اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھیں! (مہاراشٹر کی ٹاپر طالبہ تنظیمہ پٹیل سے گفتگو)

ٹیم حجاب

[تعلیمی سال ۲۰۰۸ء میں آنے والے اسکول کے نتائج میں ایک مرتبہ پھر لڑکیوں نے بازی ماری ہے۔ لڑکوں کے مقابلے اچھے نمبرات لینے میں وہ لڑکوں سے آگے نکل گئیں۔ تقریباً یہی صورتِ حال ملک کے ہر حصے میں نظر آتی ہے جس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں اپنی تعلیم کے بارے میں عصرِ حاضر کے لڑکوںسے زیادہ سنجیدہ ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی اہم ہے کہ مسلم طبقہ جو عام طور پر تعلیم میں کافی پسماندہ ہے۔ اس کی لڑکیاں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں میں کافی تعداد میں ہیں۔ اور ان طالبات میں ایسی بھی ہیں جو اپنی سوچ وفکر کے اعتبار سے دین پسند اور اسلامی آدابِ زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلم سماج کی ان لڑکیوں نے اپنی نمایاں کامیابی کے ذریعے یہ ثابت کردیا ہے کہ دین پسند طالبات اپنی دینی روایات پر قائم رہتے ہوئے بھی دوسروں سے کئی قدم آگے جاسکتی ہیں۔ اس طرح یہ باطل خیال بھی زائل ہوجاتا ہے کہ پردہ مسلم طالبات کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے۔

ذیل میں پونہ کی ایک طالبہ تنظیمہ پٹیل سے گفتگو درج کی جاتی ہے جو ہمارے نمائندہ شہباز عالم نے ان سے کی ہے۔ تنظیمہ پٹیل نے 95.50% نمبرات حاصل کیے ہیں اور سائنس اسٹریم میں اول رہی ہیں۔ وہ عابدہ انعام دار جونیئر کالج فار گرلس پونہ کی طالبہ ہیں۔ ان کی کامیابی یقینا دیگر مسلم طالبات کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ تنظیمہ پٹیل، ان کے والدین اور اسکول کے ذمہ داران کو ادارہ مبارک باد پیش کرتا ہے۔]

س:تنظیمہ اس نمایاں کامیابی پر مبارکباد۔ اس کامیابی کے پیچھے آپ کی نظر میں کون لوگ ہیں؟

ج:سب سے بڑی طاقت اللہ کی مدد ۔ اس پر میں اس کا شکر و احسان بجالاتی ہوں۔ اگر اس کی مدد نہ ہوتی تو میں اتنی بڑی کامیابی حاصل نہ کرپاتی۔ اس کے بعد والدین خصوصاً ہماری موم (امّی)۔ ہماری سوسائٹی کے چیئرمین انعامدار صاحب اور مسز انعامدار اور میرے اساتذہ کرام۔

س:آگے کیا ارادہ ہے؟

ج:خواہش تو ایم بی بی ایس کرکے ڈاکٹر بننے کی ہے۔ اگر اس میں کسی وجہ سے داخلہ نہ ہوسکا تو بی ڈی ایس کروں گی۔ رزلٹ کے بعد ۷؍جون کو کالج کی طرف سے اسمبلی ہال میں خوشی کا ایک پروگرام ہوا تھا۔ اس میں انعامدار سر نے کہا تھا کہ اگر یہ بچیاں رنگون والا کالج سے BDS کرنا چاہیں گی تو پانچ سال تک ان سے کوئی پیسہ نہیں لیا جائے گا۔ اور داخلہ بھی مفت ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ مجھے ڈاکٹرذاکر نائک بہت پسند ہیں۔ انہی کی طرح میں دعوت کا کام کروں گی۔ ہر مرد و عورت پر اللہ نے فرض کیا ہے دعوت کا کام۔

س:شوق اور عادتیں؟ روز مرہ کی مصروفیات کو کیسے ترتیب دیا؟

ج:ہمارے گھر میں لوگ صبح سویرے اٹھتے اور فجر کی نماز پڑھتے ہیں۔ میں صبح سویرے فجر کی نماز ادا کرتی ہوں پھر قرآن کا معنی ومطلب کے ساتھ مطالعہ کرتی ہوں۔ پھر کالج جانے کی تیاری ہوتی ہے۔ ۸؍بجے صبح سے ۴؍بجے شام تک کالج میں رہتی ہوں۔ کالج میں ہی ظہر کی نماز ادا کرتی ہوں۔ ایک روم ہے جہاں ساری طالبات نماز ادا کرتی ہیں۔ شام میں بیڈ منٹن کھیلنا پسند کرتی ہوں۔ ذاکر نائک کا لیکچر کمپیوٹر پر سنتی ہوں۔ ان کے لیکچر مجھے بہت پسند ہیں۔ گھر میں ٹی وی ہے زیادہ تر Peace T.V.دیکھتی ہوں۔ اس پر ذاکر نائک کا لیکچر ہوتا رہتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ کے ایک مشہور سنگر ’’زین‘‘ کے نغمے سنتی رہتی ہوں۔ ٹی وی پر فلموں اورسیریلوں سے بہت دور ہوں۔ کیونکہ اسلام ان چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔

س:آپ کن کو اپنا رول ماڈل مانتی ہیں؟

ج:سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ اور ازواجِ مطہرات و صحابہ کرام۔ پھر ڈاکٹر ذاکر نائک کو۔ ان کا جب میں نے پہلی بار لیکچر سنا تو مجھے بہت پسند آیا۔ خاص طور پر ان کا انداز بہت اچھا لگتا ہے۔ جب وہ چیپٹر نمبر اور ورس نمبر کہہ کر حوالہ دیتے ہیں، اس سے سننے والے کے اندر اطمینان کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ سامنے والا بالکل مطمئن ہوجاتا ہے۔ جب سامعین ان سے سوالات پوچھتے ہیں تو وہ بہت اچھے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ ان کییہ سب چیزیں مجھے بہت پسند ہیں ۔

س:یہ جو حجاب آپ نے پہن رکھا ہے، کیا ہمیشہ اسی میں رہتی ہیں؟

ج:جی ہاں! الحمدللہ میں حجاب کا خاص اہتمام کرتی ہوں۔ کالج میں بھی اسی میں رہتی ہوں۔ اور میرا لباس بھی اسلامی ہوتا ہے۔ کبھی بھی جینس، اسکرٹ یا ٹی شرٹ نہیں پہنتی۔ جینس اور ٹی شرٹ میرے نزدیک خاص طور سے لڑکیوں اور عورتوں کے لیے غیر اسلامی لباس ہے۔ یہ مردوںسے مشابہت ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ ہے۔ حضورؐ نے ان عورتوں پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہیں لعنت بھیجی ہے۔ جو مسلم لڑکیاں بے پردہ رہتی ہیں یا مردوں کا لباس اپناتی ہیں وہ اللہ کے عذاب کو بلاوا دیتی ہیں۔ ایک خاص بات ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ اللہ کے قانون کو توڑ کر ہم خوش نہیں رہ سکتے۔ اصل زندگی ہماری آخرت کی ہے۔ اسے ہم سب کو ترجیح دینا چاہیے۔

س:آپ کا فیملی بیک گراؤنڈ ؟

ج:ہم گجرات ضلع بلسا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سن جان کے رہنے والے ہیں۔ میری ماں ہائی اسکول پاس ایک گھریلو خاتون ہیں جبکہ والد صاحب بی ایس سی (کیمسٹری) ہیں اور بطور کیمسٹ ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ وہ ہم تینوں بہنوں کی تعلیم کے لیے ہی یہاں پونہ شفٹ ہوئے ہیں۔ ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے۔

گھر کاماحول دینی ہے۔ ہمارے ابو پنج وقتہ نمازی ہیں اورحلال و حرام کی بڑی سختی سے تمیز رکھتے ہیں۔ وہ قرآن ترجمہ سے پڑھتے ہیں۔ ہم گجراتی لوگ اردو کم جانتے ہیں لیکن ہندی اور انگریزی قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہیں۔ ہمارے والدین کہتے ہیں کہ پردہ میں رہ کر تعلیم میں خوب آگے جانے کی کوشش کرو۔

س:آپ عام طور پر کتنا پڑھتی ہیں اور کس طرح؟

ج:میں عام دنوں میں گھر پر چار سے چھے گھنٹے اور امتحان کے دنوں میں آٹھ سے دس گھنٹے پڑھتی ہوں۔ پڑھنے کے معاملے میں میری دو باتیں خاص ہیں۔ ایک یہ کہ میں چیزوں کو سمجھنے پر زور دیتی ہوں اور سمجھے بنا آگے نہیں بڑھتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ کل جو کچھ ٹیچر کو پڑھانا ہوتا ہے اسے میں پہلے ہی اچھی طرح پڑھ کر اور سمجھ کر جاتی ہوں۔ اس طرح اگر کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی تو ٹیچر کے سمجھانے پر واضح ہوجاتی ہے۔ اس طرح میرے لیے معاملہ آسان ہوجاتا ہے۔ اگر پھر بھی کوئی بات سمجھنے سے رہ گئی تو گھر واپس آکر روائز کرتی ہوں پھر اگلے دن ٹیچر سے کلیری فیکشن لے لیتی ہوں۔

امتحان میں میں پریز نٹیشن پر خا ص توجہ دیتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ بہترین انداز میں جواب لکھوں۔ میری کاپی بہت نیٹ اینڈ کلین ہوتی ہے۔

س:آج کل لڑکیاں دسویں کے بعد عموماً سائنس لینا پسند کرتی ہیں۔ حالانکہ ہمارے سماج کو دوسرے میدانوں کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے؟

ج:بالکل صحیح کہتے ہیں آپ۔ ہر انسان کو اپنی صلاحیت اور شوق کے مطابق میدان کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اس سے صلاحیتیں تیزی سے پروان چڑھتی ہیں اور کم وقت میں بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسروں کی نقل کرتے ہوئے میدان کا انتخاب نہ کریں۔ دوسرے فیلڈس میں بھی بہت سارے مواقع ہیں۔

س:قارئین حجاب اور مسلم طالبات کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج:سب سے پہلے ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر بھروسہ کرنا سیکھیں۔ دنیا کے علم کے ساتھ علم دین بھی حاصل کریں۔ وقت کا صحیح استعمال کریں اور سستی و کاہلی سے ہٹ کر محنت کرنے کی عادت ڈالیں۔ قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ مسلم خواتین نے کس طرح تاریخ کی کتابوں میں اپنی شناخت چھوڑی ہے۔ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اسلام کی دعوت ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔ سماجی برائیوں جیسے جہیز، سود، خودکشی، حرام کاری، عریانیت اور جہالت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں اور خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔ حوصلہ بلند رکھیں، محنت اور دلجمعی کے ساتھ کوئی بھی کام کیا جائے تو اللہ کے فضل سے کامیابی ملتی ہے اور علم کے حقیقی مقصد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

Faileur is steping stone to success.(ناکامی کامیابی کا زینہ ہے۔) اور Try try untill you succeed (کامیابی تک جدوجہد جاری رکھیں)۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں