میرے استاد ڈاکٹر عبدالحق صاحب انتہائی ذہین شخص تھے۔ جدید ترین ادویہ سے لے کر جڑی بوٹیوں تک جوگیوں اور یوگیوں کے آزمودہ نسخے اور ہومیو پیتھی کی دوائیاں ان کے پاس موجود تھیں۔ تحقیق پر مبنی جڑی بوٹیوں اور دوائیوں پر مجھے چیدہ چیدہ نوٹ بناکر دیا کرتے۔ امریکہ، جرمنی، لندن سے ان کے پاس کتابیں آتیں۔ مطالعے کے شوقین تھے۔ ایک بار مجھے پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں۔ میں فوراً گئی۔ پتہ چلا عشاء کی نماز میں سجدے میں بے ہوش ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں دل کی تکلیف ہے۔ آج سے دس پندرہ برس پہلے اتنی سہولت موجود نہیں تھی۔
ڈاکٹر عبدالحق کہنے لگے:’’ تم آگئیں اچھا ہوا۔ بارش کا پانی میرے گھر میں موجود ہے اور میرے سرہانے سونے کا پانی چھوٹی بوتل میں رکھا ہے۔ تم شیشے کی پلیٹ پر سونے کے پانی میں زعفران ملاکر آیات شفا لکھ کر بارش کے پانی سے دھوکر مجھے لادو۔ میں انشاء اللہ کل صبح تک ٹھیک ہوجاؤں گا اور میری اسی سی جی نارمل آئے گی۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کی بات پر عمل کیا۔ اگلے دن صبح دس بجے میں خود اسپتال گئی۔ ان کا چیک اپ ہوا، بالکل ٹھیک تھے،چنانچہ گھر واپس آگئے۔ اس کے بعد انھوں نے ’’آبی علاج‘‘ شروع کیا۔ تازہ سبزی، پھل اور کریم نکلا دودھ غذا میں شامل کیا۔ صبح شام غسل کرتے جس کے لیے انھوں نے بڑے بڑے دو ٹب خود بنوالیے تھے۔ جب تک زندہ رہے، کوئی ایلوپیتھک دوا کھائی نہ بیمار پڑے۔ رمضان کے روزے پورے رکھتے۔ پانی کے علاج پر انہیں مکمل اعتماد تھا۔ آدھے سے زیادہ مریضوں کو وہ صبح اٹھ کر آدھے سے زیادہ مریضوں کو وہ صبح اٹھ کر آدھ گھنٹے کے اندراندر تین بار ایک ایک گلاس پانی پینے کی تاکید کرتے۔ اس سے قبض کی دیرینہ شکایت، صبح اٹھتے ہی جی کلا متلانا، طبیعت کا بھاری پن، پیٹ کی گرانی وغیرہ خود بخود بغیر کسی دوا کے چند روز میں ٹھیک ہوجاتی۔ وہ کہا کرتے اللہ تعالیٰ نے پانی جیسی نعمت انسانوں کے لیے بنائی ہے۔ زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ’’اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے پیدا کی ہے۔‘‘ سورہ فرقان میں ۴۸-۴۹ آیت کا ترجمہ ہے: ’’اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری بناکر بھیجتا ہے۔ پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے جو پیاس بجھاتا ہے تاکہ مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشنے اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔‘‘ اسی طرح قرآن پاک میں ہے: ’’اور اتارا اس نے آسمان سے ایک بابرکت اور مبارک پانی۔‘‘
بارش کے پانی کو سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عوف بن مالکؓ بیمار پڑے تو آپ نے بیٹے سے فرمایا: ’’بارش کا پانی کسی کے گھر سے لے کر آؤ۔‘‘ اس نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’اور اتارا اس نے آسمان سے ایک بابرکت اور مبارک پانی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’شہد لے کر آؤ۔‘‘ قرآن پاک میں ہے: ’’اس میں لوگوں کے لیے بیماریوں سے شفا ہے۔’’ جب شہد آگیا تو کہنے لگے زیتون کا تیل لاؤ کیونکہ یہ زیتون کے مبارک درخت سے ہے۔ پھر وہ ان تینوں چیزوں کو ملاکر پی گئے اور دو تین دن میں شفایاب ہوگئے۔
آب زم زم جس غرض سے نیت کرکے پیا جائے اس کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ شفا کی نیت سے پئیں تو اللہ شفا دیتا ہے۔ پیاس کے لیے پیو تو پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ پانی ہی نہیں بلکہ جسم انسانی کے لیے خوراک اور بیماریوں سے شفا ہے۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اس کرہ ارض پر سب سے بہترین، مفید اور عمدہ پانی زمزم کا ہے۔‘‘
پانی پینے کے آداب جو احادیث سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں۔ اونٹ کی طرح غٹ غٹ کرکے ایک سانس میں پانی نہیں پینا چاہیے بلکہ دو تین گھونٹ کرکے پیجئے۔ پیتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھئے اور پانی پینے کے بعد الحمدللہ کہیے۔
رسول پاک ﷺ پانی نوش فرماتے تو برتن سے تین گھونٹ لیتے۔ ہر گھونٹ پر الحمدللہ کہتے۔ پانی میں سانس لینے، اس میں پھونک مارنے اور مشکیزے سے منہ لگا کرپینے سے منع فرمایا ہے۔
رسول پاکؐ کا پسندیدہ مشروب ٹھنڈا میٹھا پانی تھا۔ پانی بیٹھ کر پینا چاہیے۔ پانی پینے کا برتن دائیں ہاتھ سے پکڑنا چاہیے۔ بسم اللہ پڑھ کر تین گھونٹ میں پانی پی کر الحمدللہ کہنا چاہیے۔ اسلام نے پانی کو طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا اور کنوؤں کی تعمیر اور پانی کی فراہمی کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ بخار کی حالت میں رسول پاکؐ نے پانی سے علاج فرمایا۔
زندہ رہنے کے لیے ایک انسان کو روزانہ ڈیڑھ دو لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن ہم اس سے کئی گنا زیادہ پانی نہانے، کپڑے دھونے میں خرچ کردیتے ہیں۔ آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ ہمارے جسم کا ستر فیصد وزن پانی پر مشتمل ہے۔ دماغ کے خاکستری مادے کا ۸۵ فیصد پانی ہوتا ہے، یہاں تک کہ خشک ہڈیوں میں ۲۰ سے ۲۴ فیصد پانی ہوتا ہے۔ مشین میں تیل ڈالا جائے تو صحیح رہتا ہے۔ اسی طرح ہمارے جسم میںپانی تیل کی طرح کام کرتا ہے۔ پانی نہ ہو تو چراغ زندگی گل ہوجائے۔ ہمارے عضلات، ہڈیاں، پٹھے اور کرکری ہڈیوں میں لچک اسی سے آتی ہے۔ غذا کے ہضم ہونے میں پانی کام کرتا ہے۔ ہمارے جسم کو ٹھنڈا رکھتا ہے، جلد کو چٹخنے اور خشکی سے بچاتا ہے۔ یہ پانی ہی ہے جو ہمارے جسم کا خون صاف کرکے دورانِ خوف کو درست رکھتا ہے۔ ہم لوگ نہاتے دھوتے ہیں مگر جسم کے اندر کی صفائی کے لیے چند گھونٹھ پانی پی کر سمجھ لیتے ہیں کہ پیاس بجھ گئی، حالانکہ جسم کی اندرونی صفائی کے لیے وافر پانی پینا اشد ضروری ہے۔
ہمارے جسم میں گردے اہم کام انجام دیتے ہیں۔ یوں سمجھئے وہ دھوبی کا کام کرتے ہیں۔ خراب اور مضر مادے خون اورپانی کے ساتھ شامل ہوکر گردوں میں آتے ہیں جنھیں وہ خون سے چھان کر پیشاب کی صورت میں خارج کردیتے ہیں۔
پانی نہ ہوتو گردے ہمارے جسم سے یورک ایسڈ اور یوریا خارج نہیں کرسکتے۔ جو لوگ کم مقدار میں پانی پیتے ہیں ان کے جسم کے ردی مادے آہستہ آہستہ گردوںاور مثانے میں جم کر پتھریوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ پانی ہمارے نظامِ ہضم کے لیے ضروری ہے اور فاسد مادوں کے اخراج کے لیے بھی۔ پانی کی وجہ سے ہمارے جوڑ تر رہتے ہیں۔ ہمیں پسینہ آکر جسم سے زائد حرارت دور ہوجاتی ہے۔ پانی پھیپھڑوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ آکسیجن جذب کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے لیے پھیپھڑوں کا تریا گیلا ہونا بہت ضروری ہے۔
صبح کے وقت پانی پینا بہت اچھی عادت ہے۔ پانی پینے کے فوراً بعد ورزش نہیں کرنی چاہیے۔ کم از کم پندرہ بیس منٹ کا وقفہ ہونا چاہیے۔ نمازِ فجر سے پہلے پانی پی لیں تونماز پڑھنے تک جسم میں جذب ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد آپ ورزش کرسکتے ہیں۔
ایک صحت مند انسان کو دن میں کم از کم ۸ سے ۱۰ گلاس پانی پینا چاہیے۔ بین الاقوامی اسپورٹس میڈیسن انسٹی ٹیوٹ نے کھلاڑیوں کے لیے جسم کے ہر ایک پونڈ وزن کے لیے نصف اونس پانی کی مقدار کو معیار قرار دیا ہے۔ یہ پانی ایک ہی وقت میں پینے کے بجائے صبح سے شام تک مناسب وقفوں سے پینا چاہیے۔ جو لوگ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں وہ عموماً پانی کم پیتے ہیں اس کی وجہ سے جسم مناسب مقدار میں چربی کو ٹھکانے نہیں لگاتا اور وزن کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے۔ ایک ماہر معالج ڈونلڈ رابرٹسن کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کے لیے پانی خاصی مقدار میں پینا ضروری ہے۔ اسی طرح موٹاپے کے ایک اور ماہر معالج ڈاکٹر ہوورڈ کہتے ہیں: ’’کم پانی پینے والے اپنے جسم میں زیادہ چربی جمع کرلیتے ہیں۔ پانی کی کمی سے عضلات کا حجم اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ہاضمہ کمزور ہوجاتا ہے اور جسم میں زہریلے مادے جمع ہونے سے نت نئے امراض جنم لیتے ہیں۔‘‘
پانی اندرونی و بیرونی کثافتوں کو دھودیتا ہے۔ جرمنی کے ڈاکٹر لوئی کوہنی نے اپنی کتاب ’’پانی سے علاج‘‘ میں اپنے ہی تجربات شائع کیے تھے۔ اس نے اپنی بیماریوں کا علاج پانی سے کیا۔ اس علاج کی تھیوری یہ ہے کہ ہم جوبھی خوراک استعمال کرتے ہیں جسم میں تکسید (Oxidition) کا عمل ہوتا ہے۔ توانائی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ، پوٹاشیم فاسفیٹ، لیکٹک ایسڈ، پسینہ، پیشاب، فضلے کی صورت میں خارج ہوجاتے ہیں۔ ہماری خوراک صحیح نہ ہو تو ہاضمے کانظام خلل پذیر ہوکر نظامِ اخراج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جسم سے فاسد مادے خارج نہ ہوں تو انسانی صحت نارمل رہنے کے بجائے خراب ہونے لگتی ہے۔ مرض جو بھی ہو، بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ جسم کے فاسد مادوں کا صحیح اخراج نہیں ہوپاتا۔
پانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ مختلف پودوں میں بھی اس کی مقدار ۵۰ سے ۸۰فیصد تک ہوتی ہے۔ دو تہائی سے زیادہ سطح زمین پانی سے ڈھکی ہوئی ہے۔ دریاؤں، سمندروں، کنوؤں کے پانی میں سوڈیم، کیلشیم اور میگنیشیم کے کلورائیڈ، سلفیٹ، کاربونیٹ، بائی کاربونیٹ نمکیات شامل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کا کام غلیظ اجزا کو صاف کرنا ہوتا ہے۔
گندھک اور خاموش آتش فشاں پہاڑوں کی تہوں سے نکلنے والا پانی گرم ہوتا ہے اور جلدی امراض کے لیے اکسیر۔ آپ یہ جان کر شاید حیران ہوں کہ بہتے پانی کو دیکھنا ہماری آنکھوں کے لیے مفید ہے۔ اور اس سے نظر تیز ہوتی ہے۔
گرم پانی کے غرارے کرنے سے گلے کوآرام ملتا ہے۔ نزلہ کنپٹیوں میں جم کر سخت تکلیف دیتا ہے۔ اس کے لیے پانی گرم کرکے بھاپ لی جائے تو فوری طور پر آرام آتا ہے۔ بھاپ لینے کے بعد ہوا میں جانے سے گریز کیا جائے۔ فلو ہوجائے تو یوکلپٹس آئل کے دو چار قطرے گرم پانی میں ڈال کر بھاپ لینے سے ناک اور گلے کا ورم دور ہوجاتا ہے۔ یوکلپٹس آئل نہ ہو تو تھوڑی سی وکس ملا کر بھاپ لیجیے۔ بطورِ غذا آپ دو تین بوٹیوں میں ایک دو ہڈیاں اور لہسن، ادرک، کالج مرچ، پیاز، نمک ڈال کر سوپ بنائیے۔ گرم گرم سوپ پینے سے فائدہ ہوگا۔اس میں آپ سبزی بھی ملا سکتے ہیں۔ چائے بنائیے تو اس میں دارچینی کا ایک ٹکڑا شامل کیجیے۔ آپ ادرک اور لہسن ملاکر کالے چنے کا شوربا بھی پی سکتے ہیں۔ لہسن اور ہری مرچ کی چٹنی استعمال کیجیے۔ چنے کا پانی جسمانی قوت کے لیے بہت اچھا ہے۔ ۲۰ گرام چنے رات کے وقت ایک گلاس پانی میں بھگو یے۔ صبح خوب چبا چبا کر کھائیے اور پانی میں ایک چمچہ شہد ملاکر پی لیجیے۔
پانی میں لیموں کا رس اور شہد ملاکر پینے سے موٹاپا بھی کم ہوتا اور ہاضمہ ٹھیک رہتا ہے۔ پہلے زمانے میں بھاپ سے علاج کیا جاتا تھا۔ مختلف جڑی بوٹیاں پانی کے دیگچے میں پکا کر ان کی بھاپ مریض کو دی جاتی جس سے پسینہ آکر اسے فائدہ ہوتا۔ جلدی امراض میں نیم کے پتے ڈال کر پانی سے نہایا جاتا۔ بغلوں کی بدبو کے لیے گلاب کے پھول پانی میں استعمال کیے جاتے۔ بیری کے پتے آج بھی پانی میں ڈال کر غسل میت کرایا جاتا ہے۔ پاؤں پھٹ جائیں تو گرم پانی میں شلجم کے قتلے یا صرف نمک ڈال کر پاؤں کچھ دیر بھگونے سے آرام آتا ہے۔
بخار کی تیزی میں ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے سے بخاری کی تیزی کم ہوجاتی ہے۔ چوٹوں اور زخموں کو پانی سے اچھی طرح دھویا جائے تو وہ خراب نہیں ہوتے۔ چوٹ پر برف ملنے سے ورم نہیں ہوتا۔ مغرب میں پانی سے علاج کیا جاتا ہے جسے ہائیڈرو تھراپی کہا جاتا ہے۔ پانی مختلف طریقوں پلایا جاتا اور نہلایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بھی بیماریوں کے علاج میں پانی سے غسل کرنے کے طریقے ہیں جن سے گردے کی پتھری اور دیرینہ قبض کی شکایت ختم ہوجاتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بخاری کا بہترین علاج پانی ڈالنا قرار دیا ہے۔ اپنی علالت کے دوران جسم پر آپ نے کئی مرتبہ پانی ڈلوایا۔ جنگ احد میں آپ نے زخموں کا علاج بار بار پانی سے دھوکر کیا۔
اسہال اور قے کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن ہوجاتی ہے کیونکہ پانی نکلنے سے خون گاڑھا اور پیشاب کا اخراج کم ہوجاتا ہے۔ نمکول یا شہد اور پانی ملاکر پینے سے یہ شکایت دور ہوجاتی ہے۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے پانی کے استعمال میں کفایت کی تاکید فرمائی ہے۔ پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ نعمت رب جلیل ہے۔ آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ وضو کرتے وقت تمہارے سامنے بھرا ہو دریا ہو تب بھی پانی ضائع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں جن عمدہ چیزوں کا ذکر کیا ہے، ان میں پانی بھی شامل ہے۔ سورۃ محمد میں ہے: ’’وہاں پر ایسے پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی خراب نہ ہوگا۔‘‘
کھڑے پانی میں نجاست نہیں پھینکنی چاہیے اور نہ پیشاب کرنا چاہیے۔
خواتین کو چاہیے بچوں کو شروع سے پانی پینے کی عادت ڈالیں۔ انہیں آئس کریم، کوکا کولا وغیرہ کے بجائے شہد اور پانی ملا مشروب دیں۔ سادہ پانی دن میں کئی بار پلائیں۔ چھوٹے بچوں کو ابال کر پانی دیں۔ بچوں کو شروع سے پانی پینے کی عادت ہوگی تو وہ تمام عمر نت نئی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ جوگیوں کا کہنا ہے دو گلاسوں میں تھوڑا تھوڑا پانی لے کر ایک گلاس کے پانی کو دوسرے گلاس کے پانی میں انڈیلا جائے۔ اس طرح پانی میں زندگی بخش اثرات ثامل ہوجاتے ہیں۔
پانی کو ریت میں رکھنے سے وہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ پانی کے گھڑوں کو ریت میں دبا دیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ٹھنڈا رہتا ہے۔ اور اس کی کثافت نیچے بیٹھ جاتی ہے۔
مٹی اور پٹرول کے دھویں کی وجہ سے گلے میں الرجی ہوجاتی ہے۔ فضا میں کثافت ہو تو سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سوتے وقت سادہ پانی کی بھاپ چند منٹ لی جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ گلے کی خراش، ورم اور ناک کی سوزش دور ہوجاتی ہے ۔ یہ بے ضرر علاج ہے۔
——