الیکشن کے بعد دال مہنگی ہوگئی

رضوان اللہ

۱۷؍مئی کی صبح کو حسبِ معمول ٹہلنے کے لیے گھر سے نکلا۔ کچھ دور گیا تھا کہ چند لڑکے ٹھٹھے اور ٹھٹھولیں کرتے ہوئے گزرے۔ وہ بھی حسبِ معمول بزرگوں کی نظر بد سے دور کہیں کرکٹ کھیلنے کے لیے جارہے تھے۔ انہی میں سے ایک کی تیز آواز قہقہہ کے درمیان سنائی دی ’’کانگریس جیت گئی دال مہنگی ہوگئی۔‘‘ میں نے سمجھا کہ کانگریس مخالف پارٹیوں میں سے کسی سے ان لڑکوں کا تعلق ہوگا اور وہ کانگریس پارٹی پر کیچڑ اچھال رہے ہوں گے کہ اس کی جیت ہوتے ہی غریبوں کے حصے کی دال بھی مہنگی ہوگئی۔ لیکن آگے جو کچھ سنا وہ کچھ اور ہی تھا۔
دوسری آواز: ’’ابے دال کیوں مہنگی ہوگی، کانگریس کی جیت سے اس کا کیالینا دینا؟‘‘
پہلی آواز: ’’ارے اس کا لینا دینا کانگریس کی جیت سے نہیں بی جے پی کے چاروں شانے چت ہونے سے ہے۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’وہ یوں کہ سارے بی جے پی لیڈروں اور ورکروں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنے لگی ہے۔ اس وجہ سے دال کی مانگ بڑھ گئی۔ جمع خور تو انہی کی برادری کے لوگ تھے لیکن یہ موقع بھی ہاتھ سے کیوں جانے دیتے۔ انھوں نے دال کے اسٹاک دبا دیے۔‘‘
پہلی آواز:’’اچھا تو دیسی گھی کے وہ لڈو کیا ہوئے جو بی جے پی کے دفتروں میں بھرے پڑے تھے کہ پارٹی کی جیت کے بعد بانٹے جائیں گے؟‘‘
دوسری آواز: ’’ابے تو نے اس کا قصہ نہیں سنا؟ لگتا ہے ٹی وی دیکھتا ہی نہیں جس پر کتنے ہی اَن ہوئے قصے بھی آیا کرتے ہیں۔ وہ تویوں ہوا کہ جب بی جے پی کے کچھ تھکے ہارے دوسرے درجے کے لیڈر دفتر میں آئے توبڑے لیڈروں کو ندارد پاکر آپے سے باہر پارٹی ورکروں نے ان پر لڈؤں کی بوچھار کردی کیونکہ وہاں کوئی اور میزائل موجود ہی نہیں تھا۔ سارے آنے والوں کے جوتے چپل کھڑاؤں پہلے ہی جمع کرالیے گئے تھے اور سب کو جمع کرکے لیڈروں کے بنگلے پر بھیج دیا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو وہی اندیشہ تھا، جس کی مثال عراق میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا استقبال کرتے ہوئے ایک عراقی نوجوان نے قائم کی تھی اور اس کی تقلید کرتے ہوئے ہندوستان میں سودیشی کھڑاؤں استعمال کی گئی تھی۔ اس کی تکرار کی پیش بندی ضروری تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ دال بانٹنے کے لیے لیڈروں کی جوتیاں ناکافی تھیں اس لیے ایک پارٹی وھپ جاری کرکے ورکروں کے جوتے چپل کھڑاؤں جو کچھ دستیاب ہوا اکٹھا کرلیا گیا تھا۔‘‘
سننے میں آیا ہے کہ پارٹی کاایک اور حکم نامہ جاری ہونے والا ہے جس کے مطابق سارے پارٹی ورکروں اور ہمدردوں کو مشورہ دیا جائے گا کہ سودیشی طریقہ اختیار کرتے ہوئے ننگے پاؤں چلنے کی عادت ڈالیں اس طرح وہ سڑک پر غریبوں سے قریب نظر آئیں گے اور عام لوگوں کی ہمدردیاں بھی ان کو حاصل ہوں گی۔ ننگے پاؤں رہنے کی عادت بنانے کے لیے لیڈروں کو کار کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ لڈو فراہم کرنے والے حلوائیوں نے پارٹی پر بھروسہ کرتے ہوئے کئی کئی کوئنٹل لڈو بلا ایڈوانس لیے ہوئے پارٹی کے دفتروں میں پہنچادیے تھے۔ ان کے بل روک لیے گئے ہیں۔ احتجاج کرنے والے حلوائیوں پر دھوکا دھڑی کے الزامات لگائے جارہے ہیں کہ انھوں نے لڈو میں دیسی گھی کے بجائے جانوروں کی چربی استعمال کی تھی جس کی وجہ سے کئی لیڈروں کے گھر والوں کے گلے اور پیٹ خراب ہوگئے۔ کچھ دھارمک لوگوں کا دھرم نشٹ ہونے پر بھی غصہ ہے۔
بہرحال! مغرب کی مہذب قومیں یوں تو سرد علاقے ہونے کی وجہ سے ٹھنڈے دل دماغ کی ہوتی ہیں تاہم کبھی کبھار وہاں بھی کوئی ابل پڑتا ہے تو بطور احتجاج انڈے استعمال کرتا ہے۔ اول تو اس میزائل کا نشانہ زیادہ صحیح ہوتا ہے ، دوسرے یہ کہ اس سے احتجاج پورا پورا درج ہوتا ہے لیکن ضرب شدید نہیں آتی۔ مغرب کی اس تقلید میں ذرا ویج نان ویج کا دیسی جھگڑا حائل ہے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں قدیم ہندوستان کا ایک قصہ بھی بیان کردیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ جب سکندر بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہندوستان کی سرحدوں پر فروکش ہوا تو دور دور تک لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی اور لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ اس زمانے میں اعداد و شمار اکٹھا کرنے والا کوئی ادارہ نہیں تھا اس لیے بے گھر اور بے پناہ ہونے والوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں اور مورخوں کے بیان کیے ہوئے واقعات بھی بہت بعد میں سنے سنائے ہیں۔ خیر! اس اطراف کے لوگوں نے سوچا کہ تحفے دے کر بادشاہ کو خوش کردیا جائے تاکہ وہ حملہ کرنے سے باز رہے اور لوگ کشت و خون سے بچ جائیں چنانچہ علاقے کے عقلمند لوگ اکٹھا ہوئے اور اس دانشمندانہ تجویز سے اتفاق کرنے کے بعد اس غوروفکر میں لگ گئے کہ تحائف میں کیا چیزیں پیش کی جائیں۔ اتفاق سے اس علاقے میں بیل کے جنگل تھے چنانچہ طے پایا کہ بیل کے ٹوکرے بادشاہ کو بطور نذرانہ پیش کیے جائیں لیکن بعض دانشمندوں کو یہ اعتراض ہوا کہ یہ پھل پرکشش نہیں ہے۔ تحائف کو خوشنما ہونا چاہیے۔ پھر بڑی حجت تکرار کے بعد یہ طے پایا کہ برگد کے لال لال پھل بہت خوبصورت ہوتے ہیں وہی پیش کیے جائیں، چنانچہ سارے علاقے میں جس قدر برگد کے پھل دستیاب تھے اکٹھا کیے گئے اس کے بعد سیکڑوں ٹوکروں میں ان کو قاعدے سے سجا کر مقامی لوگوں کی ایک بارات سکندر بادشاہ کی لشکر گاہ کی طرف چلی۔ بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ لوگ تحائف پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ ان کی باریابی کا حکم ہوا۔ مقامی لیڈر آداب بجالائے اور ٹوکرے پیش کیے۔ ٹوکرے کھولے گئے تو برگد کے پھلوں کو دیکھ کر بادشاہ غصہ میں آپے سے باہر ہوگیا لیکن پھر ان لوگوں کی سادہ لوحی پر اس کو ترس بھی آیا اور ان کی جان بخشی کرتے ہوئے حکم دیا کہ یہ سارے ٹوکرے ان کے منہ پر ماردیے جائیں۔ پھر کیا تھا ان لوگوں پر برگد کے پھلوں کی بارش ہونے لگی اور وہ بھاگتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ ’’خیرشد کے بیل نبود‘‘ (خیریت ہوئی کہ بیل نہیں تھے)۔
تو بی جے پی کے لیڈروں کو شکر کرنا چاہیے کہ ان کے درمیان جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے خالی جوتیاں نہیں بٹ رہی ہیں۔ ویسے آج کی دنیا میں کسی وقت وہ بھی ممکن ہے۔ تب سارے تماشائی کہیں گے ’’حق بہ حقدار رسید‘‘ (حقدار کو اس کا حق مل گیا)۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146