امریکی کتے بھی کاٹ کھانے لگے! (ایک پرانی تحریر جو اپنی معنویت کے اعتبار سے آج بھی حقیقت ہے)

منظور عثمانی

ہر سال 47 لاکھ امریکیوں کو کتے کاٹ لیتے ہیں۔‘‘
یہ اطلاع امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم ’امریکن اکیڈمی آف پیڈریاٹکس‘ (AAP) نے دی ہے۔ امریکہ میں ہر سال سگ گزیدگی سے بچنے کے لیے 21؍مئی سے 27؍ مئی تک ہفتہ منایا جاتا ہے۔ اکیڈمی سے منسلک ڈاکٹر ہینری جیرر کا کہنا ہے ’’کتا تب کاٹتا ہے جب وہ خوف زدہ یا تکلیف میں ہو۔‘‘ موصوف کی ہدایت ہے کہ پالتو کتا خریدنے سے پہلے اس کے رویے اور نسل کا پتا لگا لینا چاہیے تاکہ اسے پالنے کا صحیح طریقہ معلوم ہوسکے۔
ہماری رائے میں اس خبر کا سب سے نمایاں پہلو کتوں کا ’کتاپن‘ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مغربی معاشرے میں کتوں کا مقام کتنا اعلیٰ و ارفع ہے، وہاں انسانوں کے شجرے سے بھلے صرفِ نظر کردیا جائے لیکن کتوں کی نسل ہر حال میں خوب پرکھی جاتی ہے۔ وہاں کتا ہر حسینہ کے پہلو کی اس طرح زینت بنا نظر آتا ہے کہ مرد رشک کا شکار ہوجائے۔
پچھلے دنوں ایک مغربی ملک میں یہ سروے کرایا گیا کہ ’شائقین سگاں‘ کتے کس طرح پالتے ہیں؟ پتا چلا کہ بہت سے انہیں اپنے سے بہتر حالات میں رکھتے اور اپنے سے بہتر غذا مہیا کرتے ہیں۔ ان کے حسنِ سلوک کی ایک اور تازہ مثال ہم بھارتیوں نے بھی کچھ عرصہ قبل دیکھی جب بش اپنے ساتھ ’بش‘ بھی لائے تھے۔
بش صاحب نے اپنے’ہشوں‘ (کتوں) کی وہ خاطر مدارات کرائی کہ مثال نہیں ملتی۔انہیں پنچ ستارہ ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا جہاں اب تک صرف سربراہانِ مملکت ٹھہرتے تھے۔ حد تو یہ کہ ہم آزاد دیش کے آزاد دیش واسیوں کو ان کتوں کی رکھوالی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ جس دیس میں کتوں کی اس درجہ توقیر کی جاتی ہو، کتے احسان کا بدلہ اس طرح چکائیں کہ ہر سال اپنے ہی 47 لاکھ مالکوں کو کاٹ کھائیں …. یہ بھلا کہاں کی شراف ہے؟کتا تو مالک کا بڑا وفادار ہوتا ہے، کہیں یہ ’انداز دلبرانہ‘ اس نے اپنے مالکوں سے تو نہیں سیکھا؟
امریکیوں کا دوستانہ رویہ بھی بڑا قاتلانہ ہوتا ہے۔ صدام حسین جب ایران سے بھڑے، تو امریکہ عراق سے جڑا ہوا تھا۔ افغانستان جب روس سے برسرِ پیکار تھا، تو طالبان اور اسامہ کی اتنی طلب تھی کہ اپنوں کی کیا ہوتی۔ امریکہ بہادر اتنا مہربان تھا کہ ان کے لیے ہتھیاروں کے دہانے اور خزانوں کے منہ کھول رکھے تھے۔
آج کے ’دہشت گرد‘ کل کے پیارے مجاہدین تھے اور ان پر پیار اور عنایات کے ڈونگرے برسائے جاتے تھے لیکن مقصد حاصل ہوا، تو ’باپ بیٹوں‘ نے انسانیت نواز جمہوریت اور عالمی امن کے نام پر عراق کو جس طرح تاراج کیا وہ چنگیز اور ہلاکو خاں کی روحیں تڑپا دینے کے لیے کافی ہے۔
اگر امریکی کتے آج اپنے ہی محسنوں کو سال میں 47 لاکھ کی اوسط سے کاٹ رہے ہیں، تو اس میں حیرت یا دکھ کی کیا بات ہے؟ انھوں نے احسان فراموشی اپنے مالکوں ہی سے سیکھی ہے۔ افسوس تو بس یہ ہے کہ ان جیسے عظیم محسنانِ انسانیت ’انسانوں‘ کی صحبت میں رہ کر کتے جیسا ’وفادار جانور‘ بھی خراب ہوگیا۔
خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبتِ زاغ
جیسا ملک ویسا پالتو کتا یا دوسرے الفاظ میں جیسی روح ویسے فرشتے۔
خبر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس لعنت سے تنگ آکر امریکی باشندے ہر سال سگ گزیدگی کا ہفتہ مناتے ہیں۔ اس دوران شہریوں کو کتوں کے کاٹنے سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ ہماری رائے میں یہ ہفتہ عالمی سطح پر منایا جانا چاہیے۔ اس فرق کے ساتھ کہ باقی لوگوں کو امریکیوں کے کاٹے سے بچنے کے طریقے سکھائے جائیں۔ خاص طور سے جن قوموں کی امریکہ سے دوستی ہوچکی ہے، انہیں یہ طریقے ضرور سیکھنے چاہئیں۔ کون جانے وہ کب کاٹنے لگیں کہ:
’’کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی‘‘
خدا خیر کرے، آج کل چشمِ عنایت ہم غریبوں کی طرف ہے جبکہ کل غیروں (پاکستان) سے شناسائی تھی:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
امریکی ’محسنانِ انسانیت‘ نے یہ سروے تو کرالیا کہ ہر سال اتنے امریکیوں کو کتے کاٹ کھاتے ہیں لیکن احتساب کی خاطر وہ یہ بھی جان لیتے تو اچھا تھا کہ اب تک امریکی شہنشاہیت نے کتنے کروڑ انسانوں کو کاٹ ڈالا ہے۔ یہ کام سی آئی اے کے لیے ذرا بھی دشوار نہیں کیونکہ اس کا تو کام ہی دنیا بھر کی انتڑی پوٹوں کو خبر رکھنا ہے۔ اس عمل سے انہیں یہ بھی علم ہوجائے گا:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کتا پرست ڈاکٹر ہنری بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں۔ انھوں نے یہ انکشاف فرمایا ہے کہ کوئی کتا اسی وقت کاٹتا ہے جب وہ خوف زدہ یا تکلیف میں ہو۔ ہمارے خیال میں یہ کھوج کوئی نئی نہیں بلکہ زمانہ قدیم ہی میں اسی کی بابت پتا چل گیا تھا۔ کیونکہ آج جتنی بھی اقوام یا تنظیمیں امریکہ کے خلا ف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، وہ اس ازلی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘۔ پیر تلے دب کر تو چیونٹی جیسی بے حقیقت مخلوق تک کاٹ لیتی ہے۔ کاش انسانیت کا دم بھرنے والے ’سپرپاور‘ کتوں کی نہیں انسانی نفسیات، جذبات اور تکالیف کا احساس کرسکتی۔
کتا پرستی میں اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مظلوم انسانوں کے لیے ’گوانتا نا موبے‘ اور ’ابوغریب‘ کی نہیں بلکہ غریب پروری کی ضرورت ہوتی ہے۔ شوریدہ سری کا علاج ’سرتراشنا‘نہیں عفوودرگزر ہے۔ فرعونیت کا انجام ہمیشہ غرقابیت ہی ہوتا آیا ہے۔ امریکی اپنی محدود فطرت کے باعث ہر سال ایک ہفتہ مناکر یہ مداوا ڈھونڈنے میں تو کوشاں ہیں کہ کتوں کی خوشنودی کس طرح حاصل کی جائے لیکن وہ امریکہ گزیدہ کروڑوں انسانوں کو فراموش کرجاتے ہیں جن کی رگوں میں ان کے کاٹے کا زہر سرایت کرگیا ہے۔ شاید انہی جیسے محسنوں کے بارے میں کہا گیا ہے:
خدارا! مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔
امریکیوں کو ٹھنڈے دل سے کتوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نفسیات کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔
درحقیقت توازن تب بگڑتا ہے جب ہمارے رویے غیر متوازن ہوجائیں۔ مشرق میں ایک کہاوت ہے کہ جوتی کتنی ہی نفیس اور قیمتی ہو، اس کی جگہ پیر ہیں، سر نہیں۔ کتوں کو گود میں اور سر پر بٹھانے کا منطقی نتیجہ یہی ہے جو ان کے سامنے آیا۔ کہتے ہیں سر چڑھی ڈومنی بیگمات کے منہ آنے لگتی ہے۔ کتوں کو منہ لگاؤگے، چومو چاٹو گے، تو کتا تو آخر کتا ٹھہرا، اس کا دماغ پھرنا لازمی ہے۔ موذی تو ایذا پہنچائے گا ہی! کتا لاکھ وفادار ہو لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گوشت دیکھتے ہی اس کی دم کا ’میکنیزم‘ حرکت میں آجاتا ہے۔
کتا تو غریب حیوان ہے، اسے اخلاق، شرافت، احسان شناسی وغیرہ کا کیا علم؟ وہ تو وہی کرے گا جو مالک کو کرتا دیکھے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ مالک کسی نہ کسی قوم کو ’ہڈی کا محور‘ بناکر کاٹتا رہتا ہے یعنی :
’’دشمن اگر نہیں ہیں تو دشمن بنائیے۔‘‘
تو وہ بیچارہ کس پر دانت تیز کرے گا؟ دیوانہ اپنے گریبان پر ہی ہاتھ صاف کرتا ہے، بقول حفیظ  جالندھری:
یہ موسم ہے، یہ ہے گریباں، آؤ کوئی کام کریں
موسم کا منہ تکتے رہنا، دیوانوں کا کام نہیں
اگر یہی شب و روز رہے، تو آج تو کتوں کے کاٹنے کا سالانہ اوسط 47 لاکھ ہے، کل زیادہ امریکی ان کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ کہیں مالک کی طرح کتا بھی در در یہ رٹتا نہ پھرے:
میرا پیغام ’محبت؟‘ ہے جہاں تک پہنچے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں