے اپنے عقیدے کی درستی پر قانع ومطمئن نہیں کر سکے۔میں تو ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ دین بندے اور اس کے رب کے درمیان تعلق کا نام ہے۔
موجودہ انجیلوں کی حیثیت
موجودہ تمام انجیلوں کے مضامین بودھزم کے عقیدے سے ماخوذ ہیں جو کہ بت پرستی سے قریب تر ہے، اور پولس رسول سے ماخوذ ہیں جس نے حضرت مسیح کو دیکھا نہیں پھر بھی اس نے انجیل تصنیف کر ڈالی، حالانکہ وہ حضرت مسیح سے نفرت کرتا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ کو بدنام کرنے کے لیے ایک کلام تصنیف کرکے اس کی نسبت حضرت مسیحؑ کی طرف کر دی۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اسے وثیقۂ غفران کی حیثیت دے دی ہے۔ یعنی اس کے بغیر کسی کی مغفرت نہیں ہو سکتی۔اپنی مرضی سے جسے چاہا جنتی اور جسے چاہا دوزخی بنا دیا۔ عیسیؑ کو اللہ کا بیٹا بنا دیا اور ایک اللہ کو تین : بیٹا، باپ اور روح القدس) بنا دیا۔یہ بات میرے لیے موجب تعجب تھی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ خود کو پیدا کرے اور اور پھر ایک بیٹے کو بھی جنم دے؟!
ایک عالم بریسٹڈنے انجیل کو قدیم اور جدید دو عہدوں میں تقسیم کرکے اس میں تحریف کا بھانڈا اس طرح پھوڑا ہے: عہد قدیم کے سلسلے میں تمام علماء کی بیشتر آرا اور ان کے مقالات اس پر ہیں کہ ’’سفر الامثال‘‘ کے مشتملات قدیم مصری فلسفی ’’امین موبی‘‘ کے من و عن نقل ہیں۔‘‘
یعنی عہد قدیم کاعبرانی نسخہ دراصل قدیم ہیرو گرافی زبان کا لفظی کا ترجمہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے تمام یہودی اور عیسائی موجودہ اور سابقہ جو کچھ انجیل کے ’’ عہد قدیم‘‘ کے جز کے طور پر پڑھتے آئے ہیں، وہ سب ان قدیم مصری حکماء کے اقوال ہیں جو موحد اور مومن تھے۔
آباء پرستی دین نہیں
عیسائیوں سے میری جو بحث ہوتی ہے، اس کے دوران میں ان کے سامنے یہ بات تاکید کے ساتھ پیش کرتا ہوں کہ حقیقی ایمان کے لیے محض یہ کافی نہیں کہ آپ کو عقیدہ وراثت میں ملا ہے اورآپ اپنے باپ دادا اور بزرگوں کی پیروی کرتے ہیں۔دین کبھی بھی لگے بندھے اقرار کا نام نہں رہا ہے اور نہ ہی اس کا مطلب یہ رہا ہے کہ آپ ان رسوم کے پیچھے چلتے رہیں جن کی پیروی ہوتی چلی آرہی ہے اور بغیر سوچے سمجھے آپ نے اسے وراثت کے طور پر قبول کر لیا ہے۔دین تو ہمیشہ حق کی طرف لوگوں کو بلانے اور باطل کے خلاف بغاوت کرنے کا نام رہا ہے۔ اگر عقیدہ کوئی موروثی چیز ہوتی تو لوگ کبھی بھی باطل سے حق کی طرف نہ آپاتے، اور بت پرستی کو چھوڑ کر خالق کے پرستار نہ بن پاتے اور آج بھی دنیا کا وہی نقشہ ہوتا جو ہزاروں برس پہلے تھا کہ دنیا اوہام وخرافات کے سمندر میں تیر رہی تھی۔
تثلیث: عقل کے لیے ناقابل قبول
موجودہ انجیل حقیقت میں انجیل کے نام پر دھوکہ ہیں۔ اللہ کے نبی حضرت یسعیاہؑ توراۃ میں اللہ کی شبیہ بنانے والوں اور ایک سے زیادہ معبود ہونے کا دعوی کرنے والوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ’’پس تم خدا کو کس سے تشبیہ دوگے؟ اور کون سی چیز اس سے مشابہ ٹھہرائوگے؟‘‘ (یسعیاہ: ۴۰/۱۸)۔ اس کے بعد حضرت یسعیاہؑ اللہ کی شبیہ اور اس کی مورت بنانے والوں کو اللہ تعالی کا یہ ارشاد سناتے ہیں: ’’تم مجھے کس سے تشبیہ دوگے؟ اور مجھے کس کے براربر ٹھہرائوگے اور مجھے کس کی مانند کہو گے تاکہ ہم مشابہ ہوں؟(یسعیاہ: ۴۶/۵)۔ صحیح بات ۔۔۔ آپ اللہ کو کس سے تشبیہ دیں گے ، اسے کس کے برابر قرار دیں گے، یا کسے اس جیسا قرار دیں گے؟ کیا اللہ کی ہی بنائی ہوئی کمزور مخلوق میں سے کسی کو اس کے برابر قرار دیں گے، یا اسے کسی بھی پہلو سے اللہ کے جیسا بنا دیں گے؟!
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’میں ہی اول اور میں ہی آخر ہوں، اور میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔‘‘ (یسعیاہ: ۴۴/۶)۔ نیز فرماتا ہے: ’’سو اب تم دیکھ لو کہ میں ہی وہ ہوں اور میرے ساتھ کوئی دیوتا نہیں۔‘‘ (استثنا: ۳۲/۳۹)۔ مزید فرمایا: ’’میں خداوند لا تبدیل ہوں۔‘‘ (ملاکی: ۳/۶)۔
یہ اسی تورات کے الفاظ ہیں جو یہودیت کا دستور اور عیسائیت کی بنیاد ہے۔یعنی اس کتاب کے الفاظ ہیں جسے یہودی مقدس سمجھتے ہیں اور عیسائی جس پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہم نے جب اس کتاب کی چھان پھٹک کی تو ہمیں کسی بھی کاہن کا ایسا قول نہیں ملا جو تثلیث کی بات کرتا ہو، نہ ہی کسی ایسے نبی کا ذکر ملا جو ایک سے زیادہ معبود ہونے کی بات کرتا ہو۔نہ ہمیں اس کے اندر اس بات کا ذکر ملا کہ ایک ہی شخصیت کے اندر بیک وقت تین خدا موجود ہیں اور نہ ہی اس کا سراغ ملا کہ اس کا کوئی مثیل وہم سر بھی ہے۔یہی موقف تمام انبیا اور یہودی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔
مسلمانوں کے زوال کا سبب
مسلمانوں کے زوال کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے دین کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے جس کا تعلق معاملات سے ہے، حالانکہ دین میں اس کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: ’’میری بعثت اس لیے ہوئی ہے تاکہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘ اگر ہمارے روز مرہ کے معاملات میں اخلاق کا ہی مظاہرہ نہ ہو تو پھر مسلمان ہونے کا کیا فائدہ؟۔ مغرب نے ترقی کی ہے تو اس لیے کہ اس نے اسلام کی اس اخلاقیات کو اختیار کیا ہے کہ بھلائیوں کے لیے جدو جہد کی جائے۔ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود صداقت وامانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مسلمان کلیسا کے محافظ
مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ عیسائیوں کو(مصر کے اندر) مسلمانوں کی جانب سے مظالم کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ مسلمان کلیسائوں کی حفاظت کرتے اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔اس سلسلے میں کئی پادریوں کے بیانات بھی موجود ہیں جو اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں۔lll