رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ’’کتب خانہ‘‘ میں کیرلہ کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ یہ واقعہ دلچسپ بھی ہے اور قرآنِ کریم اور دینِ اسلام سے مسلمانوں کی غفلت کا ایک عکس بھی پیش کرتا ہے۔ قصے کی تفصیل یوں ہے:
’’فاروقی صاحب (اے جی فاروقی) کا بیان ہے کہ وہ دیہاتی علاقے سے گزر رہے تھے تو راستے میں ایک پرانا قبرستان ملا، جو بہت ہی خوبصورت تھا۔ قبریں اور ان کے کتبے اتنے عمدہ تھے کہ دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اتر کر انھوں نے دیکھنا شروع کریا تو دس بجے صبح سے شام پانچ بجے تک اسی کے مختلف کتبوں کو نقل کرتے رہے۔ پانچ بجے کے قریب کچھ گاؤں والے وہاں سے گزرے تو انھوں نے پوچھا کہ یہ قبرستان کس کا ہے؟ کوئی اس کے وارث ہیں یا نہیں؟ تو گاؤں والوں نے کہا کہ وہ جو جھونپڑیاں نظر آرہی ہیں، وہ لوگ آکر کبھی چراغ جلادیتے ہیں۔ وہ مچھیروں کی بستی تھی۔ جب فاروقی صاحب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں تقریباً سبھی مسلمان تھے، جو بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ ان لوگوں نے بتایا کہ ہاں صاحب ہمارے باپ دادا کی قبریں ہیں۔ اچانک ان کو چھینکے پر کچھ کتابیں لٹکی ہوئی نظر آئیں۔ فاروقی صاحب نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو گاؤں والوں نے کہا کہ صاحب! خدا کی کتابیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں دیکھوں؟ تو ان کا بیان ہے کہ وہ فلسفہ، منطق، طب اور ریاضی پر عربی کی بہت قدیم کتابیں تھیں۔ تو انھوں نے کہا کہ تم ان کو قرآن سمجھ رہے ہو۔ یہ قرآن شریف نہیں ہے بلکہ حکمت کی اور حساب وغیرہ کی کتابیں ہیں۔ ان کو بیچ دو۔ تم کیوں رکھے ہوئے ہو؟ اس پر گاؤں والوں نے کہا کہ واہ صاحب واہ۔ ہم باپ دادا کی ہڈیاں بیچ دیں…؟‘‘
کیرلہ ایک ساحلی علاقہ ہے۔ ہندوستان میں مسلمان سب سے پہلے اسی راستے سے آئے تھے اور یہ سب لوگ عرب تھے۔ ظاہر سی بات ہے اپنے ساتھ وہ عربی زبان میں لکھی ہوئی کتابیں بھی لائے ہوں گے۔ غالباً ان کتابوں کی باقیات کو ہی انھوں نے قرآن کریم سمجھ لیا اور ان کتابوں کو پورا احترام دیتے ہوئے اور ان کے ’’تقدس‘‘ کے پیش نظر ان کو سب سے اونچے مقام پر رکھ دیا۔ مسلم امت کی یہ صورت حال صرف کیرلہ کے مچھیروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ برصغیر کے بیشتر مقامات پر جہاں مسلمان آباد ہیں آپ کو اس طرح کے عجیب و غریب واقعات دیکھنے اور سننے کو ملیں گے۔ آج بھی گھر کے کسی بوڑھے شخص کے سامنے آپ کوئی ضخیم کتاب لے کر جائیں وہ اسے پہلی نظر میں قرآن کریم قرار دیں گے۔ اگر وہ ضخیم ہونے کے ساتھ ساتھ عربی میں ہے تو پھر قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب ہو ہی نہیں سکتی ہے۔
امت وسط سے ملقب اس امت کے افراد کی غفلت اور دین سے غیر شعوری دوری کا یہی ایک نمونہ نہیں ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں مختلف رنگ میں ادھر ادھر ملیں گی۔ امت کے عام طبقے کا اگر سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس امت کے اندر ایک اور امت موجود ہے جس کی دینی فکر اور مذہبی طرز عمل بڑاعجیب ہے۔ یہ طبقہ نہ تو قرآن سے خود قریب ہونا چاہتا ہے اور نہ ہی دوسروں کو قریب کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف ادیب ممتاز مفتی نے ایک جگہ لکھا کہ میں اپنی بیوی کی وجہ سے کبھی قرآن کو ہاتھ نہیں لگا پایا کیوںکہ کبھی اگر میرا جی کرتا تھا کہ میں قرآن کو پڑھوں تو میری بیوی مجھے قرآن کو ہاتھ لگانے سے یہ کہہ کر روک دیتی تھی کہ تم کمیونسٹ ہو، تم کتاب کی بے حرمتی کروگے اور اس طرح قرآن کو جزدان میں لپیٹ کر گھر کے سب سے اونچے طاق پر رکھ دیتی تھی۔ ماہر القادریؒ نے ’’قرآن کی فریاد‘‘ نظم میں قرآن کو طاقو ںمیں سجانے کا ذکر یوں ہی نہیں کیا تھا۔
ہمارے پلاٹ میں ایک بزرگ رہتے تھے جو بالکل ان پڑھ تھے۔ محنت مزدوری ان کا پیشہ تھا۔ وہ دیہات کے رہنے والے تھے۔ ان کا حال یہ تھا کہ نماز کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا۔ کوئی سورہ بھی انھیں یاد نہیں تھی۔ لیکن بعض معاملات میں اتنے سخت تھے کہ ان سے جان چھڑانا مشکل ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے چارپائی جنوب شمال کے رخ سے بچھائی تو وہ زبردست ردعمل ظاہر کرتے تھے کہ اس طرح چارپائی نہیں بچھانی چاہیے۔ ان کے نزدیک اس طرح چارپائی بچھانا دین و ایمان اور قرآن و حدیث ہر ایک کے خلاف تھا۔ اس کے برعکس ان کو ایک وقت کی نماز کے لیے تیار کرنا بہت ہی مشکل کام تھا۔ گویا دین میں انھوں نے اس کی اتنی اہمیت بھی نہیں سمجھی جتنی چارپائی کے رخ کی ہے۔
اے خاصہ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے