’’اما ببن میاں جانتے ہو، اس بار بقرعید پر قربانی کے لیے چاچا چودھری ۱۲ ہزارروپے کا ایک لیحم شحیم بکرا لائے ہیں۔ اسے دیکھ کر اس گوشت کی یاد آگئی، جو گزشتہ بقرعید پر آپ کے گھر کھایا تھا۔‘‘
مفت کی دعوتوں کے شوقین، سلیم پاشا نے جب چاچا چودھری کے بکرے کی تعریف کی تو ببن استاد کے دل میں ایک بار خیال آیاکہ اسی وقت سلیم پاشا کا گلا دبادیں۔ پھر اپنے اس خیال کو دل میں ہی رہنے دیا کہ چودھری کے ساتھ والی اپنی سرد جنگ کو کیوں ظاہر کروں۔ سلیم پاشا ویسے بھی ’’راز‘‘ اخبار کا ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر تھا، وہ خواہ مخواہ اس سرد جنگ کو ہوا دے کر چنگاری والی جنگ بنادیتا۔ ببن استاد، سلیم پاشا کی چائے پی کر ’’راز‘‘ کے دفتر سے نکلے ہی تھے کہ سوشل ورکر کلیانی سنگھ مل گئی۔ بولی: ’’راستے میں چودھری صاحب اور ان کا بیٹا فضلو ملے تھے۔ وہ اپنے بکرے کو گھاس چرا رہے تھے۔ بہت ہی زبردست بکرا لائے ہیں۔ چودھری صاحب۔‘‘
کلیانی سنگھ تو بول کر چلی گئی، لیکن ببن استاد پیچ و تاب کھا کر منہ ہی منہ میں بڑ بڑا اٹھے۔’’چوٹّے چودھری، بکرے کو گھاس چرانے کے بہانے پبلسٹی بٹورنے نکلا ہے۔‘‘
ببن استاد مسجد والی گلی میں پہنچے تو غفور بھائی بک اسٹال والے مل گئے۔ ’’آہا، ببن استاد! آپ نے سنا اپنے چودھری صاحب ۱۲؍ہزار کا ایک بڑا ہی شاندار بکرا لائے ہیں۔ پورے محلے میں اس کے جوڑ کاکوئی دوسرا بکرا نہیں ہے۔‘‘
ببن استاد نے سوچا کہ چودھری پورے محلے میں اپنے بکرے کی پبلسٹی کراکے اس بار بازی مار لے جانے کے چکر میں ہے۔ چودھری کا بکرا گویا بکرا نہ ہوکر امیتابھ بچپن کا پروگرام ’’کون بنے گا کروڑپتی‘‘ ہوگیا تھا، جس آج گلی گلی میں چرچا ہے۔ ببن استاد گھر پہنچنے تو ان کا مرغا شاہجہاں اڑکر ان کی گود میں آبیٹھا۔ شاہجہاں کو دیکھ کر ان کا سینہ فخر سے تن گیا کیوں کہ شاہجہاں کی جوڑ کا ایک بھی لڑاکو مرغا، پورے شہر میں نہیں تھا۔ اس لیے ببن استاد نے قسم کھائی کہ اس بار بقرعید پر وہ قربانی کے لیے ایک ایسا بکرا لائیں گے کہ لوگ چودھری کے بکرے کو بھول کر صرف انہی کے بکرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہیں گے کہ بکرا ہو تو ببن استاد کے بکرے جیسا۔
بقرعید کو چار دن رہ گئے تھے، یعنی ببن استاد کے حساب سے اُن کے پاس پبلسٹی کے لیے صرف چار ہی دن باقی بچے تھے، تبھی انھیںخیال آیا کہ آج صبح کے ہی اردو اخبار میں انھوں نے ایک بکرے کا اشتہار دیکھا تھا، جس کے پیٹ پر قدرتی طور پر ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ وہ بکرا منڈی میں بکنے کے لیے آیا ہے اور مالک نے اس کی قیمت ۵۱؍ہزار رکھی ہے۔ ببن استاد کو لگا کہ یہ ’’اللہ‘‘ والابکرا ہی انہیں ایک منٹ میں پورے محلے میں مشہور کرواسکتا ہے۔ لہٰذا انھوں نے جلدی سے بینک جاکر روپئے نکالے اور سیدھے منڈی پہنچے۔ انھیں ڈر تھا کہ کہیں دوسرا خریدار وہ بکرا نہ لے اڑے۔ منڈی میں بھی اس بکرے کی چرچا تھی، اس لیے ببن استاد کو اللہ والے بکرے تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ بکرے کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی زبردست بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ بکرے کے مالک ایک راجستھانی بڑے میاں تھے۔ ببن استاد نے آگے بڑھ کر بکرے کے اللہ والے نشان پر ہاتھ پھیرا تو بڑے میاں شاعرانہ انداز میں بولے: ’’اللہ کی دیکھو شان، بکرے کے پیٹ پر لکھا ہے اللہ کا نام۔‘‘
ببن استاد بولے: ’’بڑے میاں، کیا صرف اسی وجہ سے آپ نے اس کی قیمت اتنی زیادہ رکھی ہے؟‘‘
’’نہیں حضرت، آخر اللہ کو منہ دکھانا ہے۔ جب یہ بچہ تھا، تبھی ہمیں اس کے پیٹ پر اللہ نظر آگیا تھا۔ اس لیے تب سے لے کر اب تک ہم نے اس کی گھاس پھوس سے نہیں بلکہ کاجو اور بادام پستے کھلا کھلا کر پرورش کی اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ حضرت آج کل کاجو اور بادام پستے سونے کے بھاؤ سے بک رہے ہیں۔‘‘
ببن استاد نے پچیس ہزار میں بکرا مانگا تو بڑے میاں اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ تبھی ایک اور صاحب بکرے کو خریدنے کے لیے آپہنچے۔ انھوں نے ۴۵؍ہزار تک کی آفر کی۔
بڑے میاں ببن استاد سے بولے: ’’دیکھا حضرت، آپ صرف پچیس ہزار پر اٹکے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے اصلی قدردان تو یہ صاحب نکلے۔‘‘ ببن استاد کو لگا کہ بکرا ہی نہیں، پبلسٹی اور چودھری کو نیچا دکھانے کا موقع بھی ہاتھ سے نکلا جارہا ہے، اس لیے انھوں نے جھٹ سے ۵۱ ہزار بڑے میاں کو تھمائے اور خود بکرے کی رسی تھام لی۔ اللہ والا بکرا لے کر ببن استاد جب اپنی گلی میں پہنچے تو یہ بات گلیوں سے ہوتی ہوئی محلوں اورمحلوں سے اڑتی ہوئی پورے شہر میں پھیل گئی کہ ببن استاد نے اللہ والا اور کاجو، بادام کھانے والا بکرا ۵۱؍ہزار میں خرید لیا ہے۔ بکرے کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا تانتا لگ گیا۔ ببن استاد اس راجستھانی بڑے میاں کی طرح چارپائی پر لیٹے شاعرانہ انداز میں اسے کے جملے دہرا رہے تھے۔ ’’اللہ کی دیکھو شان… بکرے کے پیٹ پر لکھا ہے اللہ کانام۔‘‘
بکرا دیکھنے والوں میں چاچا چودھری بھی تھے۔ انھوں نے بھی اس ۵۱؍ہزار والے بکرے کی خوب تعریف کی۔ مگر ببن استاد جانتے تھے کہ اس وقت چودھری کے سینے پر ۵۱؍ہزار سانپ لوٹ رہے ہوں گے۔ سلیم پاشا کو پتہ چلا تو وہ اپنے فوٹو گرافر احمد پٹنی کو ساتھ لیتا ہوا آیا اور ببن استاد کی بکرے کے ساتھ فوٹو اتروائی، تاکہ ’’راز‘‘ کے ’’عید نمبر‘‘ میں اسے شائع کرسکے۔ پورے چار دن تک ہر طرف ببن استاد کے اللہ والے بکرے کا ذکررہا۔ ببن استاد خوش تھے کہ انہیں جو پبلسٹی مل رہی ہے، وہ ۵۱؍ہزار میں بھی سستی ہے۔ جب سے ان کابکرا آیا تھا، تب سے چودھری کے بکرے کو کوئی پوچھ نہیں رہا تھا۔
عیدالاضحی کی صبح، نماز سے فارغ ہوکر ببن استاد قربانی کی تیاری میں لگ گئے۔ چنو قصائی پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔ اس نے بھی فیصلہ کررکھا تھا کہ وہ بقرعید کے دن اپنے دھندے کی شروعات ببن استاد کے اس مشہور بکرے سے ہی کرے گا۔ ببن استاد نے قربانی کے لیے اپنے ہاتھ میں چھری لی ہی تھی کہ تبھی انسپکٹر اکرم خان، راجستھانی بڑے میاں اور ان صاحب کو ہتھکڑیاں ڈالے لے آیا، جنھوں نے اس بکرے کے لیے ۴۵؍ہزار کی آفر کی تھی۔
اکرم خان نے بتایا کہ یہ دونوں پرانے ٹھگ ہیں اور ہر سال الگ الگ شہروں میں ’’اللہ‘‘ والے بکرے بھاری قیمتوں میں بیچ کر لوگو ںکو ٹھگتے ہیں۔ یہ دوسرے صاحب بہت اچھے پینٹر ہیں۔ یہ آئل پینٹ سے بکروں کے پیٹ پر اتنی خوبصورتی سے ’’اللہ‘‘ لکھتے ہیں کہ لگتا ہے پیدائشی نشان ہے۔ اس بار ببن استاد کو ایک بکرا بیچنے کے بعد یہ دوسرا اللہ والا بکرا بیچ رہے تھے کہ رنگے ہاتھوں دھر لیے گئے، لیکن ان کاایک ساتھی سارا روپیہ لے کر فرار ہوگیا۔
ببن استاد کو یقین نہیں آرہا تھا، مگر جب ان ٹھگوں نے خود قبول کیا تو ببن استاد کو یقین کرنا پڑا۔ محلے کے جو لوگ اب تک واہ واہی کررہے تھے، وہ اب ببن استاد کے ٹھگے جانے پر ہنس رہے تھے۔ ان ہنسنے والوں میں چاچا چودھری اور ان کا بیٹا فضلو سب سے آگے تھے۔ ببن استاد نے قربانی تو اسی بکرے کی کی، مگر پہلی بار ان کی آنکھو ںسے ندامت کے آنسو چھلک پڑے۔ چودھری کو نیچا دکھانے کے چکر میں وہ قربانی کے اصلی مقصد کو بھلا بیٹھے تھے۔ قربانی تو دراصل ایک عظیم اور پرخلوص جذبہ ہے،جو انسانی اعمال میں سے، اللہ کو سب سے محبوب ہے۔ قربانی کے جانور کا خون اور گوشت اللہ کو نہیںپہنچتا، وہ تو صرف بندے کا تقوی دیکھتا ہے۔
ببن استاد نے اللہ سے معافی مانگتے ہوئے ٹھنڈی سانس چھوڑ کر کہا: ’’آہ…اللہ والا بکرا…!‘‘
——