انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنا انسانوں کی ایسی صفت ہے جو اللہ اور رسول کو بے حد پسند ہے۔ اس کی ترغیب قرآن مجید میں بیسیوں مقام پر دی گئی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ خدا باری تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی خوبی بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ
ومما رزقنہم ینفقون۔
’’اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
سورہ آل عمران میں بھی اللہ تعالیٰ نے فیاضوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے ’’متقی وہ لوگ ہیں جو تنگی اور خوشحالی دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دنیا جہاں کی حکومت اور اقتدار چونکہ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے اور اس کی طرف سے بطور امانت انسانوں کے سپرد کی گئی ہے۔ اس لیے کوئی بھی شخص اپنی ظاہری ملکیت کی وجہ سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ وہ بظاہر بادشاہ یا مالک ہیں، لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے متولی بنائے گئے ہیں۔ اس لیے جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے تو ان امانتوں کے صحیح مصرف کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ’’ان کے مال و دولت میں سائلین اور محرومین کا بھی کچھ حصہ ہوتا ہے۔‘‘ (الذاریات:۱۹)
قرآن کریم کی سورہ زخرف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور بڑی برکت والا ہے اللہ جو آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے اور وہی قیامت کی خبر رکھتا ہے جس کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ ذات برتر جو زمین وآسمان کے خزانوں کا مالک ہے، اسے اپنے بندوں کی جانب سے قرض کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے کہ وہ اسے بڑھا چڑھا کر (لوٹا) دے اور اس کے لیے بہترین اجر ہو۔‘‘ (حدید:۱۱)
قرض حسن وہ قرض ہوتا ہے جسے لینے دینے والے دونوں اپنی اپنی غرض سے ضرور لیتے دیتے ہیں۔ لیکن دونوں کا بھروسہ خداوند عالم پر خالصتاً لوجہ اللہ ہوتا ہے کہ اگر خدا نے دیا تو ضرور ادا ہوگا اور اگر نہ دیا تو اللہ دوسرے طریقوں سے وہ کمی پوری کردے گا۔ اس لیے خدا نے اس قرض کا نام ’’قرض حسن‘‘ رکھا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض حسن اللہ کو بے حد محبوب ہے اور اسے قرض اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ اس کی واپسی اللہ نے خود اپنے ذمہ رکھی ہے۔ اور اپنے بندوں کے عزم و یقین کا امتحان لینا اس کے پیشِ نظر ہے کہ دیکھا جائے کہ کون اتنا عزم رکھتا ہے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ بنا کسی کھٹک کے فوراً اللہ کو دے دے اور یہ امید رکھے کہ واپسی تو بہرحال اللہ کی جانب سے ہے۔ اور وہ مال وہ خرچ نہیں کرتا بلکہ اللہ کے پاس جمع کرواتا ہے۔ پھر نہ صرف یہ کہ وہ مال خدا کے پاس جمع رہتا ہے بلکہ کئی گنا اضافہ کے ساتھ لوٹایا بھی جائے گا۔
انتہائی مسرت اور سعادت کی بات ہے کہ رمضان المبارک پھر سے ہم پر سایہ فگن ہے۔ ہم تمام مومنین کو چاہیے کہ اس بابرکت مہینے میں اپنی مٹھی کھول دیں۔ قیام دین کے لیے، اقربا کے لیے، یتیموں، مسکینوں کے لیے جتنا مال بھی قربان کرسکتے ہوں کریں، اگر ہم رمضان میں بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں تو کچھ تنگی جیب کے معاملے میں بھی برداشت کریں۔ کیونکہ جو کچھ بھی ہم رمضان میں فی سبیل اللہ خرچ کریں گے اس کا بدلہ ہمیں ضرور ملے گا کیونکہ یہ کتاب حق کا فرمان اور وعدئہ خداوندعالم ہے ’’اور جو کچھ بھی تم خرچ کروگے وہ اس کا پورا بدلہ دینے والا ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔‘‘ ——