قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:’’تم ایک بہترین امت ہو جو سب انسانوں کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔‘‘ ( آل عمران 110)
امت مسلمہ جس وقت وجود میں لائی جارہی تھی اس کے لانے والے نے اس کے بارے میں یہی فرمایا تھا – یہ امت مسلمہ دنیا کی عام جماعتوں، قوموں اور گروہوں کی طرح زندگی کے اسٹیج پر معمول کے مطابق یوں ہی نہیں نکلی ہے بلکہ ایک خاص اہتمام سے نکال کر لائی گئی ہے- اس کے لائے جانے کے پیچھے ایک خاص مقصد کام کررہا ہے۔ دنیا کے دوسرے تمام گروہوں کے اور اس کے درمیان ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ انہی میں سے ایک نہیں ہے بلکہ ان سب سے الگ اور ممتاز ہے اور ان کی کسی خاص ضرورت کے لئے اسے وجود بخشا گیا اور اہتمام کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور اب وہ ہمیشہ کے لئے اسی کی بجا آوری پر مامور ہے-
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس امت کو صریح لفظوں میں’’مبعوث‘‘ یعنی بھیجی اور مامور کی ہوئی امت قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً ’’تم نرمی سے کام لینے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگیوں میں ڈالنے والے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔‘‘ (بخاری)
اللہ اور رسول کے ان ارشادات سے صاف واضح ہوتاہے کہ دوسری تمام امتیں اور قومیں ایک سطح پر ہیں اور امت مسلمہ ایک دوسری سطح پر ہے۔
وہ ایک جداگانہ نوعیت کی مالک اور ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔جب اس کی نوعیت اور حیثیت دوسری تمام قوموں سے مختلف اور ممتاز ہے تو خودیہ بات لازم آتی ہے کہ وہ اپنے طرز فکرو عمل میں، اپنی دلچسپیوں میں، اپنی قدروں میں، اپنی پسند و ناپسند کے معیاروں میں، اپنے مزاج میں، اپنے مقصد و نصب العین میں، غرض ہر ایک پہلو سے وہ اپنا الگ اور مخصوص مقام رکھتی ہے اور اس کے کسی معاملے کو دوسری کسی قوم یا جماعت پر ہرگز قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
اس امت کے وجود کا خاص مقصد کیا ہے:
’’تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ ( آل عمران 110)
یعنی وہ خاص کام جس کے لئے مسلمانوں کا یہ گروہ برپا کیا گیا ہے، یہ ہے کہ وہ پوری نوع انسانی کو غلط فکروں اور غلط کاریوں سے روک کر صحیح راہ پر لائے ۔
اس خاص کام یا خاص مقصد کے بیان کے لئے اللہ نے دو اور تعبیریں اختیار فرمائی ہیں ۔ ان میں پہلی تعبیر ’’شہادت حق‘‘کی ہے ۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے :
’’اور اسی طرح ہم نے (اے مسلمانو !) تمھیں ایک معتدل امت بنایا ہے۔ تاکہ تم دوسرے تمام انسانوں کے لئے گواہ بنو۔‘‘ ( البقرہ: 143)
اب گواہی اور شہادت کس بات کی دینی ہے وہ واضح ہے۔ اور وہ ہے توحید کی گواہی اور مشن ، انسانوں کو برائیوں سے روکنا اور نیکیوں کے لیے آمادہ کرنا۔ اور پھر یہی بات ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ’’اور پیغمبر تمہارے لئے گواہ ہے۔‘‘
اب پیغمبرؐ نے اپنی پوری زندگی کیا کیا یہ تاریخ اور سیرت سے واضح ہے۔ آپؐ نے تمام عمر لوگوں کو توحید کی دعوت دی، نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا۔ دراصل یہی وہ مقصد اور مشن ہے جس کے لیے یہ امت برپا کی گئی اور یہی اس کا مقصد وجود ہے۔
دوسری تعبیرجو ہمیں قرآن سے ملتی ہے وہ ہے ’’ان اقیموا الدین‘‘ یعنی دین کو قائم کرنا۔
’’(مسلمانو) اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ لسلام کو دیا تھا اور جس کی ( اے نبیؐ! ) ہم نےتم پر وحی کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو موسی علیہ السلام کو اور عیسی علیہ السلام کو دیا تھا کہ قائم کرو اس دین کو ۔‘‘( الشوریٰ: 13)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ’’ انھیں اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اور اپنے دین کی اقامت کے لئے پسند فرمایا تھا۔‘‘ ( مشکوٰۃ)
یہ حدیث بھی اس امر کو ایک امر واقعہ بتاتی ہے کہ اس امت کی غایت وجود اللہ کے دین کی اقامت ہے۔
زیادہ ہمہ گیری یوں ہے کہ متعلقہ آیت میں صرف اتنا ہی نہیں فرمایا گیا ہے کہ فلاں شے مسلمانوں کا فریضہ حیات ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ یہی فریضہ ہر نبی کا اور اس کے ساتھیوں کا رہا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں گویا بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے اور اس کی بندگی کا عہد کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس دین کو لوگوں کی زندگیوں میں جاری و نافذ کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/5494/
https://hijabislami.in/7239/