امِ عمارہ رضی اللہ عنہا

مرسلہ: نبیلہ کوثر

غزوئہ احد میں امِ عمارہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ کی طرف سے کئی اعزاز عطا ہوئے۔ مردوں میں اتنے اعزاز کسی کو نصیب نہیں ہوئے۔ پہلا اعزاز حضور ﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ میں نے دائیں بائیں جس طرف بھی نظر دوڑائی امِ عمارہؓ کو لڑتے دیکھا۔ دوسرا اعزاز یہ تھا کہ جب انھوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کو زخم کھاکر گرتے دیکھا تو ان کے پاس آئیں، زخم پر پٹی باندھی اور کہا: بیٹے اٹھو، جاؤ لڑو۔ تیسرا اعزاز جو امِ عمارہؓ کو اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے ملا وہ آپ کا ان سے فرمانا تھا، امِ عمارہؓ جتنی طاقت تم میں ہے کہاں کسی میں ہوتی ہے۔ ام ِ عمارہؓ جب اس مشرک کی طرف بڑھتی ہیں جس نے ان کے بیٹے کو زخمی کیا تھا اور تلوا کا ایسا وار کرتی ہیں کہ وہ وہیں ڈھیر ہوجاتا ہے تو حضور ﷺ خوش ہوکر فرماتے ہیں: ’’امِ عمارہ تم نے بدلہ لے ہی لیا۔‘‘
اس جنگ میںاللہ کے رسول ﷺ پر جان نثار کرنے کا وقت آیا، جب ایک دشمن اسلام حضورﷺ پر وار کرنے کے لیے آگے بڑھا، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت امِ عمارہؓ جھپٹ کر اس کے سامنے آگئے تاکہ حضور ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ حضرت مصعبؓ اللہ کے رسول ﷺ کے دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ام عمارہؓ زخمی ہوکر گر پڑیں۔
ام عمارہؓ کو گرتا دیکھ کر حضورﷺ نے ان کے بیٹے عبداللہ کوآواز دی اور پٹی باندھنے کا حکم دیا اور پھر ان کے حق میں دعا فرمائی۔ زخم دیکھ کر امِ عمارہؓ کو خیال آیا کہ کہیں یہ موت کا پیغام نہ ہو۔ اسی حالت میں حضورﷺ کے پاس گئیں اور درخواست کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرے لیے دعا فرمائیے کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں۔ حضورﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ جنت میں امِ عمارہؓ میرے ساتھ ہوں۔ امِ عمارہؓ کو ایک اور اعزاز حاصل ہوگیا۔ ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور وہ کہنے لگیں اب کچھ بھی ہو ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔‘‘
احد سے واپسی پر ان کے شوہر زیدؓ ابن عاصم زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کرگئے۔ ان کا چھوٹا بیٹا جب جوان ہونے کو آیا تو اس کی تربیت ایسی کی کہ اس میں جہاد کا شوق پیدا ہوگیا اور وہ اللہ کے رسولﷺ کی محبت میں ڈوب گیا۔
امِ عمارہؓ کا خاندان اسلام کے شہیدوں کا ایسا خاندان ہے جس کے لیے حضورﷺ نے دعا فرمائی ہے کہ یا اللہ ان لوگوں کو جنت میں میری رفاقت نصیب فرما۔ اس خاندان میں پانچ افراد تھے جنھوں نے مدینے سے مکہ آکر حضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یہ زید بن عاصم، ان کے دو صاحبزادے عبداللہ اور حبیب، ان کی بیوی امِ عمارہ اور ان کی بہن۔ اسلام کی تاریخ میں اس خاندان کے علاوہ اور کوئی خاندان ایسا نہیں ہے جس کے تمام لوگ ایک ساتھ بیعت عقبیٰ اور بدر و احد کی جنگوںمیں شریک ہوئے ہوں۔
حضورﷺ جب ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لائے تو امِ عمارہؓ اور ان کے خاندان کے لوگ برابر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے۔ جب بدر کی جنگ کے لیے حضورﷺ نے جہاد کا اعلان فرمایا تو زید بن عاصم اور ان کے بیٹے عبداللہ تیار ہوگئے۔ امِ عمارہؓ سے انھوں نے کہا کہ وہ مدینے میں رہیں۔ امِ عمارہؓ پیچھے رہنے والی نہ تھیں۔ حضورﷺ کی خدمت میں پہنچیں اور مجاہدوں کے ساتھ چلنے کی اجازت مانگی۔ عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں مجاہدوں کو پانی پلاؤں گی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کروں گی۔ حضورﷺ نے اجازت دے دی۔ اس طرح ان کو اور ان کے گھر والوں کو بدری ہونے کا اعزاز ملا۔ احد کی جنگ میں بھی وہ اس خدمت کے لیے حاضر تھیں، لیکن جب مسلمان اپنے تیر اندازوں کی غلطی کی وجہ سے دشمنوں کے گھیرے میں آگئے تو انھوں نے پانی کی مشک نیچے رکھ دی اور تلوار ہاتھ میں لے کر اللہ کے رسولﷺ کی حفاظت کرنے لگیں۔ حضورﷺ نے دیکھا کہ امِ عمارہؓ بغیر ڈھال کے لڑ رہی ہیں سامنے سے ایک انصاری گزرا۔ حضورﷺ نے اس سے فرمایا : ڈھال ان کی طرف پھینک دو۔ انھوں نے ڈھال پھینک دی۔ امِ عمارہؓ نے وہ ڈھال اٹھالی۔
جب مسیلمہ مردود نے حضورﷺ کو گستاخی سے بھرا خط بھیجا تو حضورﷺ نے اس کا جواب بھجوانے کے لیے امِ عمارہؓ کے دوسرے بیٹے حبیب بن زیدؓ کو منتخب فرمایا۔ حبیب حضورﷺ کا خط لے کر گئے تو اس جھوٹے اور مردود نے حبیبؓ کو زنجیروں میں جکڑوادیا اور ان کو بڑی اذیتیں دیں مگر انھوں نے سب کچھ خوشی سے برداشت کیا اور شہادت قبول کرلی۔
امِ عمارہؓ کو جب بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملی تو اللہ کی رضا کے لیے صبر کیا اور نذر مانی کہ اگر اسلام کا لشکر مسیلمہ سے جنگ کرنے کے لیے گیا تو وہ بھی اس میں شریک ہوں گی تاکہ اس مردود کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان کی اس نذر کے خیال سے حضرت ابوبکرصدیقؓ نے انھیں مسیلمہ سے جنگ کے لیے اسلامی لشکر میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔ ہر غزوہ کی طرح اس مرتبہ بھی ان کا بیٹا عبداللہؓ ان کے ساتھ تھا جو جہاد کے ساتھ ساتھ اپنے شہید بھائی کا بدلہ بھی لینا چاہتا تھا۔
امِ عمارہؓ اب ساٹھ سال کی ہوچکی تھیں۔ جسم کمزور ہوگیا تھا، وہ طاقت نہیں رہی تھی۔ دور سے جنگ کا منظر دیکھ رہی تھیں کہ یکایک ان میں جہا دکا جوش بھڑکا انھوں نے وہ تلوار ہاتھ میں لی جو حضور ﷺ کے زمانے میں آزمائی جاچکی تھی، اور آگے بڑھ کر دشمن پر حملہ کردیا۔ انھوں نے مسیلمہ کذاب کو تاک لیا تھا اور اسی کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ وہ زخم پر زخم کھاتیں اس کے پاس تک جاپہنچیں۔ ان کے جسم پر برچھی اور تلوار کے بارہ زخم تھے۔ ایک ہاتھ بھی کلائی سے کٹ گیا تھا، مگر انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ مجاہدوں کو آواز دیتی رہیں کہ مسیلمہ کذاب کو قتل کردو۔ اتنے میں بہادر مجاہدوں کا ایک دستہ آگے بڑھا۔ امِ عمارہؓ کے بیٹے عبداللہ اور وحشی آگے آگے تھے۔ وحشی نے نیزہ مارا جو سیدھا مسیلمہ کے لگا۔ امِ عمارہؓ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، پھر عبداللہ آگے بڑھے اور انھوں نے اس مردود کو اپنی تلوار سے قتل کردیا۔ امِ عمارہ شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر پڑیں۔
پھر امِ عمارہؓ مدینے واپس آگئیں۔ مگر وہ زخموں سے چور تھیں اسی میں ان کاانتقال ہوگیا، ان کے خاندان کے ایک فرد عبداللہؓ بچ گئے تھے۔ وہ بھی شہادت کے آرزو مند تھے۔ اللہ نے ان کی یہ آرزو یوم الحرہ کے موقع پر پوری کردی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں