اگر ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ دنیا کو چلانے میں کئی خداؤں کا ہاتھ ہوتا تواس دنیا کی حالت کیا ہو۔ چھوٹی سی مثال دوں گی۔ گھریلو معاملات میں ساس اور بہو دونوں اپنی اہمیت منوانے میں اڑے رہیں تو اندازہ لگالیں کہ اس گھر کی حالت کیا ہوگی ؟ کائنات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی جارہی ہے کہ اگر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ اس کا خالق واحد و لاشریک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے۔ چلو! اس کی چھاتی پر اور کھاؤ اللہ کا رزق۔‘‘ (الملک : 15 )
’’جس نے تہہ بر تہہ سات آسمان بنائے ۔ تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی کوئی بےربطی نہ پاؤ گے ۔ پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاو تمہاری نگاہ تھک کر نا مراد پلٹ آئے گی۔‘‘ (الملک : 3- 4)
اللہ تعالیٰ کائنات پر گہری نظرڈالنے اور تخلیق کائنات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دے رہا کیونکہ قادر مطلق نے لاولی الالباب کو زمین آسمان کی تخلیق میں اور رات دن کے اختلاف میں غور و فکر کے لیے بے شمار دلائل اور نشانیان رکھی ہیں۔
سورج کے ظاہر ہونے سے دنیا روشنی ہو جاتی ہے تاکہ انسان ، حیوان ، چرند و پرند ہر کوئی غذا کی تلاش میں نکل پڑے ۔ سورج کے غروب ہوتے ہی اندھیرا چھا نے لگتا ہے ۔ تو چاند اپنی چاندنی بکھیرنا شروع کر دیتا ہے کہ تھکے ذہین و جسم کو ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں آرام ملے اور اندھیرے میں سکون کی نیند حاصل ہو ۔
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ انسان کی زندگی سورج سے ملنے والی دھوپ اور چاند سے حاصل ہونے والی نرم چاندنی کی کیا اہمیت ہے۔ اگر سورج کی دھوپ نہ ہوتی تو وہ فصلیں جن سے ہم اور دیگر جاندار کھاتے ہیں نہ اُگتیں، نہ پکتیں۔ کائنات ارضی پر توانائی کا وجود نہ ہوتا۔ اسی طرح چاند کی روشنی پر غور کیجیے اور اس کے محاصل اور اثرات کا مطالعہ کیجیے۔
اللہ تعالی نے کائنات میں اربوں و کھربوں، ستاروں و سیاروں کو بنایا ہے ۔ اس کے باوجود ہر سیارہ اپنے اپنے مقررہ دائرے میں گھوم رہا ہے ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں ۔ یا اپنے محور سے سرمو ہٹ جائیں ۔ سبحان اللہ !
اللہ تعالیٰ نے زمیں میں انسانوں کے لیے پانی کا انتظام کیا۔ اس کے لیے آسمان سے پانی برسایا۔ سمندری ہوائیں پانی کے بخارات کو اٹھا کر لے جا تی ہیں۔ اور وہ اپنی مقررہ جگہ پہنچ کربرستی ہیں۔
ذرا بارش کے نظام پر غور کیجیے اور دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نظام کے تحت انسانوں کے لیے پانی کا انتظام کرتا ہے۔
اور وہی تو ہے اپنی رحمت یعنی مینہ کوآگے ہواؤں کو بھیجتا ہے ۔ اور ہم آسمان سے پاک اور نتھرا پانی برساتے ہیں تاکہ اس سے چوپایوں اور آدمیوں کے لیے، جو ہم نے پیدا کیے ہیں، پلاتے ہیں اور ہم نے اس قرآن کی آیتوں کو طرح طرح سے لوگوں میں بیان کرتے ہیں تا کہ نصیحت پکڑیں ۔
اسی طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ زیرِ زمین پانی کے بارے میں کہتا ہے: اگر ہم اس پانی کو اور زیادہ گہرائی میں گرادیں تو پھر کون تمہیں تازہ پانی دے گا۔
اللہ تعالیٰ انسان کو جہاں کائنات میں موجود اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے وہیں اس بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے کہ انسان اگر دیکھے یا سوچے اور تدبر کرے تو اسے اپنے آپ میں بے شمار نشانیاں نظر آئیں گی جو اسے رب رحیم اور خالقِ ارض و سما کی طرف لے جائیں گی۔چودہ سو سال پہلے قرآن شریف جو انسانی پیدائش کے مختلف مراحل کے تفصیلات بیان کیے ہیں انہیں تجربات کی روشنی پر حق بر مبنی مان لیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سوال کر رہے ہیں:’’ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا ؟ اور ایک مقررہ مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا۔ دیکھو ہم اس پر قادر ہیں ۔ پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں۔ تباہی ہے اس روز جھٹلانے والوں کے لئے۔‘‘ ’’استقرار حمل کے لیے ایک خاص مدت مقررہے۔ مضبوطی سے محفوظ جگہ جمع رکھےتا کہ اسقاط حمل نہ ہو جائے۔‘‘ ( التین:4) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘ نہ صرف اچھی صورت دی بلکہ فرمایا (الملک:23) ’’ان سے کہو، اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والا دل دیا، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔‘‘ (المومنین:12-14 )
اللہ تعالیٰ انسان کو خلیفہ بنایا اوردنیاوی چیزوں پرتصرف کی ایک حد تک آزادی بھی دی تاکہ اس کا امتحان لیا جائے ۔ انسان کو نیکی اور بدی کی دونوں راہیں بتا دیں۔ کوئی بھی راہ عمل اختیار کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔(الدھر:2-3 ) ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اسی کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفرکرنے والا۔‘‘
دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے۔ اگر انسان اس بات کو سمجھ لیں تو ان کی زندگیاں تبدیل ہوجائیں۔ قرآن مجید انسانوں کو یہی سمجھانا چاہتا ہے۔