جیسے جیسے امتحانات کا وقت قریب آتا جارہا ہے بعض طلبہ وطالبات کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جو طلبہ سال بھر محنت سے پڑھتے ہیں اگرچہ انہیں ناکام ہونے کا ڈر نہیں ہوتا مگر امتحان تو بہر حال امتحان ہے ذہن پر تو بوجھ ہوتا ہی ہے۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ریلیکس رہیں اور بچے ہوئے تھوڑے سے وقت کو اس طرح استعمال کریں کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوسکے۔
یہ سچ ہے کہ اس وقت جو ٹائم آپ کے پاس ہے وہ بہت قیمتی ہے اور ان چند دنوں میں آپ کی محنت آپ کو اچھے گریڈ سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ وہ بہن بھائی جنھوں نے پورے سال بہت لگن سے نہیں پڑھا وہ بھی اس وقت کا صحیح اور مناسب استعمال کرکے ناکامی کے اندیشے کو دور بھگا سکتے ہیں۔ اس کے لیے چاہیے سنجیدگی، مضبوط ارادہ اور سخت محنت۔ بچے ہوئے یہ چند ایام ہمارے نقصان کی بھرپائی کرسکتے ہیں، اگر ہم ان کا بہترین استعمال کرنے پر قادر ہوجائیں۔ اس کے لیے آپ کو بقیہ وقت کی اچھی منصوبہ بندی اور پھر سختی سے اس منصوبہ پر عمل آوری کی کوشش کرنی ہوگی۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کے لیے مشورے دے رہے ہیں:
٭ سب سے پہلے بچے ہوئے وقت کی منصوبہ بندی کریں اور ایک ایک لمحہ کو ضائع ہونے سے بچانے کا عزم کریں۔
٭ بچے ہوئے دنوں کو مضمون وائز تقسیم کرلیں، اور ہر مضمون کو اس کا وقت دے کر پورے نصاب کو ایک بار دہرالیں۔
٭ جن مضامین میں آپ خود کو کمزور تصور کرتے ہیں، انہیں زیادہ وقت دیں۔ آسان مضامین سے وقت کاٹ کر مشکل مضامین پر لگائیں۔
٭ ذہن و دماغ کو ہر قسم کی الجھنوں سے نکال کر صرف تعلیم پر لگادیں اور پوری توجہ پڑھائی پر دیں۔
٭ اسکول میں جو کچھ بھی بتایا جائے اسے وقت نکال کر اسی روز گھر پر دہرالیں اس طرح ان باتوں پر زیادہ محنت کی ضرورت نہ ہوگی۔
موجودہ دور سخت مقابلے اور سخت محنت کا دور ہے۔ یہاں امتحان میں صرف پاس ہوجانا ہی منزل نہیں ہے۔ نہ فرسٹ ڈویژن حاصل کرلینے سے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ستر فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ بھی میرٹ کی بنیاد پر اپنی پسند کے مضامین میں داخلہ نہیں لے پاتے۔ دوسرے طلبہ کی خاصی تعداد ایسی ہوتی ہے 95%سے بھی زیادہ نشانات حاصل کرنے میں کامیابی ہوجاتی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ان کے مقابلہ میں ہم پاسنگ مارکس یا فرسٹ ڈویژن لاکر بھی کہیں کھڑے نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہمارے طلبہ سال بھر اسی سنجیدگی سے پڑھائی کریں جس طرح امتحانات کے قریب یا دوران امتحان کرتے ہیں۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے بورڈ کے امتحانا ت کے نتائج یہ بتارہے ہیں کہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں زیادہ بہتر اور نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ یہ اس حیثیت سے خوش آئند بات ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم کے حصول کے لیے نہ صرف سنجیدگی اور یکسوئی پائی جاتی ہے بلکہ اس میدان میں وہ لڑکوں سے آگے نکل گئی ہیں۔ مگر اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکوں میں دن بہ دن سنجیدگی اور علم کا شوق کم ہورہا ہے اور وہ مغرب پرستی اور ناکارہ پن کی طرف جارہے ہیں۔ ہمیں اپنی محنت اور لگن سے اس روش کو بدل کر رکھ دینا ہے اور نمایاں کامیابی کے ذریعہ یہ ثابت کردینا ہے کہ لڑکے بھی حصول علم کے لیے سنجیدہ ہیں یا کم از کم مسلم لڑکوں کا حال تو عام لوگوں سے الگ ہے۔ ہماری بہنیں اس بات سے بہت زیادہ خوش اس لیے نہ ہوں کہ وہ ایسی امت کا حصہ ہیں جو علم کے میدان میں پسماندہ تصور کی جاتی ہے اور واقعی ہے بھی۔ ہمیں اپنی محنت پر مبنی کارکردگی کے ذریعہ امت مسلمہ کے ماتھے سے یہ داغ کھرچ ڈالنے کے لیے ان تھک جدوجہدکرنی ہے۔
اچھے نمبرات کے لیے امتحان کی تیاری کے دوران آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ نصاب کیا ہے اور اس کے کس بات یا چیپٹر سے کتنے نمبر کے سوالات آتے ہیں۔ یہ بات معلوم کرنا دشوار نہیں خود مضمون پڑھانے والے استاد کو یہ بات معلوم ہوتی ہے۔ اس طرح آپ ہر چیپٹر پر مناسب اور ضروری توجہ دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بارہویں کے تاریخ کے نصاب کی نمبراتی تقسیم اس طرح ہے:
ماڈرن انڈیا
٭ باب ۱، ۲، ۳ ۱۰ نمبر
٭ باب ۴، ۵، ۶ ۱۰ نمبر
٭ باب ۷،۸،۹،۱۰،۱۱ ۱۲ نمبر
٭ باب ۱۱، ۱۲، ۱۳ ۱۳ نمبر (۱۹۰۷ء میں کانگریس کی شروعات سے)
٭ باب ۱۴، ۱۵، ۱۶ ۱۰ نمبر
٭ نقشہ و خاکہ ۵ نمبر
معاصر دنیا (کنٹمپریری ورلڈ)
٭ باب ۱-۳ ۵ نمبر ٭ باب ۴ -۶ ۷ نمبر
٭ باب ۷-۱۰ ۱۰ نمبر ٭ باب ۹-۱۳ ۷ نمبر
٭ باب۱۴-۱۵ ۶ نمبر ٭ نقشہ و خاکہ ۵ نمبر
مذکورہ خاکہ کو مثال بناتے ہوئے ہر مضمون کے سلسلہ میں اس طرح کی ضروری معلومات حاصل کرلیں اور تیاری کرتے وقت اسے ذہن میں رکھیں۔ یہ تقسیم ایسی نہیں کہ صد فیصد اسی کے مطابق سوالنامہ آئے اس میں کچھ ردوبدل بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت سے قریب تر اور سی بی ایس ای کی پالیسی کے مطابق ہے۔ اس لیے اس کی بہرحال اہمیت ہے۔
مطالعہ کیسے کریں
یوں تو تمام ہی طلبہ پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں مگر ایسے بہت کم ہیں جنھیں مطالعہ کا طریقہ آتا ہے اور اس کے لوازمات کو وہ پورا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ چیزوں کو ذہن نشین کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم چیز یکسوئی ہوتی ہے۔ وہ طلبہ جو ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈر چلا کر پڑھتے ہیں یا ٹی وی کے پاس بیٹھ کر پڑھتے ہیں یقینا یکسوئی پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایسی جگہ بیٹھ کر پڑھائی کریں جہاں کسی بھی قسم کا خلل واقع نہ ہواور آپ کی میز و کرسی ایسی جگہ رکھی ہو جہاں لوگوں کی بار بار آمد نہ ہوتی ہو۔ اسی طرح مطالعہ کے لیے جملہ چیزیں، کاغذ، کتاب، قلم، کاپی، ربر، پینسل وغیرہ سب چیزیں آپ کے پاس موجود ہوں اور ضرورت کے وقت کہیں اٹھ کر نہ جانا پڑے۔ اس طرح یکسوئی برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح لیٹ کر، جھک کر یا بستر میں بیٹھ کر پڑھنے سے بھی بچنا چاہیے اس سے تھکان زیادہ ہوتی ہے اور مطالعہ پر توجہ بھی پوری نہیں ہوپاتی۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ طلبہ لیٹ کر پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے سوجاتے ہیں اس کا سبب یکسوئی کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ:
٭ جس جگہ مطالعہ کیا جائے وہاں مناسب روشنی کا انتظام ہو، بہت تیز روشنی، یا کم روشنی آنکھوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ میز پر ایک لیمپ ہو جس کی روشنی صرف کتاب پر پڑتی ہو۔
٭ اہم نکات کو انڈر لائن کرتے جائیں یا خاص خاص باتوں کو نوٹ بک میں درج کرتے جائیں، تاکہ دوبارہ نظر ڈالنے میں تلاش نہ کرنا پڑے۔
٭ مشکل اور سمجھ میں نہ آنے والی چیزوں کو الگ کاغذ پر درج کرلیا جائے اور اگلے روز استاد یا کسی ساتھی سے ان کو سمجھ لیا جائے۔
٭ جب تھکن یا اکتاہٹ کا احساس ہو تو مضمون بدل دیا جائے یا کوئی ہلکی پھلکی قصے کہانی کی کتاب چند منٹ کے لیے اٹھا لی جائے یا چند منٹ باہر جاکر ٹہل لیا جائے مگر یاد رہے وقت کا ضیاع نہ ہو۔
٭ اپنے مطالعہ کی رفتار کو تیز تر کیا جائے اور چیزوں کو رٹنے یا زور زور سے پڑھنے سے ممکن حد تک بچا جائے، بلکہ سمجھنے اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کی جائے۔
٭ اگر کئی ساتھی مل کر پڑھ رہے ہوں تو گپ شپ سے ہر صورت میں بچا جائے اور صرف پڑھائی کا کام کیا جائے۔
٭ جن چیزوں کے لیے مشق کی ضرورت ہو ان پر پوری توجہ دی جائے، مثلاً ریاضی کے سوالات کے لیے مشق، الجبرا ، گراف بنانے اور جومیٹری وغیرہ کی اچھی طرح مشق کی جائے۔ اسی طرح تاریخ و جغرافیہ میں نقشہ بنانے اورڈرائنگ تیار کرنے کی بھی اچھی مشق کی جانی چاہیے۔
٭ سائنس کے لیے تجربات کیے جائیں اور انگریزی وغیرہ کے لیے خلاصے، خطوط لکھنے اور مضمون وغیرہ لکھنے کی پہلے سے تیاری کرلی جائے۔
تمام تیاری اور اچھے مطالعہ کے باوجود اچھے نمبرات کا حصول اس بات پر منحصر ہے کہ امتحان میں آپ کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ طلبہ ایک دو یا بعض اوقات کئی سوالات کے جوابات وقت ختم ہوجانے کے سبب نہیں لکھ پاتے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ امتحان کے وقت آپ کا اس بات کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ طالب علم دئے گئے وقت میں کس طرح اپنے پرچہ کو مکمل کرتا ہے۔ ممتحن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک طالب علم وقت کے اندر اندر تمام سوالات کے مناسب جوابات دے دے۔ اس لیے جس طرح امتحان سے پہلے مطالعہ کے وقت یکسوئی چاہیے اسی طرح بلکہ اس زیادہ یکسوئی اور ہوشیاری پرچہ حل کرتے وقت ہونی چاہیے اور پوری دانشمندی اور حاضر دماغی کے ساتھ امتحان میں بیٹھنا چاہیے۔ ایک طالب علم سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ امتحان کے دن وہ جلدی بیدار ہوکر نہا دھوکر اچھی طرح ریلیکس انداز میں وقت سے چند منٹ پہلے امتحان گاہ پہنچ جائے۔ بوجھل ذہن کے ساتھ امتحان میں اچھی کارکردگی مشکل ہوجاتی ہے۔ یہ انداز بھی غلط ہے کہ گھنٹی بج جانے تک طلبہ کاپی یا کتاب الٹتے پلٹتے رہتے ہیں۔ ذیل میں ہم کچھ باتیں درج کرتے ہیں جن کو امتحان ہال میں بہرحال پیش نظر رکھا جائے اور کسی بھی صورت میں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
٭ ضرورت کا جملہ سامان قلم (ایک سے زیادہ) پنسل،اور اس کا کٹر ، اسکیل، وجیومیٹری وغیرہ کا دوسرا سامان لے کر ہی امتحان ہال پہنچا جائے۔
٭ پرچہ ملتے ہی رَبِّ یَسِّرْ وَلَا تُعَسِّرْ وَتَمِّمْ بِالْخَیْرِ کہہ کر پورے پرچہ کو بہ غور پڑھ لیا جائے اور سب سے پہلے وہ سوال حل کیا جائے جس کا سب سے بہتر جواب آپ کو معلوم ہے۔ مگر اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس کے جواب میں اتنا ہی وقت صرف ہو جتنا اس کا حق ہے یعنی نمبر کے مطابق۔
٭ کونسا سوال لازمی حل کرنا ہے اور ممتحن کسے چھوڑنے کا اختیار دیتا ہے اس پر توجہ دی جائے۔
٭ کم از کم ایک انچ کا حاشیہ ضرور دونوں طرف چھوڑا جائے اور اس میں کچھ نہ لکھا جائے۔
٭ جواب دینے میں اس بات کا خیال رکھیں کہ غیر ضروری باتیں نہ لکھیں۔ اسی طرح اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ اہم اور ضروری باتیں لکھنے سے نہ رہ جائیں۔
٭ ہینڈ رائٹنگ کا خاص خیال رکھیں۔
٭ سوالوں کے جوابات اس پر دئے گئے نمبرات کے مطابق لکھیں۔ مثلا دس نمبر کا سوال ہے تو اس کا جواب ایک دو صفحات میں دیا جاسکتا ہے مگر دو نمبر کے سوال کے جواب میں ایک صفحہ لکھنا وقت ضائع کرنا ہے۔ اسی طرح پانچ نمبر کے سوال کے جواب میں دو تین لائن لکھنا آپ کے نمبرات کو کم کردے گا۔
٭ جواب شروع کرنے سے پہلے اس سے متعلق معلومات کو چند لمحے ٹھیر کر ذہن میں یکجا کرلیں اور جچے تلے انداز میں تحریر کریں۔
٭ جوابات لکھتے وقت اپنی گھڑی پر بھی نظر رکھیں اور ہر جواب کے لیے درکار وقت سے زیادہ وقت صرف نہ کریں۔
٭ آسان سے بتدریج مشکل کی طرف بڑھیں مگر کسی سوال کو چھوڑیں نہیں۔
٭ کہیں بھی سرخ روشنائی کا استعمال نہ کریں، یہ رنگ ممتحن کے لیے خاص ہے۔
٭ وقت سے پہلے پرچہ مکمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ چند منٹ دوہرانے کے لیے مل جائیں۔
٭ اور جان لیں کہ امتحان صرف آپ کی نصابی صلاحیت کا نہیں ہے بلکہ آپ کی ایمانداری و دیانت داری کا بھی امتحان ہے۔ اس لیے کسی بھی طریقہ کی نقل اور ادھر ادھر تانک جھانک کرکے اپنا وقت اور ایمان برباد نہ کریں اور کاپی حوالی کرنے کے بعد اللہ سے اچھے نتائج کے لیے دعا کریں۔
٭ کسی سوال کا جواب دینے سے پہلے اس سوال کو ایک بار بغور پڑھ لیں۔
٭ اگر کوئی زائد پرچہ یا گراف ، پیپر لیا ہو تو اسے منسلک کرنا نہ بھولیں۔
٭ پرچہ کے اندر اپنا نام یا کوئی نشانی چھوڑنے سے گریز کریں۔
٭ جہاں تک ممکن ہو رف پیپر کا استعما ل کریں۔
٭ جواب کو معقول مثالوں کے ساتھ لکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
والدین کا رول
زندہ اور بیدار افراد ہمیشہ اپنی نسلوں کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے لیے فکر مندر رہتے ہیں اور اس کے لیے مسلسل کوشاں بھی۔ ایسے وقت میں جبکہ بچوں کے امتحان قریب ہیں والدین کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنھیں اگر وہ اچھی طرح ادا کریں تو بچہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ ان چیزوں میں سب سے اہم بچوں کو پڑھنے کا شوق اور امتحان کے لیے حوصلہ دلانا ہے۔ اسی طرح اس بات پر بھی نظر رکھنا ہے کہ ان کا جگر کا گوشہ کہیں اپنے قیمتی اوقات کو ضائع تو نہیں کررہا ہے۔ اور اگر ایسا نظر آئے تو محبت کے ساتھ اسے پڑھائی کی طرف توجہ دلائی جائے کیونکہ بچہ تو بہرحال بچہ ہے۔ اور پھر — اگر وہ کرسکتے ہیں تو مشکل سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں اس کی مدد کریں۔ اس کے پاس بیٹھ کر خود بھی مطالعہ کریں یا کسی اور ایسے کام میں مصروف رہیں جس سے اس کے مطالعہ اور تیاری میں خلل نہ ہو۔
امتحانات کے دوران والدین بچے کی صحت اور اس کی غذا پر خاص توجہ دیں۔ مناسب غذا ایک طرف تو چست درست رکھتی ہے دوسری طرف بیماریوں سے بچاتی ہے۔ امتحانات کے قریب یا دورانِ امتحان اگر خدانخواستہ بچہ بیمار پڑگیا تو سال بھر کی محنت سرمایہ اور بچہ کی زندگی کا ایک قیمتی سال ضائع ہوجائے گا۔ خبردار ان چیزوں کا دھیان رکھئے۔
ملک کی ممتاز یونیورسٹی جامعہ ہمدرد دہلی کے وائس چانسلر سراج حسین صاحب اچانک شعبہ جات کے معائینہ کے لیے نکلے۔ ایک جگہ انھوں نے ایک سکھ خاتون کو اپنی سیٹ پر نہیں پایا معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ چھٹی وغیرہ کی بھی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اگلے روز وائس چانسلر نے طلب کیا اور غیر حاضر رہنے پر جواب مانگا۔ اس خاتون نے بتایا کہ میرے بچے کا جو پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے، ریاضی کا امتحان تھا اور میں رات میں اس وقت تک اس کے ساتھ جاگتی رہی جب تک وہ پڑھتا رہا۔ ’’آخر آپ کر کیا رہی تھیں اس کے ساتھ‘‘ وی سی نے پوچھا۔ اس خاتون نے بتایا کہ اس کے لیے چائے اور کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیزیں تیار کرکے لاتی تھی تاکہ اسے تنہائی کا احساس نہ ہو اور وہ جلد نہ سوجائے۔ اور کبھی کبھی اگر وہ کوئی بات معلوم کرتا تو اسے بتا بھی دیتی تھی۔ وائس چانسلر صاحب اس جواب سے بہت متاثر ہوئے اور کئی جگہ انھوں نے اسے بیان کیا۔
واقعی یہ زندہ قوموں کی علامت ہے اور سنجیدہ والدین کی نشانی بھی۔ ہمیں بھی اس واقعہ سے سبق لینا چاہیے اور اپنے نونہالوں کے مستقبل کو جن سے ملت کا مستقبل بھی جڑا ہے، روشن بنانے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔