امتِ محمدیؐ کا مشن منصب، تقاضے اور مستقبل

علامہ یوسف قرضاوی ترجمہ: ارشاد الرحمن

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین اسلام کے ذریعہ عزت و تکریم بخشی ہے۔ یہ دین اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا بیان ہے:

’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔‘‘ (المائدۃ:۳)

اس نعمت کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی کہ اپنے بہترین رسول حضرت محمد ﷺ کو اس دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، اپنی بہترین کتاب قرآن مجید کو اس دین کی کتاب کے طور پر نازل فرمایا اور ہمیں یہ چیزیں عطا کرکے امتِ وسط بنایا تاکہ ہم انسانیت کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔

جنابِ محمد مصطفی ﷺ نے جس طرح انسانیت کے لیے کتابِ الٰہی قرآنِ مجید اور عالم گیر رسالتِ رحمت چھوڑی ہے، ان کے ساتھ انسانیت کو امت بھی وراثت میں دی ہے۔ وہ امت جو اس رسالت پر ایمان، اس کے احکام کے نفاذ اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔

یہ امت اپنے بہترین گروہ سے شروع ہوئی، بلکہ انسانی تاریخ کے بہترین گروہ سے اس کی ابتدا ہوئی، یعنی اصحابِ رسولؐ کا گروہ! یہ قرآنی اور زبان گروہ جس نے حضرت محمدؐ کے مدرسۂ نبوت میں تربیت حاصل کی۔ انھیں آپؐ کے ہاتھ سے سندِ فضیلت عطا ہوئی۔ یہی وہ لوگ ہیں، جن کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’لہٰذا جو لوگ اس (نبی) aپر ایمان لائے اور اس کی حمایت و نصرت کی اور اس روشنی کی پیروی اختیار کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (الاعراف: ۱۵۷)

یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سچے مومن کے نام سے یاد کیا ہے۔ فرمایا:

’’جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔‘‘ (الانفال: ۷۴)

اس گروہ کے اولین لوگوں کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وہ مہاجر اور انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو راست با زی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

نبی کریم ﷺ نے اسی گروہ کے بارے میں فرمایا ہے، بہترین لوگ میرے عہد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

امتِ مسلمہ کی خصوصیات

صحابہ کرامؓ امتِ مسلمہ کا پہلا گروہ ہیں۔ جس طرح ان کی خوبیاں، فضائل اور رفعتِ مقام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں کیا ہے اسی طرح مجموعی طور پر امتِ مسلمہ کے چار اوصاف قرآن مجید نے بیان کیے ہیں۔

٭ربانی امت: یہ ایسی امت ہے جس کی تشکیل خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ لہٰذا یہ ربانی امت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کذلک جعلنکم امۃ وسطاً۔ (البقرۃ: ۱۴۳) ’’گویا یہ امت ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر تیار کی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا: ’’کنتم خیرامۃ اخرجت للناس۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اتارا گیا ہے۔‘‘گویا یہ از خود امت نہیں بن گئی، بلکہ اسے امت بنایا گیا ہے اور یہ صرف اپنے لیے نہیں بنی بلکہ انسانیت کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ انسانوں کو راہِ راست کی طرف لانے کے لیے، انسانوں کو روشنی بہم پہنچانے کے لیے، انسانوں کو نفع پہنچانے کے لیے بنائی گئی ہے اور اسے بنانے والا اللہ ہے۔

٭امتِ وسط:یہ امت وسط ہے، لہٰذا یہ متوازن امت ہے۔ یہ یہودیوں کی طرح مادی پہلو سے غلو (مبالغے) کا شکار ہے نہ نصاریٰ کی طرح روحانی پہلو سے غلو میں مبتلا ہے۔ یہود کی طرح یہ حرام میں اسراف کی مرتکب نہیں اور نصاریٰ کی طرح اس میں تنگی کا شکار نہیں۔ یہ فرد کے اوپر کمیونسٹوں جیسی پابندیاں نہیں عائد کرتی اور نہ سرمایہ داری کی طرح اسے پیس کر رکھ دیتی ہے۔

یہ ایک جامع توازن کی حامل امت ہے، جس نے روحانیت و مادیت اور دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ اس نے زمین کو آسمان سے ملایا ہے، روح اور مادے کا امتزاج پیدا کیا ہے، مخلوق کو خالق سے جوڑ دیا ہے، حقوق اور فرائض کے درمیان توازن پیدا کیا ہے۔ اس نے دو روشنیوں، وحی اور عقل کو یکجا کیا ہے۔ گویا یہ نورٌ علی نور ہے۔ اس امت نے اعتدال و توازن کی تعلیم انسانیت کو دی ہے۔ عبادت اور معاملاتِ زندگی میں اعتدال قائم کرنے کی غرض سے فرمایا گیا کہ عبادت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: تم پر تمہارے بدن کا بھی حق ہے، تمہارے دل کا بھی حق ہے، تمہارے اہل کا بھی حق ہے، تم پر میل ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی حق ہے اور تمہارے رب کا بھی حق ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو۔(بخاری،مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے ایک مثالی مسلمان کے لیے فرمایا: ایک وقت تمہارے دل کے لیے ہونا چاہیے اور ایک تمہارے رب کے لیے (ساعۃ وساعۃ)۔ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا: کیا اونٹنی کا گھٹنا باندھنا چاہیے، یا اللہ پر توکل کرکے رہنے دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو۔ (ترمذی) صحابہ کرامؓ فرمایا کرتے تھے: اپنی دنیا کے لیے اس طرح کام کرو گویا تمھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا تمھیں کل مرجانا ہے، یعنی دنیا کی نسبت آخرت کے کاموں کو زیادہ تیزی سے انجام دیا جائے۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر قیامت برپا ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک پورا ہو تو اگر وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اس پودے کو لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے۔ (احمد) غور کیا جائے کہ قیامت برپا ہونے کے بعد تو کوئی بھی نہیں رہے گا جو اس پودے کا پھل کھائے، لہٰذا اسے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ اس لیے کہ مسلمان زندگی کی آخری سانس تک کام کرتا، پیداوار بڑھاتا اور دوسروں کو کچھ عطا کرتا ہے، کیونکہ وہ نیک کام کے ذریعے ہی اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔

٭خیرامت: یہ امت’خیر‘ ہونے کے اعتبار سے دوسری امتوں سے ممتاز ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کنتم خیرامۃ اخرجت للناس (آل عمران:۱۱۰) ’’وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اتار لیا گیا ہے۔‘‘ لیکن اس کا یہ ’خیر‘ ہونا نسلی طور پر نہیں ہے، جیسا کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نسلی طور پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم ہے۔ نہیں بلکہ امت مسلمہ اپنے اوصاف کی بنا پر ’خیر‘ ہے اور جو بھی ان اوصاف کو اختیار کرلے وہ خیر کا متحمل ہوسکتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم اور کسی بھی رنگ سے ہو۔ ’خیر‘ ہونے کے اوصاف یہ ہیں ’’تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰)

اس بنا پر امت مسلمہ ممتاز ٹھیرتی ہے کہ یہ دعوت کی حامل امت ہے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والی امت ہے، دنیا کی اصلاح کی علم بردار امت ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔

٭ امتِ واحدہ: یہ امت واحدہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: ’’یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، لہٰذا تم میری عبادت کرو۔‘’ (الانبیاء: ۹۲) مزید ارشاد فرمایا: ’’اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، لہٰذا مجھی سے ڈرو۔‘‘ (المومنون:۵۲) گویا یہ دونوں آیتیں اشارہ کرتی ہیں کہ اتحاد امت کے بغیر نہ عبادت پوری ہوتی ہے، نہ تقویٰ مکمل ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ اسی طرح مومنوں کے ایک ہونے سے قائم ہوتی ہے جس طرح کلمے کے ایک ہونے سے وجود پاتی ہے۔ گویا جب معبودِ پاک ایک ہے تو عبادت گزاروں کو بھی ایک ہونا چاہیے، متفرق و منتشر نہیں۔

امتِ محمدیہؐ اپنے عقیدے و عبادت، قبلے و شریعت، اقدار و روایات، اسلوب و منہج اور مقصد میں مشترک ہونے کی بنا پر امتِ واحدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۳) پھر فرمایا: ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنھوں نے یہ روش اختیار کی، وہ سخت سزا پائیں گے۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۵) تیسرے مقام پر فرمایا: ’’اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘ (انفال:۴۶)

اسلام نے اس وحدت کو تین اساسی احکام میں مجسم کردیا ہے: (۱) وحدتِ مرجع (۲) وحدتِ دار (۳) وحدتِ قیادت۔

وحدتِ مرجع( شریعت)

وحدتِ مرجع کا مطلع یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں موجود امت اسلامیہ پر فرض ہے کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کو اپنا قانون اور ضابطہ مانیں۔ وہ شریعت جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دنیوی اور اخروی مفادات کے حصول کے لیے مقرر کیا ہے۔ اسلامی شریعت مخلوق کی دینی، مالی، نسلی، جانی اور عقلی ضروریات کی محافظ ہے۔ یہ مشکلات کو دور کرنے اور آسانیاں پیدا کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس نے حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ یہ انسانوں کے درمیان رحمت و عدل قائم کرنے جیسی بنیاد رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’اے نبی! ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے، لہٰذا تم اس پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔‘‘ (جاثیہ:۱۸)

یہ شریعت مسلمانوں کو متحد کرتی ہے انھیں منتشر نہیں کرتی۔ ان کے درمیان قرب پیدا کرتی ہے دوری نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کردیں گے۔‘‘ (الانعام:۱۵۳)

وحدتِ دار (دارالاسلام)

وہ مختلف ممالک جہاں کی غالب اکثریت مسلمان ہو، اسلام ان علاقوں کو داراسلام قرار دیتا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام نے لفظ ’دارالاسلام‘ استعمال کیا ہے۔ ’دیارالاسلام‘ نہیں۔ اگرچہ یہ ممالک مختلف براعظموں میں واقع ہوں اسلام انھیں ’دارِ واحد‘ قرار دیتا ہے۔ ان کے باشندے اپنے ہر جز کا دفاع مکمل یک جہتی کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہلِ علاقہ اپنے اوپر حملہ آور دشمن کا راستہ نہیں روک سکتے تو ان کے قریب ترین ہمسایہ علاقوں، پھر ان علاقوں سے متصل علاقوں کے مسلمان باشندوں پر فرض ہے کہ وہ دارالاسلام کے ایک جز پر حملہ آور دشمن کا راستہ روکیں، اسے دشمن کے تسلط سے آزاد کرائیں اور مسلم جمعیت کا حصہ بنائیں۔ یہ جائز نہیں ہے کہ ارضِ اسلام کا کوئی حصہ کسی جگہ ایسا رہے جس کی حفاظت کرنے والے محافظ نہ ہوں، یا اسے آزاد کرانے والے لشکر موجود نہ ہوں۔

وحدتِ قیادت (خلافتِ اسلامیہ)

وحدتِ قیادت سے مراد سیاسی قیادت کی وحدت ہے، جو خلافت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ علما نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ امورِ دنیا انجام دینے اور دین کو قائم کرنے کے لیے تدبیر کرنا، نیابتِ رسولؐ ہے۔ خلافت محض شریعتِ اسلامیہ کے ذریعے حکمرانی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ شریعتِ اسلامیہ کے ذریعے امتِ مسلمہ کی حکمرانی کا نام ہے۔ کسی چھوٹے یا بڑے خطے میں قائم اسلامی حکومت خلافتِ اسلامیہ کے مترادف نہ ہوگی۔

امتِ اسلامیہ ۱۳ صدیاں امتِ واحدہ رہی ہے جس کی ایک حکومت تھی۔ قیادت بھی ایک تھی جو خلافتِ راشدہ، امویہ، عباسیہ، یا عثمانیہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ سیاسی قیادت اس نظام کو قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ اس میں کوتاہی جائز نہیں تھی۔ بالآخر اس تاریخی قلعے کو گرادیا گیا اور وحدتِ امت کو پارہ پارہ کردیا گیا لیکن سیاسی قیادت کی اس وحدت کے ضائع ہوجانے کے باوجود امت قائم اور موجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ یہ ایک دینی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ حج کے موسم میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرلے، یا کسی ایسے موقع پر مسلمانوں کے جذبات کو دیکھے، جب ان کے مقدسات پر کوئی کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈنمارک میں بنائے گئے خاکوں کا مسئلہ ابھی کل کی بات ہے۔ اسی طرح ہالینڈ میں قرآن پر بنائی گئی فلم، سوئٹزرلینڈ میں میناروں کی تعمیر کو روکنے کے لیے قرار داد کی منظوری، یا فلسطین میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم جیسے واقعات پر امت کے جذبات کو دیکھا جاسکتا ہے۔

۴۰؍برس قبل یہودیوں نے مسجدِ اقصیٰ کے منبر پر جارحیت کی تو امتِ اسلامیہ زمین کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک متحرک ہوگئی۔ اور انہدامِ خلافت کے بعد پہلی مرتبہ اس نے اپنی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کی واگزاری کے لیے، چوٹی کی قیادت کی صورت میں جمع ہوں۔ اس کے نتیجے میں ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ قائم ہوئی جو مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ امتِ اسلامیہ کی نمائندگی کرسکے۔ یہ تنظیم کمزور اور اس کا دائرۂ اثر محدود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم مؤثر ہو اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کے سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس وقت حالات بہت گمبھیر ہیں، امت عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور سوڈان میں باہمی قتل و غارت سے دوچار ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ امت کی قیادت اور اس کے حکمران اللہ، رسول اور مومنوں کی خاطر ٹھوس موقف اپنائیں، اپنے اختلافات کو ترک کردیں، اپنے کردار کی اصلاح کریں اور حجۃ الوداع میں کی گئی رسول کریم ﷺ کی نصیحت پر کان دھریں تاکہ ’’میرے بعد کافرانہ کام نہ کرنے لگ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔‘‘ (بخاری، مسلم)

حکمرانوں میں سے صاحبِ وسائل اور اہلِ بصیرت آگے بڑھیں، امت کے دفاع کی غرض سے باہمی تعاون کا ماحول بیدار کریں، امت کی مشکلات دور کرنے کی کوشش کریں، اس کے شیرازے کو مجتمع کریں اور اس کے تشخص کو بحال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

(جاری)

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146