’’میرا خواب ہے کہ ایک دن جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر سابق غلاموں اور سابق آقاؤں کی اولادیں ایک ساتھ بھائی چارے کی میزپر بیٹھنے کے لائق ہوںگی۔ میرا خواب ہے کہ میرے چار چھوٹے بچے ایک ایسے ملک میں رہیں گے جہاں انہیں ان کی جلد کے رنگ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے کردار کی بنیاد پر پرکھا جائے گا اور جب ایسا ہوگا تو ہم آزادی کی گھنٹی بجائیں گے اور اس کی گونج ہر گاؤں، ہر شہر اور ہر ریاست میں سنائی دے گی۔‘‘ (مارٹن لوتھر کنگ جونیئر)
جی ہاں! ۵؍نومبر کو آزادی کی وہ گھنٹی واقعی بج اٹھی جس کا خواب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے دیکھا تھا اور آزادی کی اس گھنٹی کی آواز نہ صرف امریکہ کے ہر گاؤں، ہر شہر اور ہر ریاست میں سنائی دی بلکہ پوری دنیا اس کی صدائے باز گشت سے اس وقت جھوم اٹھی جب امریکی صدارتی انتخاب میں پہلی مرتبہ سیاہ فام امیدوار ۴۷ سالہ باراک اوباما کی فتح کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد ہم یقینا توقع کریں گے اور حالات نے یہ ثابت بھی کردیا کہ امریکہ میں اب لوگوں کی قدروقیمت ان کی جلد کے رنگ کی بنیاد پر نہیں پرکھی جائے گی بلکہ کردار اور صلاحیت کو بنیاد مانا جائے گا۔
سیاہ فام باراک اوباما کی کرشماتی شخصیت ان کی غیر معمولی صلاحیت اور پوری قوم کو متحد و منظم کرنے کی عظیم خوبیوں نے انھیں وہائٹ ہاؤس کے قصرِ صدارت میں جلوہ افروز کیا ہے اور ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا اور خاص طور پرامریکہ اپنی تاریخ کے بدترین بحرانی دور سے گزر رہے ہیں امریکہ کے عوام اور دنیا بھر کے لوگ باراک اوباما کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف تو امریکہ کا اقتصادی بحران ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے دوسری طرف بدامنی اور جنگ و جدل کی کیفیت ہے جس نے دنیا کے تقریباً تمام ہی خطوں میں امریکہ کے خلاف نہ صرف نفرت و غم وغصہ پیدا کررکھا ہے بلکہ خود امریکہ کو بھی ایک ایسے مکڑ جال میں پھنسا دیا ہے جس سے نکلنا خود امریکہ کی بھی ضرورت ہے اور ان کروڑوں انسانوں کی بھی جو مفادات و سیاست کی اس جنگ کی زنجیر میں جکڑ دیے گئے ہیں۔
جس طرح امریکی عوام نے یہ خواہش کی ہے کہ باراک اوباما اپنی قوم کو موجودہ سیاسی و اقتصادی بحران سے نکالیں اسی طرح عراق، افغانستان، فلسطین، صومالیہ، سوڈان اور عرب ممالک کے ان لوگوں کی بھی جن کی گردنیں ان کے سابقین نے جکڑ رکھی ہیں یہی توقع ہے کہ ایک دانشمند امریکی صدر انہیں امن و امان سے ہمکنار کرے گا اور دنیا ایک نئے دور کی طرف قدم بڑھائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی فتح نہ صرف امریکہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگی بلکہ پوری دنیا کو ایک مختلف رخ پر چلنے میں مدد دے گی۔
باراک اوباما کی کامیابی میں جہاں ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کا دخل ہے وہیں امریکی قوم کی دانشمندی بھی قابلِ ستائش ہے جس نے بحرانی کیفیت میں متحد ہوکر ایک ایسے فرد کو اپنی زمام کار سونپی ہے جو اپنے رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے ایجنڈے اور صلاحیت کی بنیاد پر وہاں تک پہنچا ہے۔ امریکی قوم نے ایک باصلاحیت سیاہ فام کو اپنا صدر منتخب کرکے ایک طرف آقاو غلام کے فرق کو ختم کرکے نسلی افتخار کے بت کو توڑ ڈالا اسی طرح اس نے سابق صدور کی ان پالیسیوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جنھوں نے پوری دنیا کے امن و سکون کو بھی غارت کیا اور خود امریکہ کو اقتصادی دیوالیہ پن کے کگار پر لاکھڑا کیا۔
امریکہ جیسے ملک میں جہاں سیاہ فام لوگوں کو عملاً مساوی حقوق میسر نہ تھے، انہیں غلاموں کی اولاد تصور کرتے ہوئے ان کے ساتھ نسلی امتیاز برتا جاتا تھا اور جو آج بھی پسماندہ، غیر مہذب اور وحشی تصور کیے جاتے ہیں۔ سفید فام لوگوں کا رویہ سیاہ فاموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے ہم آپ کو اس قدرتی آفت کی طرف لے جاتے ہیں جو امریکہ کی ایک ریاست میں چند سال پہلے واقع ہوئی تھی اور اسے ’کیٹرینا‘ سمندری طوفان کا نام دیا گیا تھا۔
آفت اور مصیبت کے وقت انسان کیا درندے اور انسان بھی ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کرتے ہیں مگر امریکہ کی اس مصیبت زدہ ریاست میں مصیبت کے وقت بھی سیاہ فاموں کی دکانوں اور کاروباری مقامات کو سفید فاموں نے لوٹا۔ اور پوری دنیا میں ٹی وی اور اخبارات میں ایک دکان کے شٹر پر لگے ایک ہاتھ سے لکھے دفتی کے بورڈ کی تصویریں شائع ہوئیں جس نے امریکی معاشرہ کے اخلاقی دیوالیہ پن کی قلعی کھول دی اور سیاہ فاموں کے لیے سفید فاموں کے دلوں میں بھری نفرت کو بھی اجاگر کردیا۔ گتے کی اس پلیٹ پر لکھا تھا:
Don’t Disturb. I am sleeping with an ugly woman, a rifle and a dog.
’’خبردار خلل اندازی نہ کرو! میں ایک بدصورت عورت، ایک رائفل اور کتے کے ساتھ سورہا ہوں۔‘‘
یہ اسی امریکہ کا واقعہ ہے جس نے اب ایک ’اگلی‘‘ (بدصورت) سیاہ فام کو اپنا صدر منتخب کرلیا ہے۔ چنانچہ ہم یقینا ایسے حالات میں کہہ سکتے ہیں کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے مطابق یہ آزادی کی گھنٹی کی گونج ہے۔
باراک اوباما کو پارٹی کے الیکشن امیدواروں کے پینل تک پہنچنے کے لیے بھی زبردست جدوجہد کرنی پڑی مگر جب وہ وہاں تک پہنچ گئے تو انھوں نے ہیلری کلنٹن کو ہرا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی اس امیدواری کے اہل ہیں کیونکہ کلنٹن فیملی کو ہرانا خود ایک دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنا تھا۔ اسی طرح انتخابی مہم کے دوران مخالف پارٹی نے ان کے خلاف ایسی عجیب و غریب سازشیں اور سطحی حرکتیں کیں، جن کا ہم لوگ امریکہ جیسے نام نہاد مہذب معاشرے کے بارے میں تصور تک نہیں کرسکتے۔ چنانچہ پوری دنیا نے ایک لڑکی کو ٹی وی پر دیکھا جس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میک کین کی حمایت میں مہم کے دوران ایک ساڑھے چھ فٹے سیاہ فام نوجوان نے زبردستی اس کی پیشانی پر ’B‘ لکھ دیا اور اس طرح سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے درمیان نفرت کو ہوا دینے کی پوری کوشش کی گئی تاکہ اوباما کامیاب نہ ہوسکے۔ لیکن بعد میں اس لڑکی نے اپنے ضمیر کی آواز پر اس پورے ڈرامے کا راز فاش کردیا جو سفید فام نسل پرستوں نے انتخابی مہم کے دوران سیاہ فاموں کے لیے رچا تھا۔ مگر باراک اوباما نے ان تمام سازشوں کو بھی ناکام کردیا اور اپنے عزم و حوصلے اور بے مثال صلاحیت کی بنیاد پر حالات کو مسلسل اپنے حق میں کرتے رہے۔ اور اب جبکہ ۱۶۲ کے مقابلے ۳۴۹ ووٹ کے زبردست فرق سے باراک اوباما کامیاب ہوئے ہیں تو یہ کہا جائے گا کہ ان کے سامنے انتہائی دشوار گزار گھاٹیوں کا سفر اور چیلنج کے پہاڑوں کو سر کرنے کا فریضہ انجام دینا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر کے سامنے دو بڑے اور اہم چیلنجز ہیں۔ جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ وہ امریکہ کی اقتصادیات کو مستحکم کریں اور مہنگائی و بے روزگاری جیسے مسائل کا خاتمہ کرکے امریکی قوم کو غیریقینی کی کیفیت سے نکال کر سکون و اطمینان سے ہم کنار کریں۔ دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح عراق اور افغانستان میں پھنسے امریکہ کو بہ صحت و سلامتی باہر نکالیں۔ اگر امریکی صدر نے ان دونوں کا مقابلہ کامیابی کے ساتھ کرلیا تو وہ امریکی قوم سے اپنا وعدہ بھی وفا کرلیں گے اور کامیاب صدر کا خطاب بھی انہیں حاصل ہوجائے گا۔ وہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کی تاریخ میں ایک کامیاب با حکمت حکمراں کی حیثیت سے یاد کیے جائیں گے۔
عالم اسلام اس وقت خاص طور پر امریکی جارحیت اور اس کے خونی پنجوں کی گرفت میں ہے اور اس کی یک طرفہ جارحیت نے اہلِ اسلام اور اہلِ مغرب کے درمیان کشمکش سے آگے بڑھ کر نفرت اورعداوت کی صورت حاصل کرلی ہے۔ عالم اسلام خصوصاً عالمِ عرب ایک طرف تو پیٹرول کی عظیم نعمت سے بہرہ ور ہے دوسری طرف امریکی اقتصادیات میں عالمِ عرب کا خاص حصہ ہے۔ ایسے میں حکمرانوں پر اپنی موجودہ گرفت کے ساتھ ہی وہاں عوام کے دلوں میں امریکہ مخالف جذبات کے لاوے کو پھٹنے سے روکنا بھی ایک اہم محاذ ہے۔ عرب دنیا میں امریکہ کی دستبرد اور غیر اعلان شدہ استعماریت کے خلاف ایک زبردست نفرت ہے اور اس نفرت کا وہاں کے حکمرانوں کو بھی اندازہ ہے اور امریکہ کو بھی۔
اس امریکی صدارتی انتخاب میں عراق و افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور فوجی، مالی اور پالیسی کے نقصانات خاص طور پر ڈبیٹ کا موضوع رہے ہیں اور اوباما نے قوم سے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ ان مقامات سے امریکی افواج کو واپس بلائیں گے۔ یہ ایک ایسا وعدہ ہے جس کا تعلق امریکہ کے علاوہ پوری دنیا خصوصاً عالمِ اسلام سے ہے مگر پاکستان کے سلسلے میں ان کا یہ بیان کہ القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے پاکستان میں امریکی حملے جاری رہیں گے بہ ظاہر پیغام دیتا ہے کہ وہ محتاط انداز میں کام کریں گے اور امریکہ کے ان پریشر گروپوں کو یکسر نظر انداز کرنے کے متحمل نہیں ہوسکیں گے جو اب تک بالواسطہ طور پر امریکی پالیسی سازی کا ’فریضہ‘ انجام دیتے رہے ہیں۔
باراک اوباما کی کامیابی میں بھارت کے لیے بھی چند ایک پہلو ایسے ہیں جن پر اسے تشویش ہوسکتی ہے۔ باراک اوباما بھارت کے ساتھ نیوکلیر ڈیل کے باعث اختلاف رکھتے تھے ایسے میں بھارت کو اس ڈیل کے مستقبل کے سلسلے میں اندیشے ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اوباما کا مسئلہ کشمیر پر بھی ہمارے موقف سے مختلف موقف ہے وہ اسے عالمی مسئلہ تصور کرتے ہیں اور انھوں نے اعلان کیا ہے کہ اس مسئلہ پر وہ بل کلنٹن کو اپنا خاص نمائندہ متعین کریں گے۔ بہرحال یہ باتیں بھارت کے لیے تشویش کا سبب ہوسکتی ہیں۔ مگر ہمیں ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟‘‘ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور بھارت امریکہ تعلقات کی ایک نئی کی توقع کرنی چاہیے۔
——