’’اماں آگئی! اماّں آگئی!‘‘گھربھر کے چھوٹے بڑے، ساٹھ سال کی، چاندی کی طرح سفید بالوں والی ایک چھوٹے قد کی بڑھیا کو مکان کے پھاٹک میں داخل ہوتے دیکھ کر خوشی سے چلا اٹھے۔ کچھ نے تو اس کے سر پر اٹھائی ہوئی ہلکی پھلکی پھولی ہوئی گٹھڑی لے لینے کی کوشش کی۔
’’اماں گٹھڑی مجھے دے دو۔‘‘
’’اماں، میرے لیے کیا لائی ہو؟ دیکھوں تو!‘‘
لیکن بڑھیا نے کسی کو اپنی گٹھڑی چھونے نہیں دی۔ سر سے اتار کر ایک بغل میں دبا لی۔ ادھر سے کوئی لپکا تو دوسری بغل میں لے گئی۔ساتھ ساتھ کسی کو پیار کیا، کسی کو پچکارا، کسی کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ جس نے پاؤں چھوئے، اس کا سرچوم لیا۔ جو آگے بڑھ کر گلے ملا، اسے دیر تک سینے سے چپکائے رکھا، اس آرزو میں اپنی چھوٹی چھوٹی، بجھتے ہوئے چراغوں کی مانند مدھم مدھم اور جھریوں کے جال میں گھری ہوئی آنکھیں جلدی جلدی جھپکاتی رہی کہ ایک آدھ آنسو ہی ٹپک پڑے۔ لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ہی نہیں۔ ذرا سی نمی آئی بھی تو وہ فوراً آس پاس کی جھریوں میں جذب ہوگئی۔ چھوٹے چھوٹے پائنچوں والی ہلکی پھلکی چھینٹ کی شلوار، گول گول آستینوں والی قمیص اور جگہ جگہ سے ادھڑا ہوا پرانا سوئیٹر اور بوجھل دوپٹہ، جسے پوری طرح پھیلا کر اوڑھتی تو اس کا سارا وجود اس میں چھپ جاتا۔
یہاں چھوٹے بڑے اسے اماں ہی کہتے تھے۔ اس کے سمدھی اور سمدھن بھی، جو اس کے قریب قریب ہم عمر تھے، اسے اِسی طرح خطاب کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ حقیقی اماں تو صرف کوشلیا کی تھی جو اِس گھر میں پچھلے تین سال سے بیاہی ہوئی تھی اور جس سے ملنے کے لیے وہ ہر مہینے لکھنؤ سے کانپور چلی آتی تھی، لیکن کوشلیا اسے دیکھ کر قطعاً خوش نہ ہوئی۔ اُس وقت وہ اپنے سال بھر کے بچے کے دودھ کی بوتل دھو رہی تھی۔ وہ بوتل کے اندر پانی سے بھیگا ہوا برش چلاتی ہوئی اندر چلی گئی۔ اس کے اندرونی غصے کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا تھا کہ وہ برش اور بوتل کو زور زور سے جھٹکے دے رہی تھی۔ دراصل وہ دل ہی دل میں اپنی ماں کو کوس رہی تھی۔ وہ کیوں آئی ہے؟ اسے کس نے بلایا ہے؟
وہی ماں، جس نے نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھنے کی اذیت برداشت کرکے اسے جنم دیا تھا۔ ایک انتہائی نرم، حسّاس کونپل جیسی اس کی جان کو، اپنے سینے کی زندگی بخش آنچ دے دے کر اس کی پرورش کی تھی۔ راتوں کو جاگ جاگ کر ایک باندی کی سی خدمت سے بھی کہیں زیادہ ایثار سے کام لے کر اسے اتنا بڑا کیا تھا کہ اب وہ خود اپنے گھر بار والی تھی۔ ایک بچے کی ماں تھی۔ اور وہ خود بھی اپنی اولاد کے لیے اسی قسم کے دکھ اور پریشانیاں اٹھا رہی تھی۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بھی وہ دل میں اپنی ماں کے خلاف ابھرتی ہوئی نفرت کو دبا نہیں پارہی تھی۔
باہر کی آواز سن کر اسے اِس بات کا بخوبی اندازہ ہورہا تھا کہ اماں نے اب اپنی پھولی ہوئی گٹھڑی میں سے ایک چھوٹی سی پوٹلی نکالی ہے۔ اس میں لکھنؤ کی خوشبودار ریوڑیاں ہیں۔ وہ ہر ایک کے ہاتھ پر دو، دو چار چار ریوڑیاں رکھتی جارہی ہے۔ ریوڑیاں پاکر ہر کوئی خوش اور مطمئن ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اماں کی گٹھڑی میں ایسی مزیدار اور اچھی اچھی کئی اور چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ کپڑے اور کھلونے بھی۔ لیکن وہ کسی کے سامنے اپنی گٹھڑی کھولتی نہیں تھی۔ کوئی شرارت کے طور پر جھپٹ بھی لینا چاہتا تو وہ اس کے ہاتھ پر دانتوں سے کاٹ لینے پر آجاتی۔ کیونکہ اس کی گٹھڑی میں دراصل ایک پرانا کمبل، ایک میلی سے دری اور ایک آدھ چادر یا سیردو سیر گیہوں کے آٹے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ گیہوں کا آٹا وہ اِس لیے ساتھ لے آئی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کے ہاں کی کوئی چیز نہیں کھاتی تھی۔ اسے پاپ سمجھتی تھی۔ اڑوس پڑوس کے کئی لوگ اسے کھانا کھلانے کے لیے تیار رہتے تھے لیکن وہاں سے بھی کچھ لینا نامناسب سمجھتی تھی۔ جتنے دن وہاں رہتی، اپنے ہی آٹے کی دو چار چپاتیاں بناکر پیٹ بھر لیتی تھی۔ لوگ اس کے ایسے اصولوں کی تعریف کرتے۔ اس کے گن گاتے۔ لیکن کوشلیا یہ سب سن کر بھی کبھی خوش نہ ہوتی۔ بس صرف کھولا ہی کرتی۔ اندر ہی اندر۔ آج تو وہ پھٹ پڑنے کے لیے تیار نظر آرہی تھی۔ شاید آج وہ اپنے آپ کور وک نہیں سکے گی۔
اپنی شادی کے بعد وہ پہلی بار جب سسرال سے میکے گئی تھی تو وہ اپنے ساتھ اپنی چھوٹی چار بہنوں کے لیے کئی کپڑے لے کر گئی تھی جو اسے اس کی ساس نے دیے تھے۔ اتنے سارے قیمتی کپڑے دیکھ کر محلے بھر کی عورتوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئی تھیں۔ کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ صابن والے جنھوں نے کوشلیا کی شادی پر بہت کم جہیز پاکر ناک بھوں چڑھالی تھیں، اپنی بہو کو اتنی اچھی سوغات دے کر میکے بھیجیں گے۔ ان کی مالی حیثیت کوشلیا کے والدین کی بہ نسبت یقینا بہتر تھی۔ اب تو ان کی دریا دلی کی بھی دھاک بیٹھ گئی۔ سب نے کوشلیا کے بھاگ کو سراہا۔ ایسے در تولیکھ سنجوگ سے ملا کرتے ہیں، جبکہ بڑے بڑوں کی لڑکیاں جیتے جی نرک کے عذاب بھوگ رہی تھیں۔
ماں کے پاس کچھ عرصہ رہ کر جب کوشلیا سسرال جانے لگی تو ماں نے اسے اکیلے میں بٹھا کر کہا تھا: ’’دینے کو تو میں تمہیں بہت کچھ دے دوں۔ اتنا کچھ کہ صابن والے تیرے پاؤں دھو دھو کر پیا کریں لیکن بیٹی دینے کے لیے صرف ایک ہی دن تو نہیںہے! لڑکی کو دیتے دیتے تو ساری عمر گزر جاتی ہے۔ کسی کا بیاہ، کسی کا جنم، کسی کی موت فوت، وارپُرب سبھی پر سمدھیوں کو پوجنا پڑتا ہے۔ نہ جانے پچھلے کون کون سے جنم کا قرض لڑکیوں کے نام پر چکانا پڑتا ہے۔ تو دیکھ رہی ہے تیری چھوٹی بہنیں گلو کی بیل کی طرح بڑھتی چلی آتی ہیں۔ سال دو سال بعد دو ایک کو ضرور بیاہنا ہوگا۔ صرف تمہیں ہی سب کچھ نکال کر دے دوں تو پھر ان کے لیے کون سا پہاڑ کھود کر روپیہ لاؤں گی۔ یہ تو سمجھ لے، جو کچھ لے کر جائے گی، وہ تیرے اپنے ہی گھر میں جائے گا۔ ساس سسر اور دوسرے لوگوں کے منہ سے تو بس دو شبد تعریف کے ہی سننے ہوں گے۔ اس لیے میں کہتی ہوں، گھر کی لاج نباہنا اب تیرے اپنے ہاتھ میں ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس کی اماں رو بھی دی تھی۔
اسے اپنی اماں کے ساتھ پوری ہمدردی تھی۔ اس کی باتیں سن کر کوشلیا کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے۔ اور تب اماں نے اسے بہت ہی راز دارانہ لہجے میں بتایا تھا … ’’میں ابکے تجھے صرف تین جوڑے دے سکتی ہوں، تیرے دیکھے ہوئے ہیں، ایک تیرے ماما کی شادی پر مجھے ملا تھا۔ بنارسی گوٹے کا۔ شنیل کا سوٹ مجھے انبالے والی بہن نے دیا تھا۔ اور ایک سوٹ تیرے پتا جی کل بازار سے لے آئیں گے۔ کل تو بھی تو کچھ کپڑے خریدے گی۔ وہ سب میرے کپڑوں میں شامل کردینا۔ کسی کو کیا معلوم، تو نے خود خریدے ہیں یا میں نے دیے ہیں۔ گھر کی عزت بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘
اس نے ماں کی تجویز مان لی تھی۔ اپنی سسرال میںجاکر اس نے دگنے کپڑے اور دگنے روپے دکھائے تھے۔ لوگ تعریف کرتے تھے تو اس کا دل بھر بھرآتا تھا۔ پھر ایسا بارہا ہوا تھا۔ کئی بار۔ کئی نازک سے نازک موقعوں پر اس نے ماں باپ کی لاج بچالی تھی۔ لیکن اس کی ماں نے تو جیسے ایک دستور بنالیا تھا۔ پہلے کم دیتی تھی۔ پھر اس سے بھی کم دینے لگی۔ اب تو کچھ بھی نہیں دیتی تھی۔ لیکن لوگ سمجھتے تھے اسے اماں ہی سب کچھ دیتی ہے۔ اتنی بڑی گٹھڑی میں سوغاتیں ہی بھری ہوتی ہیں۔
کوشلیا کے دل میں ماں کے خلاف نفرت کا جذبہ پہلے پہل اس دن پیدا ہواتھا، جب اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تھا، وہ اپنے ناتی کے لیے اتنی معمولی سوغات لے کر آئی تھی کہ اگر اسے باقی لوگ بھی دیکھ لیتے تو بھری سسرال میں اس کی ناک کٹ جاتی۔ سارا بھرم ٹوٹ جاتا۔ اس موقع پر بھی اس نے ماں کی کنجوسی پر پردہ ڈالا تھا۔ ماں کی حرکتوں کو اب وہ کنجوسی ہی کہتی تھی۔ پہلے جسے مجبوری سمجھتی تھی۔
جب اس کی نند رکمن کی شادی ہورہی تھی اس موقع پر تو سارا بھید کھلتے کھلتے رہ گیا تھا۔ جو کپڑے لتّے اس نے اپنی ماں کے نام پر اپنی ساس کو پیش کیے تھے ان میں ایک جوڑا ایسا بھی تھا جو کبھی اس نے اپنی ساس کے ساتھ جاکر ہی بازار سے خریدا تھا۔ اس جوڑے کو دیکھ کر اس کی ساس چونک اٹھی۔ لیکن کوشلیا کو اپنی غلطی کا فوراً احساس ہوگیا تھا۔ اس نے جھٹ کہہ دیا:
’’یہ کپڑا میری اماں کواس قدر پسند آیا ہے کہ انھوں نے مجھے اس کے دام دے کر سوغات کے طور پر یہی رکمن کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔!‘‘
اس کی اماں نے بھی سب کے سامنے بے جھجھک ایسے فخر اور خوشی کا اظہار کردیا جیسے سچ مچ اس نے ویسا ہی کیا ہو۔ تب سے کوشلیا کو اس کی موجودگی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ پہلے وہ اماں کا انتظار کیا کرتی تھی۔ اسے خط لکھ کر ملنے کے لیے بلالیا کرتی تھی۔ رات کو اسے اپنے کمرے میں سلاتی تھی، لیکن دھیرے دھیرے اس نے اس بات کی فکر کرنا ہی چھوڑ دی کہ اماں اس کے گھر میں آنے کے بعد کہاں سوتی تھی، کیا کھاتی تھی، کہاں کھاتی تھی، کچھ کھاتی بھی تھی یا نہیں! لیکن ابھی تک وہ اماں سے کچھ کہہ نہیں سکی تھی۔ اس کے اندر اپنی ماں کے خلاف نفرت کا جذبہ بڑھتا رہا تھا اور آج وہ اس سے کچھ کہہ دینا چاہتی تھی۔ کیونکہ اس بار اس نے اس بلایا بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ چلی آئی تھی۔ وہ اب اسے کبھی نہیں بلانا چاہتی تھی۔ وہ اس ماں کو کیوں بلائے، جو اس پر ایک بھوت کی طرح سوار ہوجاتی ہے۔ جو اسے نہ کوئی خوشی دے سکتی ہے نہ کسی فخر کا احساس۔
اچانک کمرے میں رکمن آگئی۔ اس کی نند شادی کے بعد میکے آئی ہوئی تھی۔ یہاں دو مہینے رہ کر آج واپس جارہی تھی۔ اسی سے ملنے اور اپنی اپنی سوغات دینے کے لیے دور و نزدیک کے کئی رشتے دار آجارہے تھے۔ رکمن خوش تھی، نئی نویلی دلہن یوں بھی خوش نظر آتی ہے جب وہ اپنی سسرال لوٹنے لگتی ہے۔ میکے میں اس کی بڑی قدروعزت کی گئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتی تھی، لیکن کوشلیا کو وہ اچھی نہیں لگتی تھی۔ اس وقت اس کا کمرے میں آکر اس کی تنہائی میں مخل ہونا تو کوشلیا کو بالکل نہیں بھایا۔
’’بھابی! آپ کی اماں آئی ہیں، کیا آپ کو نہیں معلوم؟ آپ کو پوچھ رہی ہیں۔‘‘
کوشلیا کو معلوم تھا اس کی ماں باہر بیٹھی ہوئی ہے۔ لیکن اس نے رکمن کی بات ان سنی کردی۔ دودھ کی بوتل میں تیز تیز برش چلاتی ہوئی پالنے کی طرف بڑھ گئی، جس میں پپّو سویا ہوا تھا۔ اسے ان جانے ہی میں جگادیا لیکن رکمن نے آگے بڑھ کر پپّو کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔ اور اسے پیار سے چومتی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ’’اماں ، بھابھی یہاں ہیں۔ اپنے کمرے میں۔‘‘
اور چند لمحوں کے بعد ہی بڑھیا اپنی گٹھڑی بغل میں دبائے ہولے ہولے قدم رکھتی ہوئی اندر آگئی۔ کوشلیا برش کو بوتل کے اندر اس قدر زور سے دباگئی کہ برش ٹیڑھا ہوگیا۔ اور اس نے چھوٹتے ہی ماں سے کہاں:’’اب مجھ سے کچھ مت مانگنا اماں۔ میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جسے گھر کے لوگ نہ جانتے ہوں۔‘‘
بڑھیا جہاں تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔ حیران، ششدر، اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ کوشلیا بھی اس سے مزید کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل گئی۔ اتنی تیزی سے باہر نکلی کہ جیسے اس کی ماں کہیں اس کا دامن نہ پکڑلے۔ اس نے کئی بار بیٹی کا دامن پکڑ پکڑ کر اپنی غریبی کا واسطہ دیا تھا۔ آج اس کی بیٹی اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھی۔ اس کی ماں یہاں نہ آئی ہوتی تو اچھا تھا۔ وہ اپنے سمدھیوں کی لڑکی سے نہ آکر ملتی، اسے کچھ نہ دیتی اور لوگ کچھ کہتے تو کوشلیا برداشت کرلیتی۔ لیکن اب جب کہ اس کی ماں بن بلائے آپہنچی تھی، اس نے فیصلہ کرلیا تھا، اِس بار وہ ماں کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔ وہ خود ہی لوگوں کی باتیں سنے اور نام دھرائے!
کوشلیا کسی نہ کسی کام کے لیے ادھر ادھر لپکتی پھرتی تھی۔ گھر میں کام کی کمی نہیں تھی۔ وہ خود کو کسی بھی کام میں مشغول رکھ سکتی تھی۔ درحقیقت وہ اپنی ماں سے چھپتی پھرتی تھی۔ اس سے دور رہنا چاہتی تھی۔اچانک گھر بھر میں شور مچ گیا۔ ’’اماں کی گٹھڑی کس نے چرالی۔‘‘
اماں رو رو کر سب سے فریاد کررہی تھی۔ گٹھڑی کے اندر بندھی ہوئی اپنی ایک ایک چیز گنا رہی تھی۔ رکمن کے لیے بنارسی ساڑھی، پپّو کے لیے کھلونے، کوشلیا کے لیے چکن کی دھوتی، ایک ایک چیز کی خصوصیت اور قیمت بھی۔ ’’میں اسے دروازے کے پیچھے رکھ کر ذرا دیر کے لیے باہر نکلی تھی۔ ہائے ابھی تو میں نے اسے کھولا بھی نہیں تھا۔ کسی کو کوئی چیز دکھا بھی نہیں پائی تھی۔ نہ جانے کون اٹھا لے گیا۔ میرے تو بڑھاپے کی آبرو لٹ گئی۔ میں اپنی بیٹی اورسمدھن کو کیا منہ دکھاؤں۔‘‘
کوشلیا نے سنا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اسے ماں سے ایسی امید نہ تھی۔ وہ تو اس کی سسرال کی ناک کاٹے دے رہی تھی۔ سب کام چھوڑ کر وہ ماں کے پاس پہنچی۔ اسے کمرے کے اندر لے جاکر دبے دبے مگر بڑے سخت لہجے میں کہا: تو ابھی چلی جا اماں! اس گھر سے فوراً باہر ہوجا! نہیں تو میں سب کے سامنے گٹھڑی نکال کر دھر دوں گی۔ میں جانتی ہوں جہاں اسے تو نے چھپایا ہوگا۔‘‘
بیٹی کی آنکھوں میں غصے کی آگ دیکھ کر بڑھیا سہم گئی۔ کچھ لمحوں تک کھڑی اس کی طرف دیکھتی رہی۔ بہت ہی بے بسی سے۔ پھر اچانک اس کی زندگی کے سارے آنسو ایک ہی بار اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے اور اس کے چہرے کی پیچ در پیچ جھریوں میں سے ہوتے ہوئے اس کی گردن تک جا پہنچے۔ لیکن کوشلیا جبڑا کسے، مٹھیاں بھینچے کھڑی رہی۔ اس کی طرف غصے سے گھورتی رہی۔ بڑھیا نے اپنے بوجھل دوپٹے کے آنچل سے اپنا آنسوؤں سے بھرا ہوا چہرہ پونچھا اور پھر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔ گھر سے باہر۔اس کے جانے کے بعد کوشلیا نے اپنے کمرے کو اندر سے بند کرلیا اور رونے بیٹھ گئی۔ وہ بالکل بے اختیار ہوکر رو رہی تھی۔ اسے اپنی ماں کا آنسوؤں سے بھرا ہوا چہرہ اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے باہر جانے کا منظر یاد آتا تو اس کی گھگھی بندھ جاتی۔
اچانک وہ آنسو پونچھ کر باہر نکل آئی۔ وہ جانتی تھی کہ اماں اسٹیشن پر گئی ہوگی۔ جب تک لکھنؤ جانے کے لیے کوئی گاڑی نہیں ملے گی وہ وہیں بیٹھی رہے گی۔ اس نے جلدی سے ایک رکشا کیا، محلے کی آخری گلی میں سے نکلنے لگی تو اسے اچانک ایک دکان کے اندر اماں دکھائی دے گئی۔ کوشلیا نے رکشا رکوایا اور جیسے کود کر دکان کے اندر داخل ہوگئی۔ دکاندار کچھ نوٹ گن گن کر اس کی ماں کے ہاتھ پر رکھ رہا تھا اور اس کے دونوں کان سونے کی بالیوں سے خالی تھے۔