اسلام میں خواتین کے خانگی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی حقوق اور دو جنسوں کے درمیان رشتوں کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاسکتا جب تک اسلام کو مکمل نظام کی حیثیت سے تسلیم نہ کرلیا جائے۔ یہ دین مردو خواتین دونوں کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے اس دین میں مردانہ اسلام یا زنانہ اسلام جیسی تقسیموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ توحید پر مبنی اس دین نے انسان کی ترقی کے لیے ہمہ گیر پروگرام دیا ہے جس میں نہ تو خواتین کو مرکزی حیثیت دے کر مردوں کو بے اختیار بنایا ہے نہ ہی مردوں کی مرکزی حیثیت مان کر خواتین کے حقوق ختم کیے گئے ہیں۔ بلکہ تمام انسانیت کی ترقی کے لیے ایک مشترکہ پروگرام پیش کیا گیا ہے۔ مردو خواتین ایک دوسرے کا تکملہ ہیں، حریف نہیں ۔ اختیارات کا مرکز اللہ کی ذات ہے اور انسان -مردو خواتین- دونوں اس کے خلیفہ ہیں اور اس کے احکامات کو نافذ کرنے کے مشترکہ ذمہ دار ہیں۔
عورت کے امپاورمنٹ کی اصطلاح فمنسٹ تحریکوں کا گڑھا ہوا لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں جنسوں کو یکساں طور پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔ اس لیے اسے اپنے حقوق کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مسلم عورت کے حقوق دبائے گئے ہیں تو وہ اس کے لیے جدوجہد کرے گی۔ قانونی لڑائی لڑے گی اور اسے حاصل کرے گی۔ اس لیے اگرچہ امپاورمنٹ کی اصطلاح غیر اسلامی ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خواتین کے جائز حقوق جو کسی فرد یا ادارے نے دبا رکھے ہیں انھیں واپس دلایا جائے۔ لیکن اسلام مرد و عورت کو دومخالف خیمے نہیں مانتا بلکہ دونوں کو ایک یونٹ کے طورپر پیش کرتا ہے اس لیے اسلام کی ایک کے لیے پلیٹ فارم فار ایکشن قائم کرنے کی جگہ پلیٹ فارم فار ایکشن فار آل کا داعی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ دو جنسوں کے الگ الگ وجود اور ان کی الگ الگ ضرورتوں کو بھی نہیں مانتا۔
وہ تمام معاشی سرگرمیاں جو ازروئے شریعت جائز ہیں عورت کے لیے بھی جائز ہیں۔ تجارت، زراعت، صنعت، صحافت، تدریس، طب، عدلیہ، انتظامیہ وغیرہ۔ شرط صر ف یہ ہے کہ ہر حال میں اسے اپنی عصمت و عفت اور حیا کی حفاظت کرنی ہے۔ اسلام عورت کی معاشی سرگرمیوں کی ہرگز حوصلہ شکنی نہیں کرتا لیکن اسلام عورت کی عزت و عفت، اور اس کی ماں اور بیوی کی حیثیت کی حفاظت کو ضروری قرار دیتا ہے۔
دین اسلام نے مختلف حیثیتوں میں عورت کی کفالت مردوں کے ذمہ کی ہے۔ بیٹی کے طور پر والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکی اس طرح بہتر تربیت کرے جیسے وہ بیٹے کی کرتا ہے۔ اس سلسلے میں متعدداحادیث وارد ہیں۔ اسی طرح بیوی کی حیثیت سے اس کے نان و نفقہ، مہر کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔ اگرچہ بیوی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے والی ہو اس کے باوجود یہ ذمہ ساقط نہیں ہوتی ہے۔ بیوی کی رہائش، لباس، کھانا پینا، صحت وغیرہ سب شوہر کے ذمہ ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رہائش بیوی کو ناپسند ہے اس کی رعایت کرنا چاہیے۔
عمل اور نظریہ میں دوری
ان تمام باتوں کے باوجود مسلم معاشرہ اسلامی تعلیمات کی جھلک نہیں پیش کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی میں تعاون اور محبت کی فضاکا فقدان ہے۔ احادیث اور صحابہ کے واقعات میں آتا ہے کہ نبیؐ اور صحابہ اپنے گھریلو کاموں میں خواتین کا تعاون کرتے تھے اور بچوں کے ساتھ رہ کر ان کی نگہداشت کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ یہاں تک کہ نبیؐ اپنے جوتوں کی مرمت خود ہی فرماتے تھے۔ آج مسلم معاشرے کے شوہر حضرات معمولی معمولی کاموں کے لیے اپنی بیویوں پر منحصر رہتے ہیں۔ جو سراسر غیر اسلامی روایت ہے۔ عورت کے لیے اپنے شوہر کی توقعات پوری کرنا صرف ایک دائرے تک ہی ضروری ہے لیکن عام طور پر مرد حضرات کی توقعات کی فہرست ناختم ہونے والی اور بلند وبالا ہوتی ہیں۔ گھروں میں عدم تعاون کا ماحول ہے، نیز عورتیں گھروں کا کام کرتی ہیں، بچوں کی تربیت کرتی ہیں ان کی ان خدمات کا اعتراف اور ستائش تو دور کی بات اس کے برخلاف خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ جو صحابہ کے اسوہ کے خلاف ہے۔
بعض علماء نے یہ سمجھ کر معاشی سرگرمیوں کی ذمہ داری مردوں پر ہے تو انھوں نے عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت سے ہی انکارکردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے باہر عورت کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ علماء بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے تعلیم کو صرف معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے نہیں فرض کیا ہے بلکہ اللہ کے دین کی خدمت اور معاشرے کی فلاح کے لیے بھی ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ معاشی جدوجہد صرف مردوں کی ذمہ داری ہے لیکن کہیں بھی عورتوں کو معاش کے لیے جدوجہد کرنے سے روکا یا منع نہیں کیا گیا ہے۔ اگر عورت بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہے تو یہ جائز رکھا گیا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ علماء اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورت کو بھی زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ہے۔ اور خلافت کا مشن پورا کرنا اس کی ذمہ داری بھی ہے۔ مزید یہ کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے اقتصادی سرگرمیوں کو اگر وہ اسلامی آداب کے تحت ہیں تو انھیں بھی عبادت کا درجہ دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور مسئلہ پر بعض علماء کی تشریحیں مسلم گھرانوں میں مطلق العنان فضا پیدا کرنے کی محرک بن رہی ہیں۔ یہ ماننا کہ مردوں کو بچوں اور عورتوں پر فوقیت دی گئی ہے قرآن کے الفاظ میں مرد قوام ہیں۔ لیکن اس قوام کا مطلب یہ ہے کہ مرد حضرات گھروں میںاپنی عورتوں اور بچوں کے نگہبان ، محافظ بنائے گئے ہیں۔ ان کی ذمہ داری صرف پیسہ کمانا ہی نہیں بلکہ عورت کی عزت اور وقار کا تحفظ بھی ہے۔ لیکن یہ علماء اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ مردوں کو ذمہ داری دی گئی ہے برتری نہیں!
اسی طرح بعض علماء کا یہ خیال کہ مسلم خاندان صرف والد پر مرکوز ہے، غلط ہے۔ مسلم خاندان میں مردوں کو صرف سربراہی کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ نہ کہ خواتین پر غالب اور آقا کی حیثیت! احادیث اور اسوئہ صحابہ اس سے مختلف ہیں۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے خوشگوار ازدواجی رشتے اس کی سراسر نفی کرتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ افہام و تفہیم اور مشاورت پر مبنی ہے۔
ٹھیک اس کے برخلاف ایک اور غیر اسلامی رجحان مسلم گھروں میں داخل ہوگیا ہے۔ جو فیمنسٹ کلچر سے متاثر ہے۔ نئی نویلی دلہن اور دوشیزائیں آج کل اپنے گھر کے معاملوں میں کم باہری دنیا سے ضرورت سے زیادہ ہی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مغربی لباس پہننا، اور مہنگی کاسمیٹکس استعمال کرکے سڑکوں پر توجہ کا مرکز بن رہی ہیں۔ انھیں اسلامی آداب کا خیال ہے اور نہ ہی شریعت کا اور نہ ہی انھیں اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی فکر ہے۔ ان کے لیے بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں جیل کی سلاخیں محسوس ہوتی ہیں۔ ایسے گھرانوں میں بچے مصروف والدین کی بے توجہی سے بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اسلامی خاندان کا مقصد ہی تباہ ہوجاتا ہے۔
عورت اور معاشی سرگرمیاں
٭ اسلام نے عورت کی اقتصادی پوزیشن بیٹی، بیوی اور ماں وغیرہ کی حیثیت سے پوری طرح محفوظ رکھی ہے۔
٭ نان و نفقہ جس میں غذا، لباس، رہائش، تعلیم اور عمومی ضرورتیں شامل ہیں، عورتیں اس حق سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
٭ عورت کو اپنی ملکیت رکھنے کا، مہر،وراثت میں حصہ کا اور اس کے ساتھ خود اپنی معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔
٭ اگرچہ عورت کی معاشی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے۔ اس کے باوجود عورت اسلامی حدود کے ساتھ اپنی معاشی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی وہ اپنی ’’بیوی اور ماں‘‘ کی ذمہ داری کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔فیمنسٹ نقطہ نظر کے برخلاف اسلام نے عورتوں پر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا لازمی نہیں رکھا ہے۔ عورت اور مرد دونوں کو زمین پر اللہ کا خلیفہ مقرر کیا گیا ہے۔ دونوں اس امر میں برابر کے شریک ہیں۔ اور معاشرے کی ترقی کے لیے ذمہ دار ہیں۔
٭ فیمنسٹ نقطہ نظر کے برخلاف عورت خواہ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے یا نہیں۔ اسے معاشرے اور خاندان میں باوقار اور محفوظ منصب عطا کیا گیا ہے۔ کیونکہ اسلام میں خاندانی منصب اور مرتبہ طے کرنے میں معاشی سرگرمیوں کا کوئی کردار نہیں رکھا گیا ہے۔ کسی عورت اور مرد کے مقام کا تعین کرنے کے لیے صرف تقویٰ کا معیار طے کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود عورت کی معاشی سرگرمیوں کی اسلام میں نظر اندازی یا حوصلہ شکنی نہیں کی گئی ہے۔ کیونکہ یہ زندگی کا ایک حصہ ہیں اور عبادت ہیں۔
٭ اسلامی تعلیمات ایک طرف اور مسلم معاشرے کا عملی رویہ ایک طرف دونوں کے درمیان ایک خلیج ہے۔ جو اجازتیں اسلام نے عورتوں کو دی ہیں انھیں مسلم معاشرے میں یا تو دیا نہیں جاتا یا اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات اور مسلم معاشرے کی غلط اور غیر اسلامی روایات کے درمیان فرق کرنا بہر حال لازمی ہے۔کچھ علماء خاندان اور معاشرے میں عورت کے مرتبہ اور منصب کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ قرآن و سنت کے بارے میں ان کی تنگ نظر تشریحیں، غیر صحت مند ماحول پیدا کررہی ہیں اور خاندان میں مردوں کے تسلط اور حاکمیت کی فضا بناتی ہیں جبکہ عورت محض تابع اور رعایا بن کر رہ جاتی ہے۔
یہ لوگ عورت کی گھر کے باہر کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے خواہ یہ معاشی سرگرمیاں ہوں یا تہذیبی، ثقافتی یا تحریکی۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس طرح کی تحریروں اور کتابوں کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور قرآن و سنت کی وسیع اور جامع تشریح اس کے پس منظر میں کی جائے۔کچھ مسلم دانشوروں کی سیکولر تحریریں اور فیمنسٹ تحریک کے گمراہ کن نظریات بھی مسلم خاندانوں اور معاشرے کو متاثر کررہے ہیں۔ کہیں عورتیں اپنے بیوی اور ماں کے منصب سے غافل ہیں اور ان کی ساری توجہ سڑکوں پر مرکز توجہ بنے رہنے اور معاشی سرگرمیوں میں لگی ہیں۔ جس کے نتیجے میں خاندان کا بنیادی مقصد فوت ہوتا جارہا ہے۔
سیاست میں عورت
٭ اسلام نے عورت کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔ اگرچہ بعض علماء نے عام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نااتفاقی ظاہر کی ہے لیکن اکثر علماء اس پر متفق ہیں کہ عورت سیاست میں حصہ لے سکتی ہے۔
٭ عام سیاسی سرگرمیوں میں ووٹ دینے کا حق، پارٹی میں شامل ہونے کا حق، پارٹی کے لیے مہم چلانے کا حق، امیدوار بننے کا حق، مقامی یا قانون سازی دونوں سطح پر- وزارت پر آنے کا حق ہے۔ البتہ سربراہِ مملکت یا ریاست کے اعلیٰ ترین منصب صدر یا وزیر اعظم اس سے مستثنیٰ ہیں۔
٭ سربراہ کے طور پر عورت کی امیدواری بے حد اختلافی موضوع ہے۔ جس پر آج مسلم علماء اور مفکرین کو مزید غوروفکر اور تحقیق کی ضرورت ہے۔
٭ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواہ خواتین کی سیاسی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے لوگ، اسے سربراہِ مملکت بنانے سے اتفاق کرتے ہوں یا نہیں۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ’’خاندان‘‘ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماں اور بیوی کی حیثیت سے خاندان میں اس کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوسکتیں۔ البتہ مرد حضرات گھریلو معاملات میں عورت کا تعاون کریں تاکہ عورت بھی سیاسی سرگرمیوں میں اس کے شانہ بشانہ چل سکے۔یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی عبادت ہے۔ کیوں کہ اسلام نے خاندان اور ریاست میں فرق نہیں رکھا ہے۔ لیکن سیاسی سرگرمیوں میں عورت کی شرکت کی قیمت خاندان کے انتشار سے ادا نہیں کی جاسکتی۔ چونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے میں دونوں لوگ ایک دوسرے کے شریک بنائے گئے ہیں اس لیے سیاسی سرگرمیوں میں عورت کی شرکت کو پوری طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں حضرات باہمی تعاون کے ذریعہ گھر اور ریاست دونوں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
تعلیم اور مسلمان عورت
٭ اسلام نے خواتین اور مرد دونوں کو حصول تعلیم کے یکساں حقوق عطا کیے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنا دونوں پر فرض قرار دیا گیا ہے۔اسلام کا تعلیمی فلسفہ مغرب کے تعلیمی فلسفے سے بالکل جدا ہے۔ اسلام کے مطابق حصول تعلیم کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور تمام زندگی میں اس کے احکامات کی فرمانبرداری کرنا ہے۔تعلیم کے بارے میں اسلام کا نظریہ جامع ہے۔ اس کے یہاں جدید اور مذہبی تعلیم جیسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ جیسا کہ مغربی تعلیم میں ہے۔ اس لیے اسلام کے تعلیمی نقطہ نظر میںاللہ کا عرفان اور اس کی صفات کے شعور کے ساتھ حیاتیات، ٹیکنالوجی وغیرہ بھی شامل ہیں۔ کسی بھی تعلیمی شاخ میں مرد و خواتین کی تفریق نہیں رکھی گئی ہے۔
٭ حصولِ تعلیم کو بھی عبادت کا درجہ عطا کیا گیا ہے۔ تعلیم کو معاش کا ذریعہ نہیں بلکہ شخصیت کے ہمہ گیر ارتقاء کے لیے لازمی جز قرار دیا گیا ہے۔
٭ تعلیم کے بغیر مرد یا خواتین اپنی تخلیق کے مقصد کو ہی پورا نہیں کرسکتے۔
٭ بچوں کی بہتر تربیت اور تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ صرف والدہی نہیں بلکہ والدہ بھی تعلیم یافتہ ہو۔
جنس، تولید اور گھریلو حقوق و فرائض
اسلام نے ہر طرح کے قبل از ازدواج جنسی تعلقات کو ناجائز اور حرام اور شوہر کے علاوہ دوسرے لوگوں سے جنسی تعلقات کو بدکاری قراردیا ہے۔
اسلام نے جنسی ضرورت کو زندگی کا ضروری حصہ تسلیم کیا ہے۔ لیکن روحانیت اور اخلاقی حدود کے باہر ہونے والے جنسی عمل، جو حیوانیت سے مشابہ ہے اس میں اور پاکیزہ جنسی عمل میں فرق کیا ہے۔ اخلاق و روحانیت کے مطابق ہونے والے جنسی عمل کو عبادت کادرجہ حاصل ہے۔ اس موضوع پر اسلام کا نظریہ ذیل کے نکات پر مبنی ہے۔عورت کو جنسی عمل اور تولید کے یکساں حقوق سے نوازا گیا ہے۔
٭ بہتر جنسی عمل اور تولیدی صحت کے لیے نکاح کا قیام ضروری ہے۔
٭ گمراہ کن جنسی طریقے جیسے لبیس، ہم جنسی، بین جنسی تعلقات کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
٭ مصنوعی طریقہ سے کسی اجنبی کامادہ تولید اختیار کرنا اور اس کے ذریعہ تولید کو زنا کے برابر گناہ قرار دیا گیا ہے۔
٭ غیر فطری طریقے سے حمل ٹھہرانا بھی ناجائز ہے۔
٭ Surrogat Motheringکرائے پر کوکھ دینا وغیرہ بھی حرام ہے۔
٭ ابارشن یعنی حمل ضائع کرنے کی صرف ایک صورت جائز ہے اگر ماں کی جان کو خطرہ ہے تو حمل ضائع کیا جاسکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں فیمنسٹ تحریکوں کے ایجنڈے میں محفوظ سیکس، محفوظ ابارشن، بغیر شادی کے جنسی تعلقات جیسے عمل کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ تحریکیں ابارشن کے ذریعہ بچے کو قتل کرنے کا جواز حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ آج کل مغربی ممالک ابارشن کی اجازت کے بعد ڈاکٹر حضرات نزلہ زکام سے زیادہ ابارشن میں مصروف رہتے ہیں۔ ابارشن کے سارے طور طریقے درندگی اور حیوانیت کی حدوں کو تجاوز کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود فیمنسٹ تحریکوں کا مطالبہ ہے کہ ابارشن کی سہولت ہر گاؤں ، دیہات اور ہر خاتون تک بہم پہنچائی جائے۔
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق جنسی عمل پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور امراض سے محفوظ رکھتا ہے لیکن اسی حیوانی جنسی انقلاب نے جنسی حیوانیت کے بدسے بدتر طریقے ایجاد کردئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایڈس اور دوسرے امراض تیزی سے انسانی آبادی کو ہلاک کررہے ہیں۔
عمل اور نظریہ میں تفریق
مسلم معاشرہ تعلیم، صحت اور جنسی عمل کے سلسلے میں بھی بے عملی کا شکار ہے۔ مقامی کلچر اور رسوم ورواج کو اسلام کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مسئلہ صرف اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کی حصہ داری ہی کا نہیں تعلیم کے سلسلے میں بھی مردوں کا رویہ نامناسب اور غیر اسلامی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیمی وسائل فراہم کرنے میں تفریق برتی جاتی ہے۔ چونکہ لڑکی معاشی جدوجہد نہیں کرتی ہے اس لیے اسے اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی نہیں دئے جاتے۔
اسی طرح تولیدی اور جنسی صحت کا معاملہ ہے۔ جنسی رویے میں غیر اسلامی معاشروں کا اثر اسلامی آداب سے انحراف ہے۔ جس سے مسلم معاشرے کی خواتین کی تولیدی صحت متاثر ہورہی ہے۔
ان سبھی مسائل کا تجزیہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ بعض علماء اور مقامی کلچر نے مل کر غیر اسلامی نقطہ نظر کو اسلامی بنا کر پیش کردیا ہے۔ دوسری جانب مغربی تہذیب اور گمراہ کن فیمنسٹ تحریک ایک دوسری انتہا پر مسلم معاشرے کو بہکا کر لے جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے جو حقوق اور ذمہ داریاں خواتین کے سپرد کی ہیں کہیں مرد حضرات ان حقوق کو دینے میں بخل کررہے ہیں کہیں عدم تعاون کی فضا ہے اور کہیں خواتین کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس کے لیے ذمہ دار ہے۔lll