امریکہ کا اقتصادی بحران

شمشاد حسین فلاحی

فوجی اور سیاسی اعتبار سے دنیا کی چودھراہٹ پر قابض ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس وقت اپنی جدید تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اور حالات کا تجزیہ کرنے والے ماہرین اگرچہ کھلے عام کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرپا رہے ہیں لیکن مستقبل کا مطلع صاف ہے کہ اب امریکہ بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے جس سے ایک دوسرا سپر پاور دوچار ہوچکا ہے۔

ماہ اگست کا پہلا ہفتہ اور جولائی کے آخری ایام امریکی معیشت کے لیے بڑے سخت کے ایام تھے۔ خبریں ہیں صدر امریکہ باراک اوبامہ نے قوم کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ ان کے قریبی ذرائع نے گزشتہ ہفتہ یہاں تک خبر دی تھی کہ باراک اوبامہ کئی دن سے اس بحران سے نکلنے کی جدوجہد میں مسلسل جاگ رہے ہیں۔

کیونکہ امریکی خزانہ بالکل خالی ہوچکا ہے۔ اور اگر امریکہ کو فوری طور پر قرض نہ مل سکا تو وہ اپنے نوکوروں کو تنخواہ تک نہ دے سکے گا۔ اخباری ذرائع نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آئندہ ہفتہ دس دن سے زیادہ ضرورت کو پوری کرنے ہی کے بقدر پیسہ موجودہے اور اس کا واحد علاج یہ ہے کہ امریکی پارلیمنٹ فوری طور پر مزید قرض لینے کی اجازت دے اور بیرونی قرضے کی حد میں اضافہ کرے۔چنانچہ امریکی سینٹ نے فوری طور پر قرضوں کی مد بڑھانے کا بل منظور کرکے امریکہ کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا۔ لیکن یہ بات اب دنیا کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ امریکی معیشت کا مکمل دارومدار اب بیرونی قرضوں پر ہے اور اب اس کی سیاست اور فوجی قوت میں تو کچھ دم خم ہوسکتا ہے مگر اس کی معیشت کاڈھانچہ کب گرجائے معلوم نہیں۔

ادھر امریکی معیشت کی اس حالت نے پوری دنیا کی اقتصادیات پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور دنیا بھر کے اسٹاک مارکیٹ میں گزشتہ دنوں سے مسلسل کساد بازاری اور غیر یقینی کیفیت طاری ہے۔

دراصل نئی صدی کا آغاز امریکہ نے جس انداز اور جن حالات میں کیا تھا وہ اس کے مستقبل کے لیے بہت مثبت اور تعمیری علامات کے حامل ہرگز نہ تھے۔ عراق امریکہ جنگ اور پھر افغانستان میں امریکی جنگ کے محاذ نے اسے جن حالات سے دوچار کردیا اس کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ امریکی ماہرین کو ان جنگوں سے وہ کچھ حاصل نہ ہوسکا جس کی توقع تھی۔ اور اس کے برخلاف اسے ان حالات سے دوچار ہونا پڑا جس کا اسے اندازہ تک نہ تھا۔ اس طرح مفادات کی جمع و تفریق کا فارمولہ تو اپنی جگہ صحیح ہے مگر وہ مفروضہ ہی غلط ثابت ہوگیا جو امریکی ماہرین نے قائم کیا تھا۔

اگرچہ جارج بش اول کے دور میں بھی قرضوں کی حد کافی بڑھی ہوئی تھی مگر اس وقت انھوں نے جن محاذوں پر پیش رفت کی تھی وہ ان کے لیے بڑے امید افزا تھے۔ مگر افسوس کہ بعد کے حالات نے امیدوں کو تکمیل تک نہ پہنچنے دیا اور امریکی معیشت پر جنگ کے اخراجات کا بوجھ بڑھتا گیا، آمدنی کے ذرائع بڑھنے کے بجائے اخراجات کی مدیں مسلسل بڑھتی رہیں اور حالات ۲۰۰۷ء میں یہاں تک پہنچ گئے کہ ۳۳ء۲ فیصد کے نقصان کا بجٹ امریکی سینٹ میں پاس ہوا۔ اور اب محض چار سال کی مدت میں حالات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ ۲۰۱۱ء کا بجٹ ۲۰۰۷ء کے مقابلے ۰۹ء۸ فیصد کے خسارے کا بجٹ رہا۔

یہ تو اعداد و شمار کا کھیل ہے مگر زمینی حقائق جو کچھ بتارہے ہیں وہ یہ کہ امریکہ دیوالیہ ہونے کے کگار پر آن پہنچا ہے اور اب اس کی تمام تر ضروریات کی تکمیل یا تو دوست ممالک کے عطیات بشکل قرض پر منحصر ہے یا ان ممالک کے ذرائع اور وسائل پر جو اس کے پنجۂ استبداد میں پھنسے ہیں۔ اس وقت امریکہ کی مثال بستر مرگ پر پڑے اس مریض کی ہے، جس کے جسم کا تمام تر خون خشک ہوچکا ہو اور مزید زندہ رہنے کے لیے اسے تازہ خون درکار ہو۔ وہ جتنا اور جب تک ملتا رہے گا وہ زندہ رہ پائے گا ورنہ موت۔

امریکی عوام بھی اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ میں جنگ مخالف رائے رکھنے والے افراد نے کافی زور دار آواز میں جاری امریکی پالیسی پر احتجاج کیا۔ عالمی اقتصادی کساد بازاری بھی انھی حالات کا ایک تسلسل تھی جسے ماہرین اقتصادیات نے معاشی نظام اور اس کے سربراہوں کی ناکامی کو چھپانے کے لیے حالات کا سہارا لے کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور اب جبکہ امریکہ خود شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہوگیا ہے اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی اور سپر پاور امریکہ کے جابرانہ اور حریصانہ پالیسیوں کے نتائج ہیں۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری خزانے خالی ہیں اور جب سرکاری خزانہ خالی ہو تو وہ عوام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کس طرح کرپائے گا۔ چنانچہ ریاستیں اپنی ذمہ داریاں اور کام مالیات کی کمی کے سبب مرکز کے سپرد کرکے خود کو الگ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہورہی ہیں۔ امریکہ کی ایک ریاست میں کسی شہری کی موت کی صورت میں اس کی تجہیزو تکفین کے لیے سرکار کی طرف سے ضروری فنڈ مہیا کرایا جاتا تھا۔ مگر اب یہ ختم کردیا گیا ہے۔ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے گزشتہ دنوں فرائڈ چکن کی مشہور کمپنی ’’کنٹکی‘‘ نے ۱۸۰۰ نوکروں کا اعلان کیا تو سترہ ہزار لوگوں کی درخواستیں موصول ہوئیں۔

دنیا کی واحد سپر پاور کا حال اس کروڑ پتی قلاش کا ہوگیا جس کی تجارت ختم ہوگئی ہو، قرض دینے والا کوئی نہ ہو اور اب اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی نہ ہو، اب سے چند سال پہلے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جمہوریت قائم کرنے اور دنیا میں امن و امان قائم رکھنے کے نام پر عراق کو تاراج کرڈالا اور ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر ’’مشکوک حملے‘‘ کے بعد اچانک افغانستان پر دھاوا بول دینا اس بات کی واضح علامت ہے کہ امریکہ طاقت کے نشہ میں اس سے زیادہ مدہوش تھا جتنا کہ سوویت روس تھا۔ اور امریکی بدقسمتی کہ سوویت روس کے خاتمے کے بعد کوئی ایسی طاقت بھی باقی نہ تھی جو اسے من مانی کرنے سے روک سکتی اور امریکی اقتدار تیز رفتاری کے ساتھ فرعونیت کی راہ پر چلتا رہا۔ فرعونیت کی راہ پر کوئی فرد چلے یا قوم اس کا انجام بھی وہی ہوگا جو اس راہ پر چلنے والے پہلے فرد کا ہوا۔

امریکہ کی اس کیفیت سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ہے، ہاں ایک موہوم سی امید یہ ہے کہ شاید اب دنیا کے مظلوم افراد اور اقوام کو اس کے ظلم و استبداد سے نجات مل جائے لیکن ہمارے لیے یہ صورت حال اور زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ امریکہ کے ہاتھی نما جسم کو تازہ خون کی جو سپلائی ہوگی وہ بھی ہمارے ہی ناتواں جسم سے ہوگی اور ہمارا یہ ناتواں جسم اس ظالم ہاتھی کو کب تک اپنے جسم کا خون پلاسکے گا، یا اسے کب تک پلانا پڑے گا یہ اگرچہ غیر یقینی ہے مگر جو بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے اس کے اثرات لازمی طور پر ہمارے جسم پر بھی منفی ہی پڑیں گے۔

عالمِ اسلام کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنی اقتصادیات کو اس سے پہلے کہ وہ امریکی اقتصادیات کے ساتھ ساتھ تباہی سے دوچار ہو، ڈالر سے الگ کرلینے کی فوری تیاری کرنی چاہیے اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے مستقل استحکام کی طرف لیے جانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔اگر ایسا نہ ہوا تو امریکی دیوالیہ پن کے خطرناک اثرات عالمِ اسلام خصوصاً عالم عرب پر بھی غیر معمولی ہونگے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں