امریکہ اور اسلام

شمشاد حسین فلاحی

گزشتہ دنوں امریکہ میں اعلیٰ فوجی افسروں کی تربیت کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی ذہن سازی کرنے کے لیے پڑھائے جانے والے نصاب کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس نصاب کے ذریعہ جو ایک اعلی فوجی تربیت کے ادارے جوائنٹ اسٹاف کالج میں پڑھایا جارہا تھا امریکی محکمۂ دفاع نے براہِ راست اسلام کو نشانہ بنایا تھا اور ان کو یہ باور کرایا جارہا تھا کہ امریکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑرہا ہے اور یہ کہ امریکہ کا اصل دشمن اسلام ہے۔ اس تربیتی کورس کے ذریعہ اعلیٰ فوجی افسران کو ذہنی طور پر اس بات کے لیے بھی تیار کرنے کی کوشش ہورہی تھی کہ جس طرح امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹم بم کے ذریعہ تباہ کردیا تھا اسی طرح اہلِ اسلام کے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کو بھی تباہ کرنا پڑسکتا ہے۔
امریکہ کی اسلام اور مسلم دشمنی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، اس لیے اس بات پر کوئی خاص حیرت نہیں ہوتی کہ امریکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کس کس طرح کی سیاسی، سفارتی اور فوجی سازشوں میں مصروف ہے۔ اس میں جو بات کسی قدر حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کی کوشش کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب امریکی وزیرِ خارجہ محترمہ ہلیری کلنٹن نے پاکسان کے دورے کے درمیان ’امریکہ اسلام اور مسلمان‘ کے تعلق سے یہ وضاحت کرتے نہ تھکیں کہ انہیں اس بات پر افسوس ہے کہ کچھ لوگ امریکہ کو اسلام اور مسلم مخالف کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن کا یہ اظہارِ افسوس بھی کوئی نئی اور حیرت ناک بات نہیں کیونکہ امریکہ گزشتہ دس سالوں سے مسلسل عالمی برادری خصوصاً مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے کہ اس کی لڑائی اسلام یا متعدل قسم کے مسلمانوں سے نہیں بلکہ اس کی لرائی تو شدت پسند، غیرروادارانہ اور دہشت گرد مسلمانوں سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسلام کو مذہب بھی دہشت گردی کا مانتے ہیں۔ ایسے میں ان کی ان یقین دہانیوں سے کوئی خاص فرق اس لیے نہیں پڑتا کہ عالمِ اسلام کے خلاف جاری اس کی مسلسل ریشہ دوانیاں اور فوجی کارروائیاں اس کے دعوے کے برعکس دلیل بن کر سامنے آتی ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران امریکہ نے اپنی’’دہشت گردی مخالف جنگ‘‘ کے پس پردہ جو اسلام اور مسلم مخالف جنگ چھیڑی ہے اس کو جائز اور معقول ٹھہرانے کے لیے اس نے مؤثر سفارت کاری Agressive Diplimacyکا بھی سہارا لیا اور عالمِ اسلام سے ہزاروں مؤثر شخصیات کو چن چن کر اپنے یہاں آنے کی دعوت وری اور پھر اپنی سرکاری میزبانی میں رکھ کر ان کی ذہن سازی Brain Washingکی بھی کوشش کی مگر نتائج اس قدر حاصل نہ ہوسکے جس قدر کی توقع کی جارہی تھی۔
عراق کی تباہی سے شروع ہوکر افغانستان، پاکستان اور اب یمن پر ڈرون حملوں کی شکل میں مسلسل پیش قدمی کرتا امریکی فوجی کارواں اب حرمین پر نظر ڈالنے لگا ہے۔ جی ہاں! بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ قبلۂ اول کے بعد اب رہ ہی کیا گیا تھا حرمین شریفین کے علاوہ۔ لگتا ہے امریکی منصوبوں سے امتِ مسلمہ کی بے بضاعتی، کس مپرسی اور بے حیثیتی پر مہر لگ رہی ہے اور ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کا وہ قول یاد آرہا ہے جو آپ نے صحابہ کے درمیان فرمایا تھا: ’’تم پر قومیں ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ نے حیرت سے پوچھا کہ کیا اس روز ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا:نہیں اس روز تمہاری تعداد بہت ہوگی مگر تمہاری حیثیت سیلاب کے جھاگ کی سی ہوجائے گی…‘‘
امریکہ حرمین شریفین پر حملہ کرپائے گا یا نہیں اور اگرکرے تو کیا ہوگا ہمیں اس کا کوئی خاص خوف ہے اور نہ خطرہ اس لیے کہ وہ اللہ کا گھر ہے اور اس کی حفاظت بھی وہی خود کرتا ہے اور اس نے کی ہے اگر کسی کو یقین نہ ہو تو سورہ فیل پڑھ کر دیکھ لے۔ ہمیں تو اس واقعہ کے بعد اس امت کو متوجہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اسلامی اخوت، دینی حمیت، سیاسی اور اخلاقی قوت کے ساتھ ساتھ ایمان و عمل کی طاقت پیدا کرے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس ذلت ورسوائی پر مہر کے بعد مہر لگتی جائے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں