اللہ کی مدد

جمیلہ نور

عطیہ شادی شدہ عورت تھی اس کے شوہر کی ملازمت کے سلسلے میں اکثر تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔ ساس نند کوئی ساتھ نہ تھی اور عطیہ تنہا شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ ملازمت کچھ اس نوعیت کی تھی کہ ایک ڈیڑھ سال بعد ہی تبادلہ ہوجاتا، اس لیے کوئی ملازم بھی نہیں ٹکتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے شوہر کا تبادلہ ہوگیا۔ جہاں تبادلہ ہوا تھا وہاں چھوٹا سا کوارٹر ملا۔ نئی آبادی تھی گردونواح میں چند کوارٹر اور تھے اور وہ بھی خاصے فاصلے پر بنے ہوئے۔ ان کے ساتھ والا کوارٹر بھی تقریباً خالی ہی تھا۔ کیونکہ اس میں جو شخص رہتا تھا وہ اکیلا تھا۔ نوکری کے سلسلے میں وہ گھر سے باہر رہتا۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس لیے اسے گھر سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عموماً وہ کوارٹر خالی پڑا رہتا۔ یہ آدمی بجلی کے محکمے میں ملازم تھا۔ کبھی رات کو بتی خراب ہوجاتی تو عطیہ کے شوہر اس شخص کی مدد لیتے۔ وہ شخص دیکھنے میں اتنا شریف اور سیدھا تھا کہ عطیہ کے شوہر اس کی اکثر تعریف کرتے رہتے کہ خدا ایسا اچھا پڑوسی سب کو دے۔

ایک روز ارشد کے دوستوں نے شہر میں اتوار گزارنے کا پروگرام بنایا۔ ارشد کو عطیہ کی بزدل فطرت کا علم تھا سو اس نے دوستوں سے معذرت کرنی چاہی مگر دوست پھر دوست ہی ہوتے ہیں۔ ارشد کے سر ہوگئے کہ بھابی سے ہم اجازت دلا دیتے ہیں۔ سارے اکٹھے ہوکر عطیہ کے پاس پہنچے۔ عطیہ دل میں بڑی شرمندہ ہوئی کہ اس کے شوہر کے دوست اسے زن مریدی کا طعنہ دیتے ہیں۔ اس نے ارشد کو یقین دلایا کہ رات کی تو بات ہے آپ چلے جائیے۔ میں اکیلی نہیں ڈروں گی۔ ارشد بیوی کی بہادری پر کھل اٹھا اور عطیہ کو تسلی دی کہ ہوسکتا ہے۔ ہم لوگ رات ہی کو واپس آجائیں۔ رات کو میرا انتظار کرنا۔

گو عطیہ کا خوف سے برا حال تھا، لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ خیر ارشد اسے تسلی دے کر چلا گیا۔ اتفاق سے گھر سے ذرا دور اسے شریف پڑوسی آتا نظر آیا۔ گاڑی روک کر ارشد نے اسے گھر کا خیال رکھنے کی درخواست کی اور بے فکر ہوکر چلا گیا۔

کھانے سے فارغ ہوکر عطیہ نے کنڈی دروازے اچھی طرح بند کیے۔ پڑوسی کے کوارٹر کی بتی جل رہی تھی، اس سے اس کا خوف قدرے دور ہوگیا۔ دس ساڑھے دس بجے تک وہ رسالہ پڑھتی رہی پھر بجلی بند کرکے بستر میں دبک گئی۔ شاید آدھ گھنٹے بمشکل وہ سوئی ہوگی کہ دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے اٹھا دیا۔ کچی نیند تھی وہ سمجھی ارشد حسب وعدہ لوٹ آیا۔ باہر تیز ہوا تھی۔ ہاتھ بڑھا کر لیمپ جلانا چاہا وہ نہ جلا، بجلی فیل ہوگئی تھی۔ اس نے تب بھی کچھ خیال نہ کیا۔ بن دوپٹے صحن میں بھاگی اور دروازہ کھول دیا۔ باہر گہرا اندھیرا تھا۔ آنے والا اس بے تکلفی سے اندر گھسا کہ اسے شبہ تک نہیں ہوا کہ یہ ارشد کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔ دروازہ بند کرکے عطیہ کمرے میں گئی اندر بھی گھپ اندھیرا تھا پھر بھی آنے والا مسہری پر لیٹا کچھ کچھ نظر آرہا تھا۔ عطیہ نے حسبِ عادت اپنے شوہر کے موزے اتارنے کے لیے اس کے پیر پکڑے وہاں موزے نہیں تھے، اس دوران وہ بالکل چپ رہا عطیہ قدرے حیران ہوکر بولی آپ کی طبیعت ٹھیک ہے۔ ’’ہونہہ‘‘ کہہ کر وہ چپ ہوگیا پھر بھاری آواز میں بولا: ’’بیگم راستے میں پکوڑے کھائے تھے گلابالکل بیٹھ گیا ہے۔‘‘

عطیہ حیران تھی کہ ارشد مجھے بیگم نہیں کہتا۔ آج کیسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا۔ اس نے ارشد سے کہا۔ ایک منٹ ٹھہرئیے میں ساتھ کے کمرے سے گلیسرین لاتی ہوں اور جواب سنے بغیر جھٹ سے دوسرے کمرے میں لپکی اونچی الماری سے گلیسرین کی شیشی اتارنے کے لیے اس نے اندازے سے کرسی گھسیٹی اور الماری پر ہاتھ بڑھایا اب اسے اتفاق کہئے کہ اس کی انگلی پر کسی کیڑے نے ڈنک مارا ساتھ ہی کوئی بڑی سی شیشی گری اور اس کے ساتھ ہی زمین پر آرہی تھی۔ شیشے کے بڑے ٹکڑے اس کے پیر میں چبھ گئے اس کے منہ سے زور سے چیخ نکلی تب اسے بے تحاشہ غصہ آیا کہ آ‘خر اس وقت کیڑے کے کاٹنے کی کیا تک تھی۔ ہاتھ کا درد بدستور بڑھ رہا تھا وہ بے بسی سے زمین پر بیٹھی اندھیرے میں ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ چیخ کی آواز سن کر بھی اس کا شوہر کمرے میں نہیں آیا۔ حالانکہ مسہری سے اٹھ کر بھاگنے کی آواز اس نے اپنے کانوں سے سنی تھی۔

اسی وقت باہر زور سے دروازہ بجا۔ وہ اکیلی خوفزدہ بیٹھی رہی کہ اس کا شوہر دروازہ کھول دے گا لیکن وہاں بدستور سناٹا رہا۔ لنگڑاتی ہاتھ دباتی اٹھی اور کمرے میں گئی۔ مسہری خالی تھی خوف سے اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس سے ایک قدم آگے نہ چلا گیا۔ دروازہ بدستور بج رہا تھا۔ ساتھ ہی اسے اس کے شوہر کے آواز دینے کی بھی آواز آئی۔ وہ بھاگ کر دروازے پر پہنچی یہ آنے والا اس کا شوہر ارشد تھا جو اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھڑا تھا۔ عطیہ کے ہاتھ کا درد بدستور تھا اور اس حادثے نے اس کا حلیہ اور بگاڑدیا۔ اس نے کانپ کر پوری بات ارشد کو بتائی۔ ارشد اور اس کے دوست اندر آئے۔ ظاہر ہے پہلے والا شخص فرار حاصل نہ کرسکا تھا کیونکہ اندر سے دروازہ بند ہی تھا۔ ٹارچ کی مدد سے انھوں نے اجنبی کو گودام سے ڈھونڈ نکالا۔ یہ ان کا شریف پڑوسی نکلا۔ جوبجلی فیوز کرکے ارشد کا روپ دھار کر اندر چلا آیا تھا۔

تینوں چاروں مردوں نے اس کی وہ گت بنائی کہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ عطیہ کے ہاتھوں کا درد تین چار گھنٹوں بعد جاکر رفع ہوا۔ اب خدا کی یہ مصلحت عطیہ کی سمجھ میں آئی کہ اندھیرے میں بچھو کے کاٹنے اور شیشی گر کر ٹوٹنے اور اس کے چیخنے سے نووارد گھبرا کر بھاگ اٹھا تھا لیکن باہر دروازے پر جیپ کے رکنے کی آواز سن کر اس نے گودام میں گھسنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اگر یہ چند لمحوں کا ڈرامہ ظہور پذیر نہ ہوتا تو عطیہ کی جان پر بن جاتی۔ اسی کو اللہ کی مدد کہتے ہیں جو نیک بندوں کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146