سبز باغ دکھا کر لوٹنے والے نو سر باز بڑے چالاک، شاطر اور چرب زبان ہوتے ہیں۔ بات سے بات پیدا کرنا، ہاتھ کی صفائی دکھانا اور دوسروں کے دلوں میں بیٹھ جانا ان کا کامیاب ہتھیار ہوتا ہے۔ اکثر سادہ لوح لوگوں بالخصوص عورتوں کو اپنی بزرگی، فقیری اور غیب دانی کا فریب دے کر لوٹتے ہیں۔
خالہ شریفاں بہت سادہ طبیعت ہیں۔ وہ صرف نام کی ہی شریفاں نہیں بلکہ عادت کی بھی شریفاں ہیں۔ خالہ کی صحت کچھ خراب رہتی ہے۔ ان کی مالی حالت بھی اچھی نہیں، جس کی وجہ سے خالہ اکثر پریشان رہتی ہیں۔ وہ ہر کسی کو اپنی صحت کی خرابی اور غربت کا دکھڑا سناتی ہیں۔ دم جھاڑ کو بہت مانتی ہیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ دوپہر کا وقت ایک بھکاری نے خالہ کے دروازے پر صدا لگائی تو خالہ نے اسے آٹا دیا مگر بھکاری نے آٹا لینے سے انکار کردیا اور کہا: ’’ہم اللہ والے ہیں۔ آٹا نہیں لیتے۔ اپنے تن کا کوئی کپڑا دے دو یا پھر سوا سات روپے نقد دے دو۔ میرا مولا تیری سب مرادیں پوری کرے گا۔‘‘ پھر وہ خالہ کو قریب بٹھا کر بزرگانہ لہجے میں کہنے لگا: ’’بیٹی! تو پریشان رہتی ہے۔ تیری صحت بھی خراب رہتی ہے۔ میں تیری حقیقت جان گیا ہوں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میرا مولا کرم کرے گا۔‘‘
خالہ نے جب فقیر کی زبانی یہ باتیں سنیں تو بہت متاثر ہوئیں اور بھکاری سے کچھ روحانی عمل کرنے کی درخواست کی۔ وہ بولا مولا کرم کرے گا اور تیری سب پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔ میں ابھی تیرے سامنے ایک ایسا عمل کروں گا کہ سب ٹھیک ہوئے گا۔ ہر بلا دور ہوجائے گی دولت بھی ملے گی اور صحت بھی۔‘‘
’’بابا جی! تمہاری بڑی مہربانی ہوگی۔ یہ نیکی کبھی نہ بھولوں گی۔‘‘ خالہ نے عاجزانہ لہجے میں کہا۔
بھکاری نے جب دیکھا کہ عورت پوری طرح اس کی باتوں میں آچکی ہے تو بولا: ’’بیٹی! تو پہلے دو سیر چاول، دو سیر آٹا، دو سیر گڑ، سوا سات گز سفید کپڑا، اپنے میاں کی پرانی چادر اور سوا دو سو روپے نقد مجھے دے۔ میں ابھی تیرے سامنے ایک ایسا عمل کروں گا کہ جس کے اثر سے غربت بھی دور ہوجائے گی اور بیماری بھی بھاگ جائے گی۔‘‘
خالہ نے یہ سب چیزیں کچھ گھر سے اور کچھ ہمسائی سے مانگ کر مہیا کردیں تو فقیر نے سب چیزیں اپنے تھیلے کے قریب رکھ لیں اور منہ میں کچھ پڑھنا شروع کردیا۔ خالہ قریب بیٹھی رہی کوئی دو منٹ بعد ملنگ نے خالہ کو کہا ’’بیٹی! تو ذرا پیچھے ہٹ کر منہ اپنے گھر کی طرف پھیر کر بیٹھ جا۔ تیرے قریب بیٹھنے کی وجہ سے عمل میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔‘‘
تب خالہ اٹھ کر پرے ہوگئی اور منہ دوسری طرف پھیر کر بیٹھ گئی۔ ایک منٹ، دو منٹ، پانچ منٹ اور پھر آدھا گھنٹہ بیت گیا خالہ بدستور منہ پھیر کر بیٹھی رہی۔ جب کافی دیر ہوگئی تو خالہ نے پلٹ کر دیکھا تو وہاں نہ ملنگ تھا اور نہ وہ چیزیں۔ نہ جانے کب کا وہ سب چیزیں تھیلے میں ڈال کر رفو چکر ہوچکا تھا۔ خالہ نے جب ملنگ کو غائب پایا تو پریشان ہوکر گلی میں نکل کر ملنگ کو تلاش کرنے لگیں مگر وہ نہ ملا۔
اب کیا ہوسکتا تھا ملنگ تو کمال چالاکی سے ٹھگی کرگیا تھا اب اس کو ڈھونڈنا اور تلاش کرنا بڑا مشکل کام تھا۔
محلے میں جس کسی نے بھی خالہ کے ساتھ ملنگ کی اس ٹھگی کے متعلق سنا بہت افسوس کیا اور افسوس کے ساتھ ساتھ خالہ کی سادگی کی ہنسی بھی اڑائی۔ خود خالہ بھی کئی روز تک اس بات پر شرمندہ رہیں۔
——