روزنامہ جنگ کے مطابق ۱۲؍جنوری ۱۹۸۸ء کی شب گلگشت کالونی ملتان میں مقامی امیرِ جماعت اسلامی عبدالمحسن شاہین صاحب کے کرائے کا مکان میں پانچ ڈاکو گھس گئے۔ انھوں نے چادریں اوڑھی ہوئی تھیں اور ان کا لب و لہجہ سندھی تھا۔ وہ کار پر آئے تھے۔ ان کا چھٹا ساتھی باہر کار میں بیٹھا رہا۔ ڈاکوؤں نے گھر میں داخل ہوکر تلاشی لینا شروع کردی۔اسی اثنا میں عبدالمحسن شاہین صاحب کے بڑے بھائی اکرام الحق صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھے تو ڈاکوؤں نے ریوالور دکھا کر ان پر قابو پالیا۔ اس کے بعد ان کے دوسرے بھائی فیض الحق صاحب کی آنکھ بھی کھل گئی مگر ڈاکوؤں نے انھیں بھی گولی مارنے کی دھمکی دے کر خاموش کرایا۔ پھر انھوں نے تینوں بھائیوں کو کمرے میں بند کردیا اور ان کی والدہ سے گھر کی چابیاں حاصل کرلیں۔ انھوں نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا کہ انھیں کوئی زیور یا نقدی مل جائے مگر سخت مایوسی ہوئی۔ شاہین صاحب کی اہلیہ کے کمرے میں ایک آہنی سیف پڑا تھا۔ انھوں نے اسے توڑا تو اس میں سے بھی کوئی کام کی چیز نہ نکلی۔ اس پر ان کی اہلیہ نے ڈاکوؤں سے کہا: ’’بھائی! یہ اللہ والوں کا گھر ہے۔ یہاں تمہیں اللہ کے نام کے سوا اور کچھ نہ ملے گا۔‘‘
ایک ڈاکو نے فیاض الحق صاحب کی تلاشی لیتے ہوئے ان کی جیب میں جو نقدی تھی، نکال لی تھی۔ دوسرے ڈاکو نے کتابوں کی الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’کیااس میں صرف کتابیں ہیں؟‘‘ شاہین صاحب کی اہلیہ نے کہا: ’’قرآنِ مجید بھی ہے۔‘‘ ڈاکو نے قرآنِ مجید کو احترام سے اٹھایا اور اسے بوسہ دے کر رکھ دیا۔
ڈاکو چلے گئے تو دیکھا کہ قرآن مجید کے اوپر وہ رقم رکھی ہوئی تھی جو ایک ڈاکو نے فیاض الحق صاحب کی جیب سے نکالی تھی۔
ایک ڈاکو نے گھر سے جاتے وقت شاہین صاحب کی معمر والدہ کے احترام سے پاؤں چھوئے۔ جاتے وقت اس کے الفاظ تھے: ’’آپ میری ماں ہیں۔‘‘ ایک اور ڈاکو نے گھر کی تلاشی کے دوران میں اسے جو دوبالیاں ملی تھیں وہ محسن شاہین صاحب کی والدہ صاحبہ کے حوالے کردیں اور خاموشی سے چلے گئے۔
(ایشیا لاہور، ۲۲؍جنوری ۱۹۸۹ء)