امراضِ دندان اورماں کا دودھ

ملیحہ اقدس، حیدرآباد

زندہ قومیں نہایت شائستگی، دانش اور حکمت کے ساتھ نوزائیدہ بچوں کی صحت کو بڑی اہمیت دیتی ہیں کیونکہ یہ مستقبل کے معمار ہیں۔ ان کی شخصیت اور صحت کو جدید سائنس کے اصولوں کے مطابق سنوارنا ضروری ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کے پاس بچہ کی صحت اور نگہداشت کے بارے میں کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہے۔
ہمارے ہاں مشکل یہ ہے کہ عوام کی اکثریت میں تعلیم ہے اور نہ شعور۔ رسم و رواج کے مطابق نئے آنے والے بچے کو ماں کے دودھ سے آشنا کرنے سے پہلے دم، گھٹی، شہد وغیرہ دینا لازمی سمجھا جاتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ اس طرح نئے بچے کا پیٹ صاف ہوجاتا ہے اور ماں کا پہلا دودھ بھاری ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کرنے سے نوزائیدہ بچہ اسہال کا شکار ہوتا ہے اور انفیکشن ہونے کی بدولت بعض اوقات ہمیشہ کے لیے ماں کے دودھ سے محروم ہوجاتا ہے اور اکثر اوقات وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 10.6 ملین نوزائیدہ بچے ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اگر ان بچوں کو مائیں پیدائش کے فوراً بعد اپنا دودھ پلانا شروع کردیں تو ان میں 13%بچے زندہ رہ سکتے ہیں۔ اگر بچوں کی شروع میں حفاظت نہ کی جائے، والدہ اپنا دودھ نہ پلائیں، بچہ کو اپنی چھاتی کے ساتھ نہ چمٹائیں اس کے بجائے اوپر کا دودھ گائے، بھینس، بکری کا یا پھر کسی کمپنی کا دودھ پلائیں تو بچے اسہال، نمونیہ، انفلوئنزا، دماغی بخار، پیشاب کے راستوں کا انفیکشن، پیٹ کا درد اور ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ماں کے دودھ میں اللہ تعالیٰ نے اینٹی باڈیز، معدنیات اور مدافعت کے وہ اجزاء رکھے ہیں جس سے بچے میں بیماری کے خلاف قدرتی مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس قدرتی مزاحمت سے بچہ بیماری کا شکار نہیں ہوتا اور اس کی زندگی محفوظ ہوجاتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ جو بچے پیدائش کے بعد ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کا آئی کیو ان بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے جو اوپر والے دودھ پر پلتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے دل کے امراض اور بلند فشار خون کا شکار بھی کم ہوتے ہیں۔ قدرت کی منشا ہے کہ ماں اور بچہ صحت مند رہے اور پیدائش میں وقفہ بھی ہو تو قرآن پاک میں دودھ چھڑانے کے بارے میں حکم سورہ لقمان میں آیا ہے کہ مائیں دو سال تک اپنے بچوں کو دودھ پلائیں۔ بچہ کو دودھ دو سال تک پلانے سے زچگی میں قدرتی طور پر تاخیر ہوجاتی ہے اور بچوں میں وقفہ ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹروں نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ جو مائیں بچوں کواپنا دودھ پلاتی ہیں وہ چھاتی اور بچہ دانی کے سرطان سے محفوظ رہتی ہیں، یعنی ماں کی چھاتی کا دودھ بچے کو بے شمار امراض سے بچاتا ہے، جن میں منہ کے امراض، دانتوں کو کیڑا لگنا اور دانتوں کا ٹیڑھا ہونا بھی شامل ہے، اس میں شک نہیں کہ نوزائیدہ بچے کو ماں کا دودھ پلانا مستقبل میں اس کے ٹیڑھے دانتوں سے بچاؤ کا قدرتی طریقہ ہے۔
ماں کا دودھ بلاشبہ نوزائیدہ بچے کے لیے بہت بڑی نعمت ہے بلکہ یہ بیشمار بیماریوں کے خلاف قدرتی مدافعت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس میں قدرت نے خوراک کے تمام ضروری اجزاء رکھے ہیں جو بچے کی صحت، نشونما کے لیے ضروری ہیں۔ یہ بچے کی صحت اور نشوونما کے لیے نہایت موزوں اور بغیر کسی ملاوٹ کے مکمل خوراک ہے۔ اس میں ایسے خوردبینی اجزاء بھی موجود ہوتے ہیں جو نوزائیدہ بچے کی دماغی ساختوں کی نشوونما اور اس کی ذہانت کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ گویا بچے کی دماغی ذہانت ماں کے قدرتی دودھ میں مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے میں ہی ماں کی چھاتی کا دودھ پلانا وہ واحد طریقہ خوراک ہے جو پہلے چھ ماں تک جاری رہنا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت نے یہ اصول بھی وضع کیا ہے کہ اگر نوزائیدہ بچے کو اوپر والی خوراک یا دیگر دودھ دیا جائے تو اس کی نشوونما اور قوت مدافعت کم ہوگی اور وہ مختلف جرثومی امراض کا شکار ہوسکتا ہے۔
ماں کی چھاتی کا دودھ خداوند کریم نے نہایت محفوظ طریقے سے بنایا ہے۔ اس کو خود جراثیم سے پاک کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض علاقوں میں رواج ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد گھی یا شہد کی گھٹی بچہ کے منہ میں ڈالی جاتی ہے۔ بچے کا معدہ یہ اشیاء ہضم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ شروع میں ہی اسہال اور بخار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پھر بچہ ماں کے دودھ کو چوسنے کی آرزو بھی نہیں کرپاتا۔
ترقی پذیر ممالک میں دس سے پچاس فیصد بچے صرف اس وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں کہ انھیں پیدائش کے فوراً بعد ماں کے دودھ کے بجائے مصنوعی گھٹی دی جاتیہے۔ بعض علاقوں میں پرانے کپڑوں کو گھی میں بھگو کر گھٹی دی جاتی ہے۔
پاکستان میں ایک سروے رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ ۲۹ فیصد نوزائیدہ بچوں کو مائیں پیدائش کے فوراً ایک گھنٹے بعد دودھ پلاتی ہیں۔ تاہم گھٹی والے ۷۰ فیصد بچے بعد میں ماں کے دودھ پر آجاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے مزید جائزہ لیا کہ تعلیمی رجحان کی وجہ سے چند مائیں آئندہ دو ماہ میں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ کچھ خواتین خود بھی اپنی صحت، حسن کی خاطر بچوں کو اپنا دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہیں اور اس وجہ سے بھی نوزائیدہ بچوں کی موت زیادہ ہوتی ہیں۔
دیہاتوں میں عموماً مائیں گھر کی خوراک والی روٹی، قدرتی ساگ اور قدرتی غذائیں کھاتی ہیں۔ اسی وجہ سے دیہات کے زیادہ بچے ماؤں کے دودھ سے پلتے ہیں اور ان کے جبڑوں کی آرچ یو شکل کی ہوتی ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے بچے کے اوپر والے اور نچلے ہونٹ کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے اور اس کے دونوں ہونٹ بخوبی بڑھتے ہیں۔ جب بچے کے دانت جبڑے کی ہڈی میں پیدا ہوتے ہیں تو دانت مضبوط وتوانا قوت والے ہونٹوں سے باہر نہیں نکلتے اور چہرے کے حسن کو خراب نہیں کرتے۔
جو بچے ماں کے دودھ کے سوا بوتل یا ڈبے کا دودھ پیتے ہیں، اس عمل کے ذریعے نچلے ہونٹ کے پٹھے توانا ہوتے ہیں، مگر اوپر والے ہونٹ کے پٹھے کم بڑھتے ہیں یوں اوپروالا ہونٹ چھوٹا ہوجاتا ہے۔
لہٰذا چھ سال کی عمر کے بعد جب دودھ والے دانت نکل جاتے ہیں اور مستقل دانت آتے ہیں تو بچے کے دانت باہر کو نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوپر والے جبڑے کی ہڈی یا تالو کی شکل یو شکل کی بجائے وی شکل کی ہوجاتی ہے اور بچے کے دانت باہر نکلے نظر آتے ہیں۔ اس طرح نچلے جبڑے کی ساخت یو شکل کی بجائے وی شکل کی ہوجاتی ہے۔ لہٰذا بچے کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے اور علاج نہ ہونے کی صورت میں نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
باہر کو نکلے ہوئے دانتوں کا علاج خاصا طویل ہے اور دو سے تین سال تک کروانا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ طور پر علاج کرانا تو بڑا مہنگا ہے۔ لہٰذا کوشش کی جائے کہ مائیں اپنے بچے کو خود دودھ پلائیں۔ ایسی ماؤں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج تک کوئی کمپنی ماں کے دودھ جیسا فارمولا تیار نہیں کرسکی اور نہ ہی کوئی نپل ماں نپل کے جیسا تیار ہوا ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ بوتل کے دودھ سے نقصان ہی نقصان ہے۔
دودھ پلانے والی ماؤں کو اچھی خوراک کھانی چاہیے خصوصاً دودھ اور تازہ سبزیاں تاکہ بچے کو دودھ اچھی مقدار میں میسر آسکے۔ ماں کا دودھ زود ہضم وٹامن سے بھر پور اور جسمانی طور پر بڑھنے میں مددگار ہوتا ہے۔بعض مائیں صرف اس لیے بچے کا دودھ چھڑا دیتی ہیں کہ بچے کو دودھ مقدار میں کم ملتا ہے۔ اس طرح وہ اسے اوپر کا دودھ شروع کردیتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچے کو اوپر والی خوراک بھی دینی چاہیے مگر مناسب مقدار اور مناسب وقت پر۔
اس وقت عالمی ماہرین اور اقوامِ متحدہ کے اصولوں کے مطابق دنیا میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس آبادی میں اور کچھ غریب شہری آبادی میں ماں کی شرح اموات بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ دور دراز علاقوں میں نہ تو تربیت یافتہ دائیاں موجود ہیں نہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور نہ ہی لیڈی ڈاکٹرز۔ ان تمام خرابیوں پر قابو پانا اسی طرح ممکن ہے کہ ان سفارشات پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں