—امریکی انتخابات اور یہودی لابی —مکہ کی بین المذاہب مذاکرات کانفرنس —شادی کی محفلوں میں تشدد

شمشاد حسین فلاحی

امریکہ میں انتخابی عمل کاپہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے اور اب فائنل راؤنڈ میں مقابلہ باراک اوباما اور میک کین کے درمیان ہوگا۔ باراک اوباما کا اندرون پارٹی مقابلہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہیلیری کلنٹن سے تھا جو اب صدارتی انتخاب سے باہر ہوگئی ہیں اور باراک اوباما کو وہائٹ ہاؤس پہنچانے میں تعاون کا خود بھی یقین دلارہی ہیں اور اپنے حامیوں سے بھی اپیل کررہی ہیں۔

باراک اوباما کی امیداواری امریکی انتخابات کے لیے کئی پہلوؤں سے بڑی اہم تھی۔ ایک یہ کہ وہ سیاہ فام امریکی ہیں جو ہندوستان کے تناظر میں دلتوں اور پسماندہ لوگوں کی طرح ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے والد کانام اوباما حسن تھا جو عیسائی تھے مگر انڈونیشیا میں رہنے کی وجہ سے مسلمانوں جیسا نام اختیار کرلیا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم انڈونیشیا میں ہوئی ہے۔ اندرون پارٹی امیدواری کے مقابلے میں سیاہ فام ہونے کے مسئلے پر تو بہت زیادہ بحث نہیں ہوئی لیکن انڈونیشیا میں ان کی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے صہیونی لابی نے اس بات کو بڑے زورو شور سے اٹھایا کہ ان کی ابتدائی تعلیم مسلم ملک کے ایک مدرسے میں ہوئی ہے۔ اوریہ مدارس ان کے نزدیک دہشت گردی کی تعلیم کے مراکز ہیں۔ باراک اوباما نے ہیلیری کلنٹن کے مقابلے میں بہرحال فتح حاصل کرلی اور سیاہ فام ہونے کے باوجود کامیاب ہوئے یہ ان کی صلاحیت اور پارٹی کو مطمئن کردینے کی زبردست خوبی کی علامت ہے۔

اس پورے الیکشن میں اوباما پر ان دونوں معاملوں کو لے کر کافی دباؤ تھا اور صہیونی لابی کو اندیشہ تھا کہ وہ اسرائیل دشمنی میں گرفتار ہوسکتے ہیں چنانچہ ان کی لابی نے باراک اوباما سے یہ یقین دہانی کرالی کہ وہ مستقبل میں اسرائیل کے لیے کسی بھی طرح ’خطرہ‘ ہونے کے بجائے اس کے محافظ ثابت ہوں گے۔

چنانچہ پہلے میدان کی کامیابی مکمل ہوتے ہی انھوں نے اعلان کیا وہ ’اسرائیل کے سچے دوست ‘ہیں اور یہ کہ المقدس شہر ہی اسرائیل کی راجدھانی رہے گا۔ یہ بیان دینے کے بعد اب صہیونی لابی جو دراصل امریکہ ہی نہیں دنیا کی پالیسی سازی میں غیر معمولی رول رکھتی ہے دنیا کے سامنے یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ آنے والا امریکی صدر بھی اسرائیل دوست ہوگا اور یہ کہ امریکہ میں اسرائیل دوستی کا خفیہ یا علانیہ حلف لیے بنا کوئی شخص امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا۔ باراک اوباما نے واضح انداز میں اعلان کیا کہ اگر کبھی اسرائیل کو خطرہ پیش آئے گا تو وہ اس کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوجائیں گے۔

باراک اوباما نے زور دے کر کہا کہ مصر کو چاہیے کہ وہ غزہ میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ پر روک لگائے۔ اس غزہ پر جو گزشتہ چار ماہ سے مکمل ناکہ بندی کا شکار ہے اور ضروری اشیاء کا ایسا بحران غزہ پٹی میں پیدا ہوگیا ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ باراک اوباما کو اس بات کی تو فکر ہے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں مگر اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ غزہ کے کئی لاکھ لوگ بھوک اور بیماری کی حالت میں بلک بلک کر مررہے ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ پوری دنیا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اگر کوئی بات ہوتی ہے تو دہشت گردی کی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق اور انسانی بحران تک کا ذکر کسی کی زبان پر نہیں آتا۔

اومابا کے بیان سے اتنی بات تو واضح ہوگئی ہے کہ وہاہٹ ہاؤس میں کوئی بھی اور کسی بھی پارٹی سے منتخب ہوکر آئے اسے اسرائیل دوستی کا حلف لینا ہی ہوگا۔ اوریہ کہ مستقبل میں امریکی پالیسی کسی بھی محاذ پر کوئی خاص تبدیلی سے ’سرفراز‘ نہیں ہوگی۔

———

جون کے پہلے ہفتے میں خادم الحرمین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کی ضیافت میں دنیا بھر کے مسلم علما اور دانشوران کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا مقصد بین المذاہب مذاکرات پر غوروفکر کرنا تھا۔ رابطہ عالم اسلامی کے بینر سے ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد امت کے علما اور مفکرین کی مختلف مذاہب کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے کے لیے ذہنی تیاری تھا تاکہ دنیا کو اسلام کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کی جائیں اور شر پسند عناصر کے اسلام مخالف پروپیگنڈہ کا موثر جواب دیا جاسکے۔

سرزمین کعبہ مکہ میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے بعد پانچ نکاتی اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں عالمی سطح پر حصول امن کے لیے جنگوں کو ختم کرنے پر زور دیا گیا جو انسانوں کو بھوک، افلاس، بیماری اور فضائی آلودگی کے علاوہ کچھ نہیں دیتیں۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں معاشرے میں بڑھتی فحاشی و عریانیت پر قابو پانے کے لیے خاندانی نظام کے استحکام کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ مغربی معاشرے کے تناظر میں اور میڈیا کے ذریعے پھیلائی جارہی بداخلاقی کے پیش نظر یہ وقت کی اہم ترین ضروریات ہیں جسے سب سے زیادہ امت مسلمہ کے باشعور افراد ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ اس اعلامیہ میںجہاں کانفرنس نے تمام مذاہب عالم کے ماننے والوں سے اس بات کی اپیل کی ہے کہ وہ انسانیت کے مسائل کے حل کے لیے متحد ہوکر کام کریں وہیں مسلمانانِ عالم سے بھی پرزور اپیل کی ہے کہ وہ منظم و متحد ہوں اور معمولی اختلافات کو وسیع مفادات اور امت کے فلاح و صلاح کی خاطر ایک طرف ڈال دیں۔

ایسے حالات میں جب امت مسلمہ کو عالمی سطح پر استعماری طاقتوں کا مختلف محاذوںپر سامنا ہے یہ بات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے کہ مسلمانانِ عالم اپنے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر امت واحدہ کی تصویر بن جائیں۔ یہ بات عراق و ایران کے تناظر میں اور بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے جہاں اسلام دشمن طاقتیں شیعہ و سنی اختلاف کو ہوا دے کرانہیں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار کرنا چاہتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کانفرنس کے سیاسی مضمرات جو بھی ہوں لیکن اس کے اعلامیہ نے جن نکات کی طرف امت کو توجہ دلائی ہے وہ وقت کا ایسا تقاضہ ہیں جسے امت مسلمہ ایک لمحہ کے لیے بھی نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اگر اس کانفرنس کے بعد مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر علماء و دانشور باہمی اتحاد اور مسائل کا حل مل جل کر تلاش کرنے کی سمت میں غوروفکر کرنے کی سوچ پیدا کرتے ہیں تو یہ کانفرنس امت مسلمہ کی حالیہ تاریخ میں ایک سنگِ میل ثابت ہوسکتی ہے۔

وقت کا تقاضہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں کو سمجھا جائے اور ان کے مقابلے کے لیے تمام فروعی اختلافات سے اوپر اٹھ کر سوچنے اور غوروفکر کرنے کا راستہ اپنایا جائے۔

———

دہلی کے نواحی شہر صاحب آباد میں ۱۰؍جون کو مسلم خاندان کی ایک بارات میں دولہے اور اس کے خاندان والوں کے ساتھ باراتیوں کی زبردست پٹائی گئی۔ سبب تھا جہیز۔ دولہے نے عین کھانے کے وقت ایک لاکھ روپئے کیش اور کار کا مطالبہ کرڈالا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھیوں نے غصہ میں آکر کھانے کی میز الٹ دی جس پر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا۔

دولہے اور باراتیوں کی پٹائی اور عین موقع پر جہیز کے سامان میں غیر معمولی چیزوں کے اضافہ کا مطالبہ کم از کم شمالی ہند میں تو اب عام سی بات ہوتا جارہا ہے۔ دولہے اور اس کے رشتے داروں کو یرغمال بنالینا، باراتیوں کی پٹائی، بغیر دلہن کے بے عزتی سے واپس کردینے کے واقعات کی رپورٹیں اب اخبارات میں کافی آنے لگی ہیں اور اس میں مسلم و غیر مسلم خاندانوں کی تفریق مشکل ہے۔

شادی جیسے خوشی کے موقع پر مار دھاڑ اور تشدد دراصل اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جہیز کا یہ مرض ہمارے معاشرہ میں بلڈ کینسر کی طرح گردش کررہا ہے اور اس کا تدارک اب آسان نہیں رہ گیا ہے۔ یہ تشدد لڑکی والوں کی مجبوری اور اس ذہنی اذیت کا بھی غماز ہے جو وہ لڑکی کے رشتے کے سلسلے میں جھیلتے ہیں اور اتنا سب کچھ جھیلنے کے بعد بھی جب مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے تو ان کا جذبۂ انتقام شعلہ جوالہ بن جاتا ہے اور وہ اس جذبہ میں سب کچھ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ تشدد کے ان واقعات میں جہاں سماجی سرطان کا دخل ہے وہیں قانون اور سول انتظامیہ کی ناکامی بھی واضح ہوتی ہے۔ جہیز مخالف قانون ہونے کے باوجود اس ملک میں جہیز کے لیے روزانہ جلائی جانے والی اور قتل کی جانے والی لڑکیوں کی تعداد نیا بھر میں ایڈس سے مرنے والے افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

اسی طرح قانون و انصاف کی مشینری کے ذریعہ انصاف کے حصول کا بروقت نہ ملنا اور نظام انصاف تک رسائی میں دشواری بھی اہم سبب ہے جس کی وجہ سے لوگ قانون کا راستہ اپنانے کے بجائے خود ہی مجرمین کو سزا دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح قانون کی موجودگی میں لاقانونیت کا راج قائم ہورہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف مذاہب و افکار کے ماننے والے لوگ اس برائی کے خلاف عملی جدوجہد کریں تاکہ معاشرے کو اس کینسر سے نجات دلائی جاسکے۔ اسی طرح قانون اور سول انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر امن و قانون کے سلسلہ میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کرے تاکہ متاثر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے بچیں۔

مسلم معاشرہ عام معاشرے سے مختلف ہے، اس کی قدریں، اس کی روایات اور سب سے بڑھ کر ان کی شریعت کی ہدایات اس سب کی مخالف ہیں جو آج عام طور پر شادیوں کے موقعوں پر انجام دیا جاتا ہے۔ مسلم معاشرے کو چاہیے کہ وہ اپنی حالت اور حیثیت پر غور کرے۔ اپنی اصلاح کرے اور عام انسانوں کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام دے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں