زندگی ایک امتحان کے مانند ہے اور ہر امتحان میں کامیاب اور کامران ہونے کے چند اصول و ضوابط ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں اس چھ حرفی لفظ’امتحان‘ سے ضرور پالا پڑتا ہے مگر یہ چوٹی کامیابی سے سر کرنے والوں ہی کو بقیہ زندگی میں انعامات ملتے ہیں۔ آئیے آج کی گفتگو میں امتحان سے گھبرانے کے بجائے اس سے دوستی کیجیے اور چند اصولوں کے ذریعے اچھے طریقے سے اس کٹھن مرحلے کو سر کرنا سیکھئے۔
پچھلے چند برسوں سے میں بورڈ کے پرچوں کی بھی جانچ کررہی ہوں، سچ پوچھئے تو یہ مضمون لکھنے کی تحریک بھی وہیں سے ملی۔ طالب علموں کی بعض معمولی غلطیاں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ بحیثیت استاد میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس سلسلے میں طالبان علم کی کچھ رہنمائی کروں۔ ان ہدایات سے صرف کالج ہی کا نہیں بلکہ ہر طالب علم فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ہمارے فرسودہ نظام تعلیم میں طالب علم کے مستقبل کا فیصلہ امتحان کے تین گھنٹوں کی کارکردگی پر ہوتا ہے جو ان کے ساتھ کسی زیادتی سے کم نہیں ہے۔
بہر حال اس قدر مختصر وقت میں اپنے آپ کو کامیاب کروانے کے لیے بہت سی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیوںکہ پرچہ حل کرنا بھی ایک فن ہے۔ آئیے ان زریں اصولوں پر نظر ڈالیے جن پر عمل کرکے آپ بہترین نتائج دکھا سکتے ہیں۔
(۱) جس طرح دوا کے ساتھ دعا بھی کارگر ہوتی ہے اسی طرح محنت بھی کریں اور اللہ کو بھی یاد کریں۔ امتحانی مرکز میں بیٹھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ جامع دعا پڑھنا نہ بھولیے:
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْo وَ یَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ o وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِسَانِیْ o یَفْقَہُوْا قَوْلِیْo (طٰہٰ: ۲۴-۲۷)
’’اے اللہ! میرا سینہ کھول دے، میرا کام آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں۔‘‘
علاوہ ازیں مزید درودووظائف پڑھ کر اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ دورانِ امتحان آپ کے ذہن کو حاضر رکھے۔
(۲) پرچے کا بغور مطالعہ کریں۔ پرچہ پڑھنے میں کم از کم پانچ منٹ صرف کریں کیونکہ بعض اوقات طالب علم کمرہ امتحان سے باہر آکر سر پیٹتے ہوئے کہتے ہیں ’’اوہو فلاں سوال بھی تھا، میں نے دیکھا ہی نہیں۔‘‘
(۳) جو سوال آپ کو آتے ہیں ان پر نشان لگالیں۔
(۴) اب یہ دیکھئے کہ کتنے سوال حل کرنے ہیں اور آپ کے پاس کتنا وقت ہے۔ وقت کو سوالوں پر تقسیم کرلیں اور کوشش کریں کہ مطلوبہ وقت کے اندر سوال مکمل کرلیں۔ بعض طلبا ایک دو سوالوں پر کافی وقت صرف کردیتے ہیں اور باقی پرچہ ادھورا رہ جاتا ہے۔
(۵) جو سوال سب سے اچھا آتا ہو اسے سب سے پہلے حل کریں، اس طرح آپ ممتحن کی ہمدردیاں سمیٹ لیتے ہیں۔ یاد رکھئے ’’پہلا تاثر ہی آخری ہوتا ہے۔‘‘
(۶) مختصر نوٹ لکھیں، والا سوال حل کرنے سے حتی الامکان گریز کریں۔ اس میں نوٹ کا مکمل تاثر دینا ہوتا ہے جو اکثر طلباء نہیں دے پاتے کیونکہ ایک سوال کے مکمل جواب کا تاثر برقرار رکھنا بہ نسبت زیادہ آسان ہے۔
(۷) اہم نکات اور حوالہ جات کو نمایاں کریں اور اس مقصد کے لیے نیلے رنگ کا موٹا قلم (مارکر) استعمال کریں۔
(۸) ایک بات ختم کرنے کے بعد اگلی بات نئے پیراگراف سے شروع کریں اور حوالہ جات کو بھی نئی سطر میں لکھ کر اگلی سطر سے دوسری بات شروع کریں۔ حوالہ جات صحیح دیں، غلط حوالہ مثلاً غلط شعر، غلط آیت اور حدیث منفی اثر مرتب کرتے ہیں۔
(۹) سوال حل کرتے ہوئے سوالیہ پرچے میں درج شدہ نمبر دیں،خود سے نیا نمبر نہ دیں۔ اس طرح ممتحن کو پرچے کے باہر ایوارڈ پر نمبر لگاتے ہوئے کافی مشکل ہوتی ہے۔
(۱۰) امتحانی کاپی پر بے مقصد فقرے نہ لکھیں، مثلاً خدا کے لیے مجھے پاس کریں، میں بہت غریب ہوں یا بہت بیمار ہوں۔ ان فقرات کا اثر منفی ہوتا ہے۔
(۱۱) اگر ایک سوال کے چند اجزا ہوں تو انہیں ایک ہی جگہ حل کریں ورنہ پرچہ دیکھنے والا سخت ذہنی کوفت کا شکار ہوتا ہے۔
(۱۲) سوال کو اچھی طرح سمجھ کر اس کی حد میں رہتے ہوئے جواب لکھیں، یہ سوچ غلط ہے کہ پرچے کی لمبائی دیکھ کر آپ کو زیادہ نمبر مل جائیں گے۔
(۱۳) اگر آپ محسوس کریں کہ آخری سوال کے لیے وقت بہت کم رہ گیا ہے تو سب سے پہلے اس سوال کے تمام نکات درج کرلیں بعد ازاں ان کی تفصیل لکھیں۔ اگر وقت ختم بھی ہوجائے تو بھی ممتحن کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ طالب علم کو سوال آتا تھا اور صرف وقت کی کمی کی وجہ سے وہ تفصیل سے جواب نہیں دے سکا۔
(۱۴) جب آخر میں چند منٹ رہ جائیں تو حل شدہ پرچے پر سرسری نظر ضرور ڈال لیں، خاص طور پر ریاضی کے پرچے اور معروضی طرز کے جوابات کو۔
(۱۵) یہ سوچ کر کبھی زائد سوال نہ لکھیں کہ آپ کو نمبر زیادہ مل جائیں گے۔ زائد سوال کاٹ دیا جاتا ہے اور اس طرح آپ کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔
(۱۶) زبان اور بیان پر عبور حاصل کریں اور ہمیشہ درست زبان لکھیں۔ انگریزی اور اردو کے ہجے کا بھر پور خیال رکھیں۔
(۱۷) آخری اہم گزارش یہ ہے کہ پرچے کو درست طریقے سے باندھیے۔ جب آپ زائد کاغذ لیں، تو اوپر ترتیب سے نمبر لگاتے جائیں۔ بعد ازاں اسی ترتیب سے پرچے کو باندھ لیں۔ الٹ پلٹ کاغذ باندھنے والے طالب علم کو کامیاب کرنے کی ذمے داری ممتحن پر نہیں ہے۔
(۱۸) کاغذ پر لکھتے وقت حاشیہ ضرور چھوڑیے، اس طرح صفحہ نہ صرف جاذب نظر آتا ہے، بلکہ صاف ستھرا لگتا ہے۔
(۱۹) کوشش کیجیے کہ تحریر خوش خط ہو تاکہ ممتحن لکھائی بآسانی پڑھ سکے۔ اگر لکھائی خراب ہو یا پڑھی نہ جاسکے تو اس طالب علم کو ناکام بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پرچہ حل کیا جائے تو یقینا طالب علم اچھے نمبر لے گا اور پھر یہ پروپیگنڈا بھی نہیں ہوگا کہ، لگتا ہے کہ ہماری کوئی شیٹ اتر گئی یا ممتحن غصے کا تیز لگتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہر ممتحن کو کہا جاتا ہے کہ نرمی سے پرچے کی جانچ کرے بلکہ دو تین نمبروں سے ناکام ہونے والے کو عموماً کامیاب قرار دینے کی ہدایت بھی ہوتی ہے۔ سو طالب علم بدگمانی کے بجائے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں ، انشاء اللہ بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔