حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحب زادی اور آں حضرتؐ کی سب سے محبوب زوجہ مطہرہ نرم دل، خوش مزاج اور فیاض ہستی ہیں۔ وہ انتہائی صبر کرنے والی علم دین کا چلتا پھرتا مدرسہ اور مختلف علوم و فنون میں معرفت رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت عائشہؓ کے ذریعے نصف انسانیت کو علم دین کا منبع بنا دیا۔
ایک مرتبہ ابن زبیرؓ نے آپؓ کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے۔ آپؓ اس دن روزے سے تھیں۔ سارے درہم اسی وقت تقسیم کردیے۔ جب شام ہوئی تو کسی نے کہا یا ام المومنین! اس رقم سے افطار کے لیے کچھ گوشت ہی لے لینا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: ’’تم نے یاد تو دلا دیا ہوتا۔‘‘ ذرا غور فرمائیے آپؓ بھوکی، پیاسی اور روزے سے تھیں لیکن آپؓ کے نزدیک اپنے سے زیادہ مستحقوں کی اہمیت تھی۔
تاریخ و احادیث کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں کہ آپؓ بڑی بہادر خاتون تھیں۔ غزوۂ خندق میں جب مسلمان چاروں طرف سے مشرکین کے حلقے میں گھرے ہوئے تھے اور شہر کے اندر یہودیوں کے حملے کا خطرہ تھا تب وہ بے خطر شہر سے نکل کر نقشۂ جنگ کا معائنہ کیا کرتی تھیں۔ غزوۂ احد میں جب مسلمانوںپر مشکل وقت تھا تب حضرت عائشہ اپنی پیٹھ پر مشکیزہ لادے زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ آپؓ جنگی خدمات کے ساتھ ساتھ خانگی زندگی کی خدمات میں بھی پیش پیش رہیں۔ اس کی مثال اس واقعے سے ملتی ہے کہ جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے طے ہوا (حضرت فاطمہؓ آپؓ کی سوتیلی اولاد تھیں) تب اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہؓ نے خاص طور پر انتظام کیا۔ گھر کو صاف کیا، بستر لگایا، کھجور کی چھال دھن کر تکیوں میں بھری اسی طرح کے کئی کام انجام دیے۔ آج ہمارا معاشرہ میں چند ایسی مائیں ہیں جو اپنی سوتیلی اولاد کے ساتھ بہت برے سلوک سے پیش آتی ہیں۔ عصر حاضر کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم بھی ان کے اس کردار سے واقف ہوں، تاکہ دنیا میں ظلم و ستم کا نام و نشان نہ رہے اور خانگی زندگی میں سکون و قرار رہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے لیے وہ مشعل راہ ہیں جنہوں نے اپنے کردار اپنے عمل اور اپنے حسن اخلاق سے مومنات کے لیے اسلامی زندگی کا بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔
حضرت عائشہؓ ہر قسم کی آزمائشوں سے بہ حسن و خوبی نبرد آزما ہوئیں۔ اور دنیا کی عورتوں کے لیے مشعل راہ بن گئیں۔ سورہ احزاب کی یہ آیت: ’’اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم کو دنیاوی زندگی اور اس کی آرائش مطلوب ہیں تو آؤ میں تم کو اچھی طرح رخصت کردوں اور اگر اس کا رسول اور آخرت پسند ہے تو تم میں سے نیک عورتوں کے لیے اللہ نے بڑا ثواب رکھا ہے۔‘‘ جب نازل ہوئی تو آپؐ حضرت عائشہؓ سے کہا کہ والدین سے مشورہ کر کے جواب دے دیں تو حضرت عائشہؓ صدیقہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں والدین سے کس بات پر مشورہ کروں۔ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ نے جو کردار عصر حاضر کی خواتین کے لیے نمونہ کے طور پر چھوڑا ہے وہ خاص طور پر بڑا اہم ہے۔ موجودہ معاشروں میں جہاں خواتین نے آزادی اور مردوں سے بغاوت کا علم اٹھا رکھا ہے، جہاں شیطان کے ہتھکنڈوں کو اپنا کر بے حیائی کو عام کیا جا رہا ہے دنیا کی چمک دمک اور عیش و عشرت کو زندگی کا حاصل سمجھ لیا گیا ہے اپنی خواہشوں کو مارنے والی خواتین کی گنجائش کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اس برائی کا خاتمہ کرنے کی ذمہ داری ایک مسلم خاتون کی ہے بلکہ پورے سماج کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کردار کو عام کیا جاسکے۔ اس بے حیائی کو روکا جاسکے، ان کے اخلاق، عادات و اطوار، صبر وتقویٰ اور پرہیز گاری کو اپنایا جاسکے۔
مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’مردوں میں بہت سے کامل گزرے لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اورفرعون کی بیوی آسیہ کے علاوہ کوئی اور کامل نہیں ہوئی او رعائشہؓ کو عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے، جس طرح ثرید کو دوسرے قسم کے کھانوں پر۔‘‘
حضرت آسیہ فرعون جیسے ظالم بادشاہ کی بیوی تھیں۔ حضرت موسیٰ پر ایمان لائیں، فرعون نے ان پر بڑے بڑے ظلم ڈھائے لیکن وہ مضبوطی سے اسلام پر جمی رہیں۔ سیدہ فاطمہؓ حضور ﷺ کی پیاری بیٹی اور خاتون جنت ہیں کہ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ فاطمہؓ سے بڑھ کر نبیؐ سے مشابہ کوئی اور نہ تھا۔
حدیث کے مطابق ان محترم ہستیوں کی بڑائی اور بزرگی مسلم، ان سب سے محبت کرنا ہمارا ایمان، بے شک یہ سب اپنی کسی خاص خوبی میں اپنا جواب آپ ہیں۔ لیکن غور فرمائیے ان میں بھی وہ کون خاتون ہے جس نے دین، اخلاق او رتقدس کے ساتھ ساتھ مذہبی، علمی، سیاسی، سماجی اور اسی طرح کے دوسرے فرائض انجام دیے ہوں، حضرت عائشہ کی طرح دین و شریعت کو کھول کھول کر بیان کیا ہو، قرآن اور احادیث کی تعلیم کو عام کیا ہو، زندگی کے ہر شعبے میں خدا پرستی کے نمونے چھوڑے ہوں، اپنی ہم جنسوں کو حقوق دلانے میں پیش پیش رہی ہوں، بارگاہِ رسالت میں ان کی بہترین وکالت کی ہوں اور اپنے بعد اسے شاگرد چھوڑے ہوں جو اپنے وقت کے امام کہلائے اور مجموعی حیثیت سے ایسی جامع کمالات ہوں جیسی حضرت عائشہؓ ہیں۔
آخر کوئی تو وجہ ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: عائشہ سے سیکھو، اسے عورتوں میں اسی طرح بڑائی حاصل ہے جس طرح کھانوں میں ثرید کو۔
اس جائزے کے بعد ہم دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ مجموعی حیثیت سے دنیا کی عورتوں کے لیے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ہی عظیم نمونہ ہیں۔
موجودہ دور میں جب مسلم عورت سماجی، معاشرتی، سیاسی تعلیمی اور دعوتی میدانوں میں حاشیہ پر ہے۔ حضرت عائشہؓ کی زندگی اور اس کے مختلف گوشے مسلم عورت کے لیے آگے بڑھنے، علم و فضل میں کمال حاصل کرنے، سیاسی، سماجی اور دینی خدمات کی انجام دہی کے لیے تحریک دلانے کا ذریعہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کی زندگیوں