چچا باقر چھت پر پہنچے تو ان کی نظر کوے پر پڑی۔ وہ منڈیر پر بیٹھا کچھ کھا رہا تھا۔ انھوں نے اپنے سامان پر نظر دوڑائی تو گڑبڑ نظر آئی۔ سوکھنے کے لیے رکھی گئی بڑیاں (دال کی بنی ٹکیاں) کئی جگہ سے بے ترتیب ہوگئی تھیں۔ ’’اس کوے نے تو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑائے اور ان ٹکیوں کو ہٹا دیا، جن پر پنجوں کے نشان نظر آرہے تھے۔ کوے نے اپنا کھانا ختم کرلیا تھا۔ اب دوبارہ تاک میں لگ گیا۔ وہ غصے سے اٹھے اور اسے ہش ہش کر کے اڑایا۔ وہ اڑ کر کوٹھری کی چھت پر جا بیٹھا۔ چچا آگے بڑھے تو وہ کبوتروں کی چھتری پر چلا گیا۔ وہ واپس اپنے سامان کے پاس آبیٹھے۔ سوچ رہے تھے کہ پھر اس کی نگرانی میں یہاں بیٹھنا پڑے گا۔
باقر چچا بڑیاں بنا کر بیچتے تھے۔ عرصے سے ان کا یہی کام تھا۔ شہر کے پرانے علاقے میں دو منزلہ عمارت میں رہتے تھے۔ چھت بھی ان کے پاس تھی۔ نیچے بازار میں ہی ان کی دکان بھی تھی۔ بڑیاں بنانے کے لیے وہ مختلف والوں کو پیستے، ان میں نمک مرچ اور دوسرے مسالے ملاتے، پھر چھوٹی چھوٹی ٹکیاں بنا کر دھوپ میں سکھا لیتے۔ ان کی بنائی ہوئی چٹ پٹی بڑیوں کی دور دور تک مانگ تھی، سستے زمانے میں تو وہ بخوبی گزر بسر کرلیا کرتے۔ لیکن جب سے مہنگائی کو پر لگے تھے، انہیں بھی مشکل ہونے لگی تھی۔
وہ اٹھ کر دیوار تک آئے اور نیچے جھانکا، بازار میں ہجوم تھا۔ کام کا وقت تھا، لیکن کوے کی وجہ سے بیٹھنا پڑ رہا تھا۔ ان کا دھیان دکان میں لگا تھا۔ اگرچہ وہ برابر والے دکاندار کو کہہ آئے تھے، لیکن کوئی کب تک دوسرے کا خیال رکھے؟ کوا اسی طرح چھتری پر بیٹھا تھا جیسے انتظار کر رہا ہو، اس کی نظریں نیچے بڑیوں پر لگی تھیں۔ وہ انہیں کئی دن سے تنگ کر رہا تھا۔ جب بھی موقع ملتا، وہ بھی نظر بچا کر اور کبھی نظروں کے سامنے دھڑلے سے بڑی لے اڑتا۔ بقیہ پنجوں سے خراب الگ کرتا۔ وہ سخت پریشان تھے۔ کوے کے پروں پر کہیں لال رنگ لگ گیا تھا۔ اسی لیے وہ اسے پہنچاننے لگے تھے۔ ورنہ کوے تو اور بھی اڑتے پھرتے تھے لیکن وہ کچھ زیادہ ہی چٹورا واقع ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد انھوں نے بڑیوں کی سیٹیاں اٹھا کر کوٹھری میں رکھیں اور دروازہ اچھی طرح بند کر کے دکان پر چلے گئے۔ کوا ابھی تک اپنی جگہ ٹہل رہا تھا۔
دوسرے دن جب وہ چھت پر پہنچے تو کوا سامنے عمارت کی منڈیر پر بیٹھا تھا۔ انہیں دیکھ کر فوراً چھتری پر چلا آیا۔ چچا نے سوچا، یہ کل کی طرح پھر پریشان کرے گا لہٰذا اس کی خوراک کا بندوبست پہلے ہی کردوں۔ وہ نیچے گئے اور روٹی کے ٹکڑے پر سالن لگا کر لے آئے۔ کوے نے للچائی نظروں سے ٹکڑا دیکھا اور اڑ کر چھت پر آگیا۔ ٹکڑا چونچ میں دبایا اور منڈیر پر اڑ گیا۔ لیکن تھوڑسا سا کھا کر ہی اس نے ٹکڑا گرا دیا۔ اس کی نظریں بڑیوں کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں۔ ’’لو … نگوڑے کو روٹی ہی پسند نہیں۔‘‘ باقر چچا نے خود کلامی کی۔ خیر انھوں نے اپنا کام شروع کیا۔
پسائی کے بعد جب وہ ٹکیاں بنا رہے تھے تو کوا بے چینی سے منڈیر پر ٹہلنے لگا۔ کچھ دیر بعد چچا پیچھے سے کچھ اٹھانے گھومے تو وہ پھرتی سے ایک ٹکیہ لے اڑا۔ باقر چچا زور سے چیخے تو وہ سامنے والی عمارت کی چھت پر جا بیٹھا اور مزے سے بڑی کھانے لگا۔ اس دن بھی انہیں ایک گھنٹے تک وہاں چوکیداری کرنی پڑی۔ وہ سوچ رہے تھے، اس کا کوئی بندوبست کرنا پڑے گا۔
فارغ ہوکر وہ دکان پر آئے تو بجلی کا بل آیا پڑا تھا۔ اٹھا کر دیکھا تو ہند سے آسمان کو چھو رہے تھے ’’یا اللہ اتنا بل! یہاں اتنی بجلی تو استعمال نہیں ہوتی۔‘‘ انھوں نے سوچتے ہوئے گردن اوپر اٹھائی جہاں ۲ بلب اور ایک پنکھا لگا تھا۔
پڑوسی دکان دار لڑکا ان کی پریشانی بھانپ کر بولا ’’کیا ہوا چچا، کیوں پریشان ہو؟‘‘
انھوں نے بل دکھایا تو بولا ’’چچا بجلی کے نرخ ہر مہینے بڑھائے جا رہے ہیں، بل تو زیادہ آئے گا۔‘‘
’’آخر یہ بجلی کتنی مہنگی کریں گے؟‘‘ وہ بولے۔
لڑکا بولا ’’سنا ہے، پچیس تیس روپے کا یونٹ ہوجائے گا، پھر ہم روشنی جلا کر صرف یہ دیکھیں گے کہ ماچس کہاں ہے تاکہ اپنے اپنے دیے جلالیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسا۔
’’میاں! ماچس بھی کہاں سستی ہے۔ ہمارے زمانے میں دو آنے کی چار آجاتی تھیں۔‘‘
لڑکے نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’پتا نہیں کس زمانے کی بات کر رہے ہو۔‘‘
’’تمہارا بل کتنا آیا ہے؟‘‘ چچا نے پوچھا۔
لڑکا رازداری سے مسکرایا اور بل ان کے آگے کر دیا۔ چچا یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے آدھے بل سے بھی کم ہے۔ ’’میاں! یہ کیا، اتنا کم بل؟‘‘ وہ اس کی دکان پر نظر دوڑاتے ہوئے بولے جہاں چھ سات بلب اور ۲ پنکھے لگے تھے۔
’’ہمارا تو اتنا ہی بل آتا ہے۔‘‘ وہ ہنس کر بولا۔
’’لیکن کیسے؟‘‘
’’فنکاری چچا، فنکاری۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’چچا بہت ہی بھولے ہو، تمہیں یاد نہیں، چھ سات مہینے پہلے میرا الیکٹریشن دوست آیا تھا۔ میں نے تم سے بھی کہا تھا لیکن تم نہیں مانے تھے۔‘‘
’’اچھا … اچھا‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بولے۔ ’’نہیں بھئی، ہم ایسا کام نہیں کرتے۔‘‘ وہ دکان داری کی طرف متوجہ ہوگئے۔
اگلی صبح گھر کا بل بھی آگیا۔ وہ بھی زیادہ تھا۔ انہوں نے دونوں کے ہندسے جوڑے تو کئی ہزار روپے تک جا پہنچے۔ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔ اس دن چھت پر کوئی کام نہ تھا۔ وہ دکان جانے کے لیے دروازے سے باہر نکلے تو اوپر سے کائیں کائیں کی آواز آئی۔ گردن اٹھا کر دیکھا تو کھڑکی کے چھجے پر وہی کوا بیٹھا تھا۔ لگتا تھا اس نے اس کو گھر بنا لیا ہے۔ ’’لو… موئے نے یہیں ڈیرا ڈال لیا ہے۔‘‘ انہوں نے سوچا اور دکان کی طرف بڑھ گئے۔
دوپہر تک وہ دکان پر بیٹھے رہے لیکن کوئی گاہک نہ آیا۔ کام مندا تھا۔ وہ سوچ میں گم پہلو بدلتے رہے۔ پڑوسی لڑکے نے پھر باتیں شروع کردیں۔ ’’چچا کیوں اداس بیٹھے ہو؟‘‘
’’بھئی آج بازار کچھ مندا ہے۔ بل بھی بھرنے ہیں۔‘‘ وہ بولے۔ ’’کیا گھر کا بل بھی آگیا؟‘‘
’’ہاں… وہ بھی زیادہ آیا ہے۔‘‘
’’وہ تو آئے گا۔میری بات مان لو، دوست کا نمبر میرے پاس ہے۔ وہ دوسروں سے ہزار لیتا ہے، تمہارے لیے ۵۰۰ روپے کرادوں گا۔‘‘
’’نہیں میاں! ہم چوری نہیں کرتے۔‘‘
’’چچا! آج کل ہر کوئی یہی کر رہا ہے، یہ کوئی چوری نہیں۔‘‘ ’’اچھا۔‘‘ وہ دھیرے سے بولے۔
’’ہاں کہو تو ابھی فون کردوں؟‘‘ وہ موبائل فون نکالتے ہوئے بولا۔ وہ خاموش رہے۔
’’بس میں بلا رہا ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘ وہ فون پر بات کرنے لگا۔ پھر فارغ ہوکر بولا ’’بات ہوگئی ہے، وہ کل صبح آئے گا۔‘‘
باقر چچا اس طرح سر جھکائے بیٹھے تھے جیسے چوری کرتے پکڑے گئے ہوں۔
ان کا ضمیر انہیں کچوکے لگا رہا تھا۔ انھوں نے زندگی میں کبھی چوری نہیں کی تھی، کبھی کسی کا پیسا نہیں کھایا تھا۔ وہ و ادھار اور قرض کو بھی برا سمجھتے اور اس سے دور رہتے تھے۔ ہمیشہ اپنی چادر کے مطابق کام کرتے لیکن اب چادر دن بدن سکڑتی جا رہی تھی۔ صبح دکان کھولتے ہی الیکٹریشین چلا آیا۔ اس کے ہاتھ میں اوزار تھے اور منہ میں پان بھرا تھا۔ پڑوسی بولا ’’چچا! اسے اپنا میٹر دکھادو۔‘‘ وہ بت بنے بیٹھے رہے۔
’’چچا! جاؤ اسے اپنا میٹر بتاؤ۔‘‘ لڑکا زور سے بولا۔ ’’رہنے دو بیٹا، ہم سے یہ کام نہ ہوگا۔‘‘ وہ دھیرے سے بولے۔
’’چچا! بے وقوف نہ بنو، یہ اتنی دور سے صرف تمہارا ہی کام کرنے آیا ہے۔‘‘
’’ہمیں نہیں کرانا کام وام…‘‘ وہ گرجے۔ ان کا منہ سرخ ہو رہا تھا۔ ان کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ لڑکا دوبارہ کچھ نہ بولا اور اپنے دوست کو چائے پلانے ہوٹل لے گیا۔
دوپہر تک وہ اپنی جگہ ساکت بیٹھے رہے۔ آج بھی بازار سست تھا۔ ظہر کے وقت وہ نماز پڑھنے اٹھے۔ نماز پڑھ کر آئے تو دکان پر ایک شخص کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ ایک بڑا بیوپاری تھا۔ مختلف شہروں میں اس کی کئی دکانیں تھیں۔ وہ دو تین ہفتے بعد ان کی دکان کا چکر لگاتا اور خریداری کرتا۔ وہ گرم جوشی سے ملا اور بولا۔ ’’چچا کہاں ہو۔ جب بھی آؤ تم نہیں ملتے۔ تمہاری دعا سے ایک اور دکان کھول لی ہے۔ دکھاؤ کیا کیا مال بنایا ہے۔‘‘
باقر چچا تیزی سے بڑیوں کے پیکٹ دکھانے لگے۔ وہ انہیں لیتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ دکان تقریباً خالی ہوگئی بلکہ انہیں گھر سے پیکٹ لاکر دینے پڑے۔ اس نے فوراً بل بنوایا، روپے دیے، پھر بولا ’’چچا! اب ہر پندرھواڑے میرے لیے اتنا ہی مال تیا رکر کے رکھا کرو۔ ان شاء اللہ میں آن کر لے جایا کروں گا۔‘‘
چچا نے خوشی سے اثبات میں گردن ہلائی اور خدا کا شکر ادا کیا۔
رات کو وہ بیٹھے حساب کتاب کرتے رہے۔ سب سے پہلے انھوں نے بل کے روپے الگ کیے۔ وہ پھر اگلے دن کا پروگرام بنانے لگے۔ صبح پہلے بل جمع کرانے تھے۔ پھر دالیں اور مسالے خریدنے تھے۔ انھوں نے سوچا، کل دکان دیر سے کھولوں گا۔ کوے کا بھی کچھ بندوبست کرنا پڑے گا۔ اگر لکڑی کے چوکھٹے فریم بنا کر ان پر جالی لگالی جائے تو بڑیاں ڈھکی جاسکتی ہیں۔ وہ سوچتے رہے پھر سو گئے۔ وہ جلد سوجاتے تھے۔
ابھی زیادہ رات نہیں ہوئی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی۔ ان کی آنکھ کھلی تو گلی سے لوگوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ کھڑکی میں آئے تو پتا چلا، تار گر گیا ہے۔ کچھ گھروں کی بجلی چلی گئی تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا اوپر سے کوئی چیز آکر لگی ہے۔ وہ دوبارہ سوگئے۔ رات کو کسی وقت بجلی آگئی۔
صبح وہ سویرے جاگ گئے۔ چچا صبح کی سیر کے عادی تھے۔ نماز پڑھ کر نکلے تو چند قدم چل کر ہی ان کی نظر ایک مرے کوے پر پڑی۔ وہ کوے سے اتنا تنگ آئے ہوئے تھے کہ بے خیالی میں اسے دیکھنے رک گئے۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کا ایک پر لال ہے۔ انھوں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو کھڑکی کا چھجا نظر آیا۔ ساتھ ہی وہ تار بھی جو رات کو ٹوٹ گیا تھا۔ چچا سوچنے لگے، بے چارے کی قضا آئی جو تار سے ٹکرا گیا۔ انہیں افسوس ہورہا تھا۔ ’’خیر اللہ کی یہی مرضی ہوگی۔‘‘ وہ یہ سوچتے اور تسبیح پڑھتے آگے بڑھ گئے۔ کچھ دیر بعد گلی میں خاکروب آیا اور مرا ہوا کوا اپنی ہتھ گاڑی میں ڈال کر لے گیا۔lll