امی کا گھر

منصور الحسن

اس مراد یہی لگتا ہے وہ گھر جہاں امی رہتی ہوں… جی ہاں … مگر گھر میں ابو بھی تو ہوتے ہیں تو پھر امی کے گھر پر اصرار کیوں؟ جبکہ ابو کی حیثیت دینی اور معاشرتی اعتبار سے مسلم ہے کہ مرد کو قوام کی حیثیت سے برتری حاصل ہے۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترکیب عام طور پر شادی شدہ خواتین استعمال کرتی ہیں۔ اکثر اس قسم کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں … ’’ظفر! آپ اپنی امی کو بتادیں کہ میں امی کے گھر جارہی ہوں۔‘‘ یا یہ کہ ’’عامر! ہمیں امی کے گھر گئے ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ چلیں نا!‘‘ اب عامر صاحب اگر تابع فرمان قسم کے شوہر ہیں تو فوراً چل پڑیں گے۔ اگر سخت مزاج ہیں یا کوئی مجبوری ہے تو فوری طور پر ایک طوفان پیدا ہونے کے امکانات سو فیصد ہیں۔

اگر ظفر کی امی کشادہ دل ہیں تو وہ بیوی سے کہیں گے کہ ’’بھئی ان سے آپ خود کہہ دیں۔‘‘ ویسے عام طور پر ظفر صاحب کو بیگم کا فرمان اپنی امی سے کہتے ہی بن پڑتی ہے اور اکثر اس کوشش میں وہ دو کشتیوں کے سوار بن جاتے ہیں۔ ایک طرف ماں کا ادب۔ دوسری طرف بیگم کا نادر شاہی فرمان … نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔

عموماً خاتون خانہ کے منہ سے ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں … ’’امی کے گھر کا لان کتنا اچھا تھا…‘‘ بھئی ٹی وی تو امی ہی کا ہے۔‘‘ یا ’’امی کا صحن کتنا بڑا ہے…۔‘‘ یا پھر’’امی کا صحن کتنا بڑا ہے…‘‘ یا پھر یہ کہ ’’ہم کیوں نہ امی کے گھر ہی شفٹ ہوجائیں!‘‘ یا یہ کہ ’’گھر کیوں نہ امی کے گھر کے نزدیک لیا جائے!‘‘ خاوندسسرال سے خواہ کتنا ہی گریزاں ہو، ’’امی کے گھر‘‘ کی گھڑکی ملتے ہی اس کی ترکی تمام ہوجاتی ہے۔

ہمارے ایک جاننے والے ہیں جن کی بیگم سسرال میں اکثر اپ سیٹ رہتی ہیں، مگر امی کے گھر جاکر ایسا فریش محسوس کرتی ہیں کہ گویا امی کا گھر وہائٹ ہاؤس کا لان ہے۔

بیگم کی ’’امی کے گھر‘‘ سے وابستگی اپنی جگہ درست مگر اس میں ذرا اعتدال رہے تو کیا یہ بہتر نہیں؟ ہم نے مثبت جملہ دانستہ استعمال نہیں کیا کہ فساد فی سبیل اللہ کے قائل نہیں، البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ تین الفاظ جنگ عظیم نہ سہی سرحدی جھڑپوں کے برپا کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔اس کی شدت فریقین کی صلاحیت پر منحصر ہے۔

ہم قانون کی تعلیم تقریباً مکمل کرچکے ہیں اس لیے یہ قانونی مشورہ مفت پیش کرتے ہیں کہ ’’امی کے گھر‘‘ کے الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے، جذبات پر قابو رہے، سسرال کو سسرال سمجھنا چھوڑ دیا جائے اور بیچارے ابو المعروف ڈیڈی کی امی کو بھی امی سمجھا جائے تو بہت سے خانگی مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آتی ہے جب بہو ’’امی کے گھر‘‘ جانے کی اجازت مانگ کر لیکچر سن رہی ہو اور اچانک بیٹی آجائے، چاہے دو روز کے بعد ہی کیوں نہ آئے، تو ساس کے منہ سے ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں:

’’ہائے بیٹی! کتنے دنوں کے بعد آئی ہو!‘‘ ادھر بہو نے خواہ ایک مہینے بعد اجازت مانگی ہو۔‘‘

قصہ مختصر ’’امی کے گھر‘‘ کے الفاظ کا مناسب استعمال دو طرفہ جذبات کے لحاظ کے ساتھ گھریلو محاذ پر سکون کی ضمانت ہے۔ ویسے ان دنوں ’’امی کے گھر‘‘ کی ترکیب بعض ایسے شوہر بھی استعمال کرتے ہیں جنھوں نے سسرال کے ہاں یا کہیں الگ جا بسیرا کیا ہو اور ان کے ابا کی رحلت کرچکے ہوں۔ خانہ زاد شوہر کے منہ سے تو ’’امی کے گھر‘‘ کے الفاظ خوب جچتے ہیں لیکن اگر معاملہ دوسرا ہو تو پھر ’’میری امی کا گھر‘‘ کا سہارا لیا جاتا ہے ورنہ مفہوم الٹنے سے شدید غلط فہمی کا احتمال ہوتا ہے جو پانی پت کی چوتھی جنگ کا منظر بھی پیش کرسکتی ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146