اس روز میں صبح ہی سے فکر مند تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ لیسؔ سے کس طرح رقم مانگوں۔ مجھے پولٹی کے لیے نئے کپڑے خریدنے تھے اور میرے پاس ایک دھیلا نہ تھا۔ پولٹی میری پندرہ سالہ لڑکی تھی۔ جمعرات کو اس کے اسکول میں سالانہ تقریب منعقد ہورہی تھی۔ اسے بہرحال نئے کپڑوں کی ضرورت تھی، ورنہ سہیلیوں میں اس کی سبکی ہوتی۔ خود اس میں اتنی جرأت نہ تھی کہ اپنے ابّا سے نئے کپڑوں کا تقاضا کرسکے۔ بار بار وہ میرے پاس آتی اور دبے لفظوں میں اپنی ضرورت بیان کرتی۔ ایک بار میں نے اسے ٹالنے کی کوشش بھی کی، لیکن وہ رونے لگی۔
’’امی، سال کے بعد یہ تقریب آئی ہے۔ اگر میں پرانے کپڑے پہن کر گئی تو سب لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔‘‘
مجبور ہوکر مجھے وعدہ کرنا پڑا کہ میں اس کے ابّا سے کچھ رقم مانگوں گی۔ دن بھر میں اسی خیال میں گم رہی۔ شام کو لیسؔ دکان سے لوٹا، تو میں نے رقم کا مطالبہ کرنا چاہا، لیکن اس کے چند دوست ساتھ تھے، اس لیے خاموش رہی۔ رات کے کھانے پر پولٹی بار بار میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اس کی نگاہوں کا مفہوم سمجھتی تھی۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ لیس کی مالی حالت اچھی نہیں۔ اس کا سارا سرمایہ کاروبار میں پھنسا ہوا تھا اور ہم بمشکل گزر بسر کررہے تھے۔ میں نے لیسؔ کی طرف دیکھا، وہ بہت خوش دکھائی دیتا تھا۔ میں بات شروع کرنے ہی والی تھی کہ اچانک وہ بول اٹھا:
’’جینی! آج رات ایک شخص ہمارے ہاں آرہا ہے۔ وہ امی کے کان ٹیسٹ کرے گا اور آلہ سماعت بھی آزما کر دیکھے گا۔ خدا کرے، امی سننے لگیں۔‘‘
میں نے افسردگی سے پولٹی کی طرف دیکھا۔ مایوسی کے عالم میں اس کا سر میز پر جھک گیا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گود میں رکھے تھے، وہ کھانا نہیں کھا رہی تھی۔ پولٹی کے بعد میری نظریں امّاں کی طرف اٹھ گئیں۔ لیس کی امّی حسبِ معمول اپنی آرام کرسی پر بیٹھی تھیں، قریب ہی نو سالہ یتیم بچی کوریؔ کھڑی تھی۔ اماں ہنس ہنس کر کوری سے باتیں کررہی تھیں۔ انھوں نے لیس کی گفتگو نہیں سنی تھی اور سنتیں بھی کیسے، ان کے کان جو خراب تھے۔
’’ابّا، کیا دادی امّاں اب ہماری باتیں سن سکیں گی؟‘‘ میرے نو سالہ لڑکے ہیری نے پوچھا
’’ہاں بیٹا!‘‘
آج سے ایک سال قبل بھی لیسؔ نے یہی الفاظ کہے تھے۔ آلۂ سماعت خریدنے پر ہماری جمع پونجی اٹھ گئی تھی۔ وہ مشین ابھی تک اماں کی میز کی دراز میں رکھی تھی۔ انھوں نے ایک دو روز سے زیادہ اسے استعمال نہیں کیا تھا۔ لیس کے اصرار پر انھوں نے کہا تھا:
’’میرے سر میں درد ہونے لگا ہے، میں یہ منحوس آلہ استعمال نہیں کرسکتی۔‘‘
اس طرح ہمارے پچہتر ڈالر ضائع ہوگئے تھے۔ اس رات بھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ ایک نیا آلہ خریدنے کے لیے ہمیں خاصی رقم کی ضرورت پڑے گی اور یہ رقم بھی گزشتہ سال کی طرح بیکار جائے گی۔ میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔ پولٹی کھانا کھائے بغیر سونے کے کمرے میں چلی گئی تھی۔ لیس مسکراتا ہوا اٹھا اور اماں کے قریب جاکر ان کے کان میں زور سے بولا:
’’اماں، آج رات ایک ڈاکٹر آپ کے کانوں کا معائینہ کریے گا۔‘‘
’’بیٹا، کیوں پیسے ضائع کرتے ہو، میرے کان اب ٹھیک نہیں ہوں گے۔‘‘اماں نے بڑی شفقت سے کہا اور دوبارہ کوری سے باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ کوری بول نہیں سکتی تھی۔ اماں لاکھ مغز کھپاتیں، لیکن اس کے منہ سے اُوں آں کے سوا کچھ نہ نکلتا، تاہم اماں مایوس نہیں تھیں اور مسلسل کوشش کررہی تھیں کہ وہ بولنے لگے۔ پولٹی کے نئے کپڑوں کا مسئلہ ایک طرف رہا۔ اب تو اماں کے معالج کی فیس کے لیے بھی رقم کی ضرورت تھی۔ میں نے لیس کے پاس جاکر آہستگی سے پوچھا:
’’تم جانتے ہو ہماری مالی حالت کیسی ہے، کیا تمہارے پاس اتنی رقم موجود ہے کہ تم ڈاکٹر کی فیس ادا کرنے کے علاوہ اماں کے لیے نیا آلہ بھی خرید سکو۔‘‘
’’دیکھا جائے گا، میں نے ڈاکٹر سے کہہ دیا ہے اور وہ آج رات آجائے گا۔‘‘ اس نے بے پرواہی سے کہا اور باہر چلا گیا۔ میں بے دلی سے پلیٹیں دھونے لگی۔ اماں ابھی تک کوری سے الٹی سیدھی باتیں کررہی تھیں اور وہ جواب میں حلق سے طرح طرح کی حیوانی آوازیں نکال رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا، پولٹی میرے پیچھے کھڑی تھی۔
’’امّی، آپ نے ابّا سے پیسوں کے لیے کہا؟‘‘ اس نے راز داری کے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں، آج تمہارے ابّا بہت تھکے ہوئے ہیں، کل پوچھوں گی۔‘‘
’’اگر میرے کپڑوں کا بندوبست نہ ہوا۔ تو میں سالانہ تقریب میں شریک نہیں ہوں گی۔‘‘
’’فکر نہ کرو، میں بندوبست کرلوں گی۔ اب تم آرام کرو، رات خاصی جاچکی ہے۔‘‘
دو چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ پلیٹیں دھوکر میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور صورتِ حال پر غور کرنے لگی۔ وہ دن کتنا منحوس تھا جب ہمیں لیس کے ابا مسٹر اسٹون کے مرنے کی اطلاع ملی تھی۔ان دنوں ہم شکاگو میں تھے۔ لیس ایک فرم میں مکینک کی حیثیت سے ملازم تھا، اچھی تنخواہ تھی، رہنے کو مکان ملا ہوا تھا۔ ہم بڑے مزے سے زندگی گزار رہے تھے۔مسٹر اسٹون کی وفات نے ہمارے چھوٹے سے گھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ لیس نے فوراً ہی ڈی کلبی کے قصبے میں جانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جہاں اس کے ابّا کی ایک دکان اور ذاتی مکان تھا۔ میں نے بہتیرا سمجھایا کہ اچھی بھلی ملازمت چھوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے، لیکن لیس نے میری ایک نہ سنی۔
’’وہاں اماں اکیلی ہیں، تم خود ہی سوچو ان کی سماعت جواب دے چکی ہے، بے چاری اتنی ضعیف ہیں، وہ اکیلی کیسے رہیں گی۔‘‘
’’لیکن تمہارے دو بھائی اور بھی تو ہیں، اماں کی دیکھ بھال کا فرض صرف تم ہی پر عائد نہیں ہوتا۔‘‘
’’ٹام فوج میں ہے اور روجر سول سروس میں، دونوں اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں، انہیں ملازمتیں نہیں چھوڑنی چاہئیں۔‘‘
’’اپنے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے جل کر پوچھا۔
’’میرا کیا ہے، میں وہاں ابا کی دکان سنبھال لوں گا۔ آخر بچپن میں بھی میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ ڈی کلبی بڑا خوبصورت قصبہ ہے۔ ہمارا مکان ایک پہاڑی پر ہے، نیچے چاروں طرف دور دور تک چاول کے کھیت ہیں جن کی سوندھی سوندھی خوشبو ہر وقت فضا میں پھیلی رہتی ہے۔ بڑی پیاری جگہ ہے۔ میرا خیال ہے اگر تم ایک بار بھی وہاں چلی گئیں تو زندگی بھر واپس آنے کا نام نہ لو گی۔‘‘
لیس سے الجھنا بے کار تھا۔ وہ ڈی کلبی جانے کا تہیہ کرچکا تھا۔ میں چپ ہورہی۔ اس کی بات واقعی ٹھیک تھی۔ ڈی کلبی میں ہمارا گھر بے حد خوبصورت تھا۔ اماں بہت نیک اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے کو تیار رہتیں۔ پڑوس میں کوئی بیمار ہوتا تو رات رات بھر جاگ کر مریض کی دیکھ بھال کرتیں۔ غریبوں اور محتاجوں کوکھانا کھلانے میں، انہیں بڑا مزا آتا تھا۔ انسان تو ایک طرف رہے، وہ جانوروں پر بھی مہربان تھیں۔ کسی کتّے یا بلی کو باہر سردی میں آوارہ پھرتے دیکھتیں تو پچکار کر ساتھ لے آتیں۔ ’’نووارد‘‘ کو گرم گرم کھانا کھلایا جاتا، بڑے اہتمام سے اس کے لیے سونے کا انتظام کرتیں۔ ایک بار تو ایک پاگل کتنے نے ان کے ہاتھ پر دانت بھی آزمائے۔ ہفتہ بھر پیٹ میں انجکشن لگواتی رہیں، لیکن جانوروں پر رحم کھانے کی عادت نہ گئی۔ اماں واقعی بہت اچھی تھیں، لیکن ان کی اچھائی مجھے سخت ناپسند تھی۔ ان کی سخاوت میرے لیے وبالِ جان بن گئی۔ یہاں اپنا گزارہ مشکل تھا، دوسروں کے لیے گنجائش کیسے نکالتے۔ لیکن اماں کو ان باتوں کی پرواہ نہ تھی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے گھر لٹا رہی تھیں…
میں کسی نہ کسی طرح یہ سب کچھ برداشت کررہی تھی، لیکن زیادتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ جس روز اماں اور مسٹر ڈنگن کی گونگی لڑکی کوری کو گھر لائیں، میں برداشت نہ کرسکی۔ معلوم ہوا کہ دونوں میاں بیوی بیمار تھے اور محلے والوں نے انہیں ہسپتال پہنچادیا تھا۔ ان کی اکلوتی لڑکی گھر میں اکیلی تھی۔ اماں کو ایسا موقع خدا دے، وہ جھٹ اسے اپنے ساتھ لے آئیں۔ کوری کے والدین گونگے اور بہرے تھے۔ کوری خوش قسمت تھی کہ وہ سن سکتی تھی، بولنا اس کے بس کا روگ نہ تھا۔
’’اماں، آپ اس مصیبت کو کہاں سے اٹھا لائی ہیں، اس کے والدین کو چھوت کا مرض تھا۔ اگر یہ اس گھر میں رہی تو میرے بچے بھی بیمار پڑ جائیں گے۔‘‘ میں نے چلا کر کہا۔ لیکن اماں کو میری بات سنائی نہ دی۔ وہ کوری کو زبردستی چاکلیٹ کھلانے میں مصروف تھیں۔ میں خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ اماں میری طرف دیکھ کر بولیں:
’’خدا کا شکر ہے کوری صحیح و سلامت ہے۔ میں اسے اپنے ساتھ لے آئی ہوں۔ جب اس کے والدین ہسپتال سے لوٹیں گے، تو اپنی بچی کو لے جائیں گے۔‘‘
’’جی ہاں، اور اس وقت تک اس بن بلائے مہمان کے لیے کھانا میں تیار کروں گی ، کپڑے میں دھوؤں گی اور اس کے کھانے پینے پر جو رقم اٹھے گی، اس کا بندوبست بھی میں کرو ںگی۔ آپ کو ان بکھیڑوں سے کیا غرض؟‘‘ میں نے جل کر کہا۔
’’کیا بات ہے جینی؟‘‘ لیس نے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا:
میں نے سارا قصہ بیان کردیا۔
’’یہ گھر اماں کا ہے اور وہ جسے چاہیں یہاں لاسکتی ہیں۔‘‘ لیس ناگواری سے بولا۔
’’لیکن …؟‘‘
’’جینی! میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں کہ اماں دوسروں کی مدد کیے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، آج تک کسی شخص کو اس دروازے سے خالی ہاتھ لوٹتے نہیں دیکھا۔ اتنی ظالم نہ بنو۔ آخر ایک معصوم بچی نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ چند روز وہ یہاں رہے گی، پھر اس کے والدین اسے لے جائیں گے۔‘‘
میں خاموش ہوگئی۔ ہوا وہی جس کا مجھے خدشہ تھا۔ کوری کے ماں باپ یکے بعد دیگرے ہسپتال میں چل بسے اور اپنی گونگی لڑکی ہمیشہ کے لیے ہمارے پلّے باندھ گئے۔ اس واقعے کو تین ماہ گزر چکے تھے۔ ہم جوں توں کرکے زندگی کے دن پورے کررہے تھے کہ لیس نے کسی میڈیکل فرم کو اماں کے لیے نیا آلۂ سماعت لانے کا آرڈر دے دیا اور میری بچی پولٹی کے لیے نئے کپڑے نہ بن سکے۔ اس رات کرسی پر بیٹھے بیٹھے میں انہی خیالات میں گم تھی اور دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی کہ اچانک دروازے پر گھنٹی بجی۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص ہاتھ میں اٹیچی کیس لیے اندر آیا۔
’’جینی! ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے ہیں۔ تم بھی اماں کے کمرے میں آجاؤ۔‘‘ لیس نے برآمدے ہی سے مجھے پکارا میں بادلِ ناخواستہ اٹھی اور اماں کے کمرے کی طرف چل دی۔
ڈاکٹر نے اماں کے کانوں پر ہیڈ فون لگائے اور مشین چلادی۔ شور سے ہماری کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ لیکن اماں نے نفی میں سرہلادیا۔ انہیں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ڈاکٹر مشین کے بٹن گھماتا رہا۔ بالآخر اماں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’میں سن سکتی ہوں۔ لیسؔ مجھے سب کچھ سنائی دے رہا ہے۔‘‘ وہ خوشی سے بے اختیار ہوکر بولیں۔ میں خود بھی ایک لمحے کے لیے اپنے سارے دکھ بھول گئی۔ ڈاکٹر نے ہیڈ فون اتارے اور لیس سے مخاطب ہوکر بولا:
’’ان کے کانوں میں خاصا نقص ہے۔ سماعت کے وہ آلے جو بازار میں ملتے ہیں، فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گے۔ ہمیں ان کے لیے ایک خاص آلہ تیار کرنا پڑے گا۔ آپ ہمارے چھپے ہوئے فارم پر آرڈر بھجوادیجیے۔‘‘
’’اس خاص آلے کی قیمت کیا ہوگی؟‘‘ لیس نے پوچھا۔
’’تقریباً دو سو پچاس ڈالر۔‘‘
میں کانپ اٹھی۔ اتنی رقم تو ہم عمر بھر جمع نہیں کرسکتے تھے۔
’’کیا آپ قیمت قسطوں میں وصول نہیں کرسکتے؟‘‘
’’کیوں نہیں! البتہ شروع میں آپ کو ایک سو ڈالر جمع کرانے پڑیں گے۔ آلۂ سماعت آپ کو دے دیا جائے گا۔ باقی رقم آپ قسطوں میں ادا کرسکتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں اس ہفتے کے آخر تک ایک سو ڈالر بھجوا دوں گا، آپ خود ہی میرا فارم پُر کردیجیے گا۔‘‘
’’بہت بہتر۔‘‘
میں اور لیس ڈاکٹر کو بیرونی دروازے تک چھوڑنے گئے۔ جب اس کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی، تو میں نے لیس سے پوچھا:
’’تم نے وعدہ تو کرلیا ہے لیکن ایک سو ڈالر کہاں سے آئیں گے؟‘‘
’’میں مسٹر اسٹین کے ٹرک کی مرمت کررہا ہوں، جونہی کام مکمل ہوگیا،اسٹین مجھے پوری اجرت ادا کردیں گے۔علاوہ ازیں مجھے بہت سے گاہکوں سے رقم وصول کرنی ہے۔ پرسوں بل لے کر میں شہر کا چکر لگاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ لوگ اپنے اپنے واجبات ادا کردیں۔‘‘
’’لیس! کیا تم پولٹی کے لیے کہیں سے بیس ڈالر حاصل کرسکتے ہو؟ اسے سالانہ تقریب کے لیے نئے کپڑے چاہئیں۔میں اس سے وعدہ کرچکی ہوں۔‘‘
’’جینی! تم تو جانتی ہو ایک سو ڈالر جمع کرنے کے لیے مجھے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ میرا خیال ہے پولٹی کے پاس خاصے کپڑے ہیں، وہ کوئی اچھا سا جوڑا پہن کر جاسکتی ہے۔ تم خود استری کردینا۔‘‘
’’لیکن اس کے سب کپڑے پچھلے سال کے سلے ہوئے ہیں۔ اب اس کا جسم بڑھ گیا ہے۔ بے چاری بڑی مشکل سے ان کپڑوں میں پھنستی ہے۔‘‘
’’جو بھی ہو، اس وقت میں بیس ڈالر کا انتظام نہیں کرسکتا۔ تم اس کے کپڑے ادھیڑ کر کھلے کردو۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تم اماں کے لیے سو ڈالر جمع کرسکتے ہو اور اپنی بیٹی کے لیے بیس ڈالر کا انتظام نہیں کرسکتے۔ اس گھر میں اماں کا راج ہے، وہ جو چاہتی ہیں، وہی ہوتا ہے، میری تو یہاں ایک کوڑی کی بھی عزت نہیں۔‘‘ میں نے غصے میں آکر کہا۔
’’جینی! خدا کے لیے ہوش میں آؤ، کیسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہو، نئے کپڑے خواہ کسی کے لیے ہوں، ایک معذور اور ضعیف خاتون کی سماعت سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔‘‘
میں خاموش ہوگئی، راستے میں اچانک مجھے پھر ایک خیال آیا۔
’’لیس، کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم تمہارے بھائیوں، روجر اور ٹام کو خط لکھ کر ان سے تھوڑی تھوڑی رقم منگوالیں۔‘‘
’’جو تمہارے جی میں آئے، کرو۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تم دو خط لکھ دو، میں خود پوسٹ کردوں گی۔‘‘
’’میں خط نہیں لکھوں گا۔ یہ کام بھی تمہیں ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
’’یہ بھی خوب رہی، بھائی تمہارے اور خط میں لکھوں۔‘‘ میں نے تنک کر کہا۔
’’میں ان سے مدد مانگنا نہیں چاہتا۔‘‘ لیس نے مختصر سا جواب دیا اور ہم مکان میں داخل ہوگئے۔
دوسری صبح میری آنکھ کھلی، تو لیس کام پر جاچکا تھا، میں نے باورچی خانے کی کھڑے سے جھانک کر دیکھا، اوپر دکان پر روشنی ہورہی تھی۔ لیس ویلڈنگ کررہا تھا۔ دور دور تک چاول کے کھیت دکھائی دے رہے تھے۔ شروع میں جب میں یہاں آئی، تو مجھے یہ کھیت بہت خوبصورت لگتے تھے، لیکن اب انہیں دیکھ کر غصے اور نفرت سے میری پیشانی پر بل آجاتے۔مجھے چاولوں سے کوئی دشمنی نہ تھی، مجھے تو ان لوگوں پر غصہ آتا تھا جو ان کھیتوں کے مالک تھے، وہ لیس سے اپنے اوزاروں کی مرمت کرواتے اور نئے اوزار خریدتے، لیکن ایک پائی بھی ادا نہ کرتے۔ جب کبھی لیس تقاضا کرتا، وہی رٹا رٹایا جواب مل جاتا:
’’فصل پکنے پر میں تمہاری اجرت ادا کردوں گا۔‘‘
فصل پک جاتی، چاول بازار میں فروخت ہونے لگتے۔ لیکن لیس کو ایک پائی بھی نہ ملتی۔ لیس دوبارہ پوچھتا۔ پھر یہ بہانا: ’’اس مرتبہ فصل کچھ اچھی نہیں ہوئی، اگلی مرتبہ تمہاری پائی پائی ادا کردیں گے۔‘‘
میرا جی چاہتا کہ کہنے والے کا منہ نوچ لوں۔ لیکن لیس جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا، مسکرا کر کہتا: ’’کوئی بات نہیں۔‘‘
دوپہر کو جب لیس کھانے کے لیے گھر آیا، تو میں نے اس سے دوبارہ پولٹی کے لیے بیس ڈالر مانگے۔
’’جینی! خدا کے لیے مجھے زیادہ پریشان مت کرو۔ تم خوب جانتی ہو میرے پاس رقم موجود نہیں ہے۔‘‘
’’جو ہو سو ہو، میں پولٹی کے لیے نئے کپڑے ضرور خریدوں گی۔‘‘ مجھے بھی ضد ہوگئی تھی۔ ’’اگر تم مجھے بیس ڈالر نہیں دو گے تو میں ادھار لے لوں گی۔‘‘
’’نہ نہ، ایسا غضب مت کرنا، تمہیں معلوم ہے۔ مجھے ادھار لینے سے بہت کوفت ہوتی ہے۔‘‘ اس نے تیزی سے کہا۔
’’یہ بھی خوب کہی۔ ادھار سے اتنی ہی نفرت ہے، تو لوگوں کو ادھار کیوں دیتے ہو، نقد کیوں نہیں وصول کرتے۔‘‘
’’جینی! یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں، بے چارے سال بھر کام کرتے ہیں تب کہیں جاکر انہیں دو وقت کھانے کو ملتا ہے۔ اس سال تو چاول کی فصل واقعی بہت خراب ہوئی ہے، بھلا ایسے میں غریب کسانوں کے پاس نقد دینے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔‘‘
’’تمہیں دوسروں کی غربت کا بڑا خیال رہتا ہے۔ ہم کون سے لکھ پتی ہیں، تم کیا جانو میں کیسے گھر چلا رہی ہوں۔‘‘
’’ایک بات پوچھوں؟‘‘ لیس نے میرے قریب آکر کہا۔
’’پوچھو۔‘‘
’’آخر تم نے پولٹی کے کپڑوں کو اتنی اہمیت کیوں دے رکھی ہے؟‘‘
میں نے اس کی بات کا جواب نہ دیا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ بستر پر بیٹھ کر میں نے اطمینان سے سوچا۔ پولٹی کے کپڑے واقعی اہم نہیں تھے۔ دراصل میں اماں پر ایک سو ڈالر خرچ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ یہ رقم بے کار جائے گی۔ میں اس گھر سے اکتا چکی تھی۔ مالی مشکلات نے مجھے چڑچڑا اور بدمزاج بنادیا تھا۔ پولٹی کے کپڑے اب محض بہانہ تھے۔ اصل میں میں اپنے ماحول کے خلاف لڑ رہی تھی۔ میں چاہتی تھی لیس یہ گھر چھوڑ دے اور کہیں اور جاکر قسمت آزمائی کرے۔ مجھے اماں کی سخاوت پر غصہ آرہا تھا۔ نہ وہ دونوں ہاتھوں سے دوسروں پر لٹاتیں، نہ ہم اتنے پریشان ہوتے۔ میں حالات سدھارنا چاہتی تھی، چنانچہ میں نے فیصلہ کرلیا کہ لیس اور اماں کے بجائے گھر کا سارا بجٹ میں بناؤں گی۔ آخر میں اس گھر کی مالک تھی۔ سب سے پہلے میں نے پولٹی کو بلایا اور اسے خوب پیار کیا۔
’’امی، میرے کپڑوں کا بندوبست ہوگیا؟‘‘ اس نے وہی سوال دہرایا۔
’’ہاں بیٹی! تم مزے سے اسکول جاؤ، بدھ کی شام تمہیں کپڑے مل جائیں گے، اور دیکھو یہ بات اپنے تک رکھنا، ابا اماں کوپتا نہ چلے۔‘‘
پولٹی نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ شاید وہ میری بات سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
’’تمہیں دیر ہورہی ہے، اب تم اسکول جاؤ۔‘‘ میں نے اسے ایک بار پھر پیار کرتے ہوئے کہا۔ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھتی ہوئی باہر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد اماں کمرے میں داخل ہوئیں، وہ بہت خوش نظر آرہی تھیں، میرے قریب آکر بولیں:
’’جینی! مجھے نئے آلۂ سماعت کی کوئی خواہش نہیں تھی، لیکن مجھے اس بچی کا دھیان آتا ہے، بے اختیار جی چاہتا ہے کہ میں سن سکوں، اگر میرے کان درست ہوجائیں، تو میں اسے بولنا سکھا سکتی ہوں۔‘‘
میرے ماتھے پر بل پڑگئے۔ وہ اس منحوس چھوکری کوری کا ذکر کررہی تھیں، انہیں کیا معلوم کہ اوں آں سے زیادہ اس کے حلق سے کچھ نہیں نکلتا۔
’’جہنم میںجائے وہ اور چولہے میں جائیں آپ۔‘‘ میں نے برا سا منہ بناکر کہا اور گفتگو ختم ہوگئی۔
اگلے چند دن تیزی سے گزر گئے۔ اس دوران میں لیس منہ اندھیرے گھرسے نکل جاتا اور رات گئے واپس آتا، وہ بدھ کی شام گھر لوٹا، تو اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ تھا۔ اس نے لفافہ مجھے دے کر کہا:
’’جینی! میں نے ایک ایک پائی کرکے یہ رقم جمع کی ہے بہر حال میں خوش ہوں کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ میں بہت تھک گیا ہوں، اور مجھ میں اتنی سکت نہیں ہے کہ پوسٹ آفس جاسکوں،تم ابھی جاکر میڈیکل فرم کو منی آرڈر کردو۔‘‘
میں نے بجھے ہوئے دل سے لفافہ کھولا۔ کل ایک سو دس ڈالر تھے۔
’’اور میں مہینے بھر کے لیے سودا سلف کہاں سے لاؤں گی۔ گھر کے خرچ کے لیے ہمیں کم از کم تیس ڈالر درکار ہیں۔‘‘
’’تم ایک سو ڈالر فوراً فرم کو بھیج دو۔ دس ڈالر سے چند دن گزارو، اتنے میں میں تھوڑے بہت پیسوں کا بندوبست او رکرلوں گا۔‘‘
میں نے گیرج سے لیس کی پرانی سی وین نکالی، پولٹی کو ساتھ لیا اور پوسٹ آفس جانے کے بجائے سیدھی بازار پہنچ گئی۔ ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان پر وہ سوٹ ابھی تک لٹک رہا تھا جسے پولٹی اپنے لیے پسند کرچکی تھی۔ میں نے اچھی طرح اسے دیکھا بھالا اور دکاندار سے قیمت دریافت کی۔
’’بیس ڈالر۔‘‘
’’کیا میں رقم پھر ادا کرسکتی ہوں؟‘‘
’’بڑے شوق سے ہم یہ جوڑا ایک طرف رکھ لیتے ہیں۔کسی وقت بھی آکر لے جائیے۔‘‘ دکاندار خوش اخلاقی سے بولا۔
’’آپ شاید میرا مطلب نہیں سمجھے، ہمیں یہ لباس آج ہی چاہیے، دوچار روز بعد قیمت ادا کردیں گے۔‘‘
دکاندار نے مجھے سر سے پاؤں تک گھورا۔
’’میرا نام جینی لیس ہے۔ میں وہ سامنے والی پہاڑی پر رہتی ہوں۔ آپ مسٹر اسٹون کو جانتے ہوں گے، وہ یہاں کے مقامی باشندے تھے، چند ماہ ہوئے ان کا انتقال ہوگیا،میں ان کی بہو ہوں۔ میرے شوہر ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں۔ وہیں پہاڑی پر ان کی دکان ہے۔‘‘ میں ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئی۔
معاف کیجیے محترمہ! ہم ادھار بہت کم دیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو ایک فارم پُر کرنا ہوگا۔ کل آپ کے لکھے ہوئے پتے پر ہم اپنا نمائندہ بھیجیں گے۔ جب وہ آپ کے تمام کوائف کی اچھی طرح تصدیق کرلے گا، تو آپ کو یہ کپڑے مل جائیں گے۔
’’کیا یہ سارا کام آج ہی نہیں ہوسکتا؟‘‘
’’جی نہیں آپ کو کم از کم دو دن انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘
میں نے پولٹی کی طرف دیکھا، اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور آنکھوں میں آنسوتیر رہے تھے۔ بے اختیار میرا ہاتھ لفافے کی طرف اٹھ گیا۔ میں نے ایک سو دس ڈالر میں سے بیس نکالے اور دکاندار کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ کپڑوں کے جوڑے کو وین کے پچھلے حصے میں احتیاھ سے رکھ کر جنرل اسٹور میں گئی۔ بہت ہاتھ روکا، پھر بھی ہفتے بھر کی چیزوں پر پچیس ڈالر اٹھ گئے۔ پوسٹ آفس پہنچ کر میںنے باقی رقم گنی۔ اب میرے پاس کل پینسٹھ ڈالر تھے۔ کمپنی کو ایک سو ڈالر بھیجنا ضروری تھے۔ اچانک مجھے لیس کے بھائیوں کا خیال آیا۔ آخر اماں کا ان پر بھی تو حق تھا اور پھر یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ وہ دونوں صاحبِ حیثیت تھے۔ میں نے چونتیس ڈالر کا منی آرڈر فارم بھرا اور فرم کو بھیج دیا۔ ساتھ ہی ایک تار بھی دے دیا کہ اماں کے تین بیٹے ہیں۔ چونتیس ڈالر ہم بھیج رہے ہیں، باقی چھیاسٹھ ڈالر دونوں بیٹے دیں گے۔ جب آپ کے پاس سو ڈالر جمع ہوجائیں، تو آلۂ سماعت لے کر آجائیے گا۔ اس وقت تک ہم انتظار کریں گے۔ لیس کے دونوں بھائیوں کو بھی میںنے اطلاع دے دی کہ اماں کے لیے ہمیں سو ڈالر چاہئیں، چونتیس ہمارے پاس ہیں، باقی چھیاسٹھ آپ رے اینڈ میئر میڈیکل ایکوپمنٹ فرم کے نام منی آرڈر کردیں۔ اس کام سے فارغ ہوکر میں اطمینان سے گھر لوٹ آئی۔ مجھے یقین تھا روجر اور ٹام فوراً ہی رقم بھیج دیں گے اور اس طرح لیس کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ اس رات کھانے کے بعد میں فوراً ہی بستر پر لیٹ گئی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ لیس مجھ سے رقم کے بارے میں دریافت کرے، چنانچہ اس نے کوئی سوال نہ کیا اور فوراً ہی سوگیا شاید وہ تھکا ہوا تھا۔
دوسری صبح لیس دکان پر جانے سے قبل مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’جینی! تمہیں آج کہیں جانا تو نہیں؟‘‘
’’نہیں! کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’آج جمعرات ہے، میڈیکل فرم والے ڈاکٹر صاحب نے آنے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘
میں ڈر گئی، ہوسکتا ہے لیس نے فرم کو فون کیا ہو۔
’’کیا آپ ڈاکٹر صاحب سے ملے تھے۔‘‘
’’میں بھلا انہیں کیسے مل سکتا تھا۔ دن بھر کام سے فرصت ہی نہیں ملی۔‘‘
’’میں انہیں ملی تھی، میں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہم نے رقم منی آرڈر کردی ہے، وہ کہہ رہے تھے تین چار روز میں دفتری کارروائی مکمل ہوجائے گی اور وہ آلۂ سماعت لے کر گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘ میں نے جھوٹ بولا۔
’’ٹھیک ہے خدا کرے اماں جلد جلد سننے لگیں۔ اس رقم کے لیے جتنی محنت کرنی پڑی ہے، وہ کچھ میں ہی جانتا ہوں۔‘‘
شام کو پولٹی کے اسکول میں سالانہ تقریب ہونے والی تھی۔ دوپہر کو وہ اسکول سے لوٹی، تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا پولٹی، تم اتنی اداس کیوں ہو؟‘‘
’’امی، وہ تقریب اب اگلی جمعرات کو ہوگی۔‘‘ وہ آہستگی سے بولی۔
اس خبر نے مجھے بھی افسردہ کردیا۔ میں نے کپڑے خریدنے میں عجلت سے کام لیا تھا۔ اگر میں بیس ڈالر یہاں صرف نہ کرتی، تو آج مجھے جھوٹ بولنا نہ پڑتا۔ بہرحال اب کیا ہوسکتا تھا۔ میں نے ایک جھوٹ بولا تھا اور اسے چھپانے کے لیے مجھے کئی جھوٹ بولنے پڑ رہے تھے۔ دو دن گزر گئے۔ ہر شام لیس کام سے لوٹتے ہی مجھ سے سوال کرتا۔
’’ڈاکٹر صاحب نہیں آئے؟‘‘
’’جی نہیں، آخر تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ آجائیں گے۔‘‘ میں ہمیشہ اسے تسلی دینے کی کوشش کرتی۔ سوموار تک اس کا پیمانۂ صبر لبریز ہوچکا تھا۔
’’جینی! آج میں خود ڈاکٹر صاحب کے ہاں جاؤں گا۔‘‘ ناشتے کی میز پر اس نے فیصلہ کن لہجے میںکہا۔میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اب کیا ہوگا؟ اگر لیس ڈاکٹر صاحب سے ملا، تو وہ ضرور فرم کے دفتر میں فون کریں گے۔ اس صورت میں میری چوری پکڑی جائے گی۔
’’لیس میرے گھر کا خرچ چلانے کے لیے ایک دھیلا تک نہیں، تم آج کسی نہ کسی طرح کچھ بل وصول کرلو۔ میں ڈاکٹر صاحب کے ہاں چلی جاؤں گی۔‘‘
’’بہت بہتر، ان سے کہنا آج شام ضرور آئیں۔‘‘
میں نے اطمینان کا سانس لیا، لیس نے دکان پر جانے سے قبل ایک بار پھر مجھے ڈاکٹر کے پاس جانے کی تاکید کی، پلیٹیں دھوکر میں باہرنکلی۔ اماں صحن میں کھڑی تھیں۔
’’جینی! تم نے شہد کی مکھیوں کا چھتّہ دیکھا ؟‘‘ وہ مجھے دیکھ کر بولیں۔
میں نے نفی میں سر ہلایا۔
’’وہاں سڑک پر جھاڑیوں میں ہے۔ میں نے کوری سے وعدہ کیا ہے کہ اسے تازہ شہد دوں گی۔ ذرا میرے ساتھ چلو۔‘‘
ہم سڑک پر پہنچے۔ تو ایک ٹرک خالی ٹریلر لے کر اوپر جارہا تھا۔ پہاڑی کی چوٹی پر لیس کی دکان تھی۔ یہ وہی ٹرک تھا جس کی مرمت سے لیس تین چار روز قبل فارغ ہوا تھا۔ یہ سڑک دکان کے سامنے پہنچ کر ختم ہوجاتی تھی۔ اماں چھتے کے پاس چلی گئیں اور کوری سڑک پر سے گول گول پتھر چننے لگی۔ میں چھوٹے لڑکے ہیری کے ساتھ دکان کی طرف چل دی۔
دکان سے باہر لیس ٹرک کے انجن کی دیکھ بھال میں مصروف تھا۔ ایک شخص اس کے پاس کھڑا تھا۔ دکان کے عقب میں ایک چھوٹی سی قدرتی جھیل تھی۔ میں چبوترے پر کھڑی ہوکر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اچانک کسی بھاری شے کے لڑھکنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے مڑکر دیکھا۔ اف میرے خدا! ہیری نے ٹریلر کو ٹرک سے کھول دیا تھا، دکان بلندی پر تھی، اور نشیب میں جانے والی سڑک پر ٹریلر تیزی سے لڑھکتا جارہا تھا۔ لیس اور وہ شخص اندھا دھند ٹریلر کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر اماں سڑک کے عین وسط میں کوری کے پاس بیٹھی تھیں، ان کی پشت ہماری طرف تھی۔ ان کے وہم و گمان میںبھی نہ تھا کہ موت ان سے صرف چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ پولیس پوری قوت سے چلا رہا تھا۔ ’’اماں سڑک سے ہٹ جاؤ‘‘ لیکن بیچاری اماں کو کیسے سنائی دیتا۔
میں تیزی سے ان کی طرف دوڑی، لیکن ایک پتھر سے ٹھوکر کھاکر سڑک پر گر پڑی۔ دوبارہ اٹھی، توٹریلر کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سڑک کے عین وسط میں لیس اور وہ شخص بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے اماں کا خون میں نہایا ہوا جسم پڑا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے سرخ دھبے ناچنے لگے۔
’’لیس یہ کیا ہوا؟‘‘ میں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
لیس خامو ش رہا، اس کا چہرہ سفید ہورہا تھا۔ پاس کھڑے ہوئے شخص نے جھک کر اماں کے سینے پر ہاتھ رکھا اور تیزی سے بولا:
’’ابھی ان کی سانس چل رہی ہے، ہمیں جلد از جلد انہیں ہسپتال پہنچانا چاہیے۔‘‘
میں گھر کی طرف بھاگی۔ تھوڑی دیر میں ہم وین میں اماں کو ہسپتال لے جارہے تھے۔ بازار کے چوک میں پہنچ کر مجھے لیس کی آواز سنائی دی، وہ اماں کے ساتھ وین کے پچھلے حصے میں تھا۔
’’ہسپتال جانے کا کوئی فائدہ نہیں، واپس گھر چلو۔‘‘ ہم نے مڑ کر دیکھا، اماں اپنا سفر پورا کرچکی تھی۔
اماں کے جنازے پر سارا شہر امنڈ آیا تھا۔ روجر اور اس کی بیوی بھی پہنچ گئے تھے۔ فوج میں ہونے کی وجہ سے ٹام کو چھٹی نہ ملی۔ اس نے اپنے بیوی بچوں کو بھیج دیا تھا۔ تدفین سے اگلے روز سب لوگ ڈرائنگ روم میں سوگوار بیٹھے تھے۔ اس حادثے نے میرے قلب و ذہن کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اماں کی موت کی ذمے دار میں ہوں۔ اگر میں پولٹی کے لیے کپڑے نہ خریدتی اور فوراً ہی ایک سو ڈالر میڈیکل فرم کو بھیج دیتی تو جمعرات کو وہ لوگ آکر اماں کو آلۂ سماعت دے جاتے۔ آلۂ سماعت ہوتا، تو وہ ہماری آوازیں ضرور سن لیتیں اور سڑک پر سے ہٹ جاتیں۔ مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ میری ضد اور ناسمجھی نے ان کی جان لے لی تھی۔ بار بار مجھے اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ کوئی چیز میرے اندر کلبلا رہی تھی، میرے دل کو بھینچ رہی تھی۔ میں کمرے کے دروازے بند کرکے بیٹھی تھی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ میں امّاں کے سوگ میں ہوں۔ انہیں کیا معلوم کہ ضمیر کی خلش مجھے بے چین کررہی تھی۔ شام کے وقت میری مجھے بلانے آیا۔ میں بوجھل قدموں سے باہر صحن میںپہنچی۔لیس ہاتھ میں ایک بیگ لیے کھڑا تھا:
’’جینی! یہ رقم رکھ لو۔‘‘
میں نے بیگ میں جھانکا، وہ نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔
’’یہ تم نے کہاں سے لیے ہیں۔‘‘
’’اماں کی خبرسن کر لوگوں نے میرے سارے بل ادا کردیے ہیں۔ تیرہ سو سے کچھ اوپر ڈالر ہیں۔‘‘
میں نے بے دلی سے بیگ لے لیا۔ ہم وہیں کھڑے تھے کہ کوری دکھائی دی۔ پچھلے دو دنوں میں میں اسے بھول گئی تھی، وہ بھی اماں کے ساتھ سڑک کے وسط میں بیٹھی تھی، لیکن وہ صحیح و سالم تھی، ماتھے پر البتہ ایک پٹّی بندھی تھی۔
’’اس وقت تک یہ کہاں تھی؟‘‘ میں نے لیس سے پوچھا
’’ٹریلر قریب آگیا، تو کوری بھاگ کر ایک طرف ہوگئی تھی۔‘‘ لیس نے افسردگی سے کہا۔
ڈرائنگ روم میں بہت سے لوگ جمع تھے، وہ سب اماں کی تعریفیں کررہے تھے۔ اماں کی سخاوت، محبت اور شفقت نے ان سب کے دلوں پر ان مٹ نقوش چھوڑے تھے۔ شام تک مردوں عورتوں اور بچوں کا تانتا بندھا رہا۔ رات کو جب سو سب لوگ چلے گئے، تو لیس میرے پاس آیا، اس کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہورہا تھا:
’’جینی! مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔ ہوسکتا ہے میں عمر بھر تمہارے کرتوت سے واقف نہ ہوتا، وہ تو اچھا ہوا، روجر نے باتوں ہی باتوں میں مجھے بتادیا۔‘‘
میں سمجھ گئی۔ روجر سے اسے علم ہوگیا تھا کہ میں نے فرم کو صرف چونتیس ڈالر بھیجے تھے۔ میں سرجھکائے آنسو بہاتی رہی اور لیس مجھ پر برستا رہا۔ میں اپنے کیے پر نادم تھی، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ ندامت کے یہ آنسو اماں کو واپس نہیں لاسکتے تھے، وہ اب ایسی جگہ پہنچ گئی تھیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔ پولٹی کا لبا س اب تک الماری میں رکھا تھا اور اکتیس ڈالر میری میز کی دراز میں پڑے تھے۔ اماں کی کرسی خالی تھی اور ان کی پالتو بلی کمرے میں انہیں تلاش کرتی پھر رہی تھی۔ لیس کا غصہ دم بدم بڑھتا جارہا تھا۔ وہ میرے منہ پر تھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ اچانک کوری آڑے آگئی۔ اس کا چہرہ کمہلا ہوا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
’’نہ … نہ…‘‘ اس کے منہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔ ہمیں لڑائی سے باز رکھنے کی کوشش میں وہ کچھ کہنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔
’’اماں‘‘ بمشکل اس کے منہ سے نکلا اور وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ میرے اور لیس کے ہاتھ بیک وقت اس کی طرف اٹھ گئے۔ ہم نے اس کے آنسو پونچھے اور اسے تسلی دینے لگے۔ اس کی نظریں ہم پر جمی تھیں۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہ نظریں محبت اور ہمدردی کا پیغام دے رہی ہوں۔
’’لیس، مجھے معاف کردو، میں غلطی پر تھی۔‘‘ میں نے کوری کو گود میں لیتے ہوئے کہا۔
لیس نے محبت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کوری کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ آج اس واقعے کو کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ لیکن اماں کی یاد ہمارے دلوں میں روزِ اول کی طرح موجود ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمدردی اور انسان دوستی کے اس چراغ کو کبھی بجھنے نہ دوں گی جسے امّاں نے روشن کیا تھا۔ اماں زندگی بھر دوسروں کے کام آتی رہیں اور اس دنیا سے جاتے وقت مجھے ایک ایسا سبق دے گئیں جس نے مجھے صحیح معنوں میں جینا سکھایا ہے۔