ام المؤمنین حضرت حفصہؓ عمر بن الخطابؓ کی صاحبزادی ہیں۔ جو آنحضرت ﷺ کے خلیفہ دوم تھے۔ ابتدائے اسلام ہی میں مسلمان ہوئیں۔ مدینہ منورہ میں ۳ ہجری میں حضور اکرم ﷺ کے نکاح میں آئیں۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہؓ سے چار سو درہم مہر پر شادی کی تھی۔ اس وقت ان کی عمر بیس سال تھی۔ حضرت حفصہؓہجرت سے پہلے اسلام لانے والوں میں شامل تھیں انھوں نے اپنے پہلے شوہر خنسؓ کے ساتھ بالکل ابتدا ہی میں مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی۔ جس وقت پیارے نبی ﷺ کو نبوت ملی اس وقت ان کی عمر پانچ سال کی تھی۔ ان کے پہلے شوہر حضرت خنس بن حذافہؓ تھے جو غزوہ بدر اور احد دونوں میں شریک تھے۔ اور احد میں شہادت پائی۔ ان کی شہادت ہوجانے پر بی بی حفصہؓ کی عدت ختم ہوگئی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کرلیا۔ یہ نکاح حضرت عائشہؓ کی رخصتی کے بعد ہوا۔ ام المؤمنین حضرت حفصہؓ سات سال تک حضور ﷺ کے نکاح میں رہیں۔ آپ کی زندگی حضور ﷺ کے گھر نہایت خوشگوار تھی۔ وہ خود اتنی خوش اخلاق تھیں کہ مشکل سے ان سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچی تھی۔ یہی خصوصیت تھی جس کے نتیجے میں تمام ازواجِ مطہرات بھی ان سے خوش اور ان کی مداح رہتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ میں بہت گہری دوستی تھی۔ چنانچہ آنحضورﷺ ایک مرتبہ عادت کے برخلاف دونوں ازواج مطہرات کو ایک غزوہ میں اپنے ساتھ لے گئے۔ بدر کی عظیم لڑائی کے بعد مکہ والوں سے مسلمانوں کی کئی جنگیں ہوئیں۔ اور متعدد مقابلوں کے بعد قریش اور ان کے حلیفوں کی طاقت اتنی ٹوٹ چکی تھی کہ آنحضورﷺ کے مجاہدوں نے سرکش قبیلوں کو سبق دینا شروع کیا۔ دومۃ الجندل کا قبیلہ اسلام کے خلاف سر اٹھا رہا تھا، تو آپؐ نے انھیں سبق سکھایا۔ اور ان پر جزیہ نافذ کرکے واپس آگئے۔ مدینہ کے قریب آباد یہودیوں نے آپؐ کے خلاف شورش کی تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی گئی اور ان سے تاوان لیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان اب عرب کی طاقت بن چکے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات نے سوچا کہ اب مال و دولت کی کوئی کمی نہیں۔ اللہ نے مسلمانوں کو خوب دیا ہے اس میں ان کا بھی حق ہے۔ چنانچہ تجویز یہ ہوئی کہ سب جمع ہوکر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اور آپؐ پر زور دیں کہ نان و نفقہ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ خیال حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ کے دل میں خاص طور سے آیا اور انھوں نے باقی ازواجِ مطہرات کو بھی اپنا ہم خیال بنالیا۔ جب ازواجِ مطہرات ایک گروپ کی شکل میں آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچیں اور آپؐ کے سامنے اپنا کیس پیش کیا تو پہلے آپؐ نے ان کی باتیں بڑی توجہ سے سنیں اور پھر آپؐ خاموش ہوگئے۔ ازواجِ مطہرات نے آنحضورﷺ کے سامنے اپنے خرچ بڑھانے پر اصرار کیا تھا۔ اس لیے آنحضورﷺ نے اس سے دل برداشتہ ہوکر ازواجِ مطہرات سے علیحدگی اختیار کرلی اور ایک بالا خانے میں قیام پذیر ہوگئے۔ اس اچانک تبدیلی پر مدینہ بھر میں یہ افواہ اڑگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ازواجِ مطہرات کو طلاق دے دی ہے۔ یہ خبر مسلمانوں کے لیے شدید صدمہ کا باعث بنی۔ ایک صاحب حضرت عمرؓ کے گھر پہنچے اور زور زور سے دروازے پر دستک دینی شروع کردی، حضرت عمرؓ گھبرا کر باہر نکلے کہ شاید مدینہ پر کوئی بڑی مصیبت نازل ہوگئی ہے۔ جب باہر آئے تو یہ افسوسناک خبر سنی کہ آنحضورﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے۔ وہ دوڑتے ہوئے حضرت حفصہؓ کے گھر پہنچے وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ حیران تھے کہ کیا کریں اپنی صاحبزادی سے خبر کی تصدیق کرنی چاہی تو انھوں نے کہا طلاق کی خبر کے بارے میں انھیں معلوم نہیں۔ البتہ اتنا معلوم ہے کہ آنحضورﷺ نے اپنی تمام ازواج سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ عمرؓ رسول اللہ ﷺ کے کمرے میں تشریف لائے۔ آنحضورﷺ ایک چٹائی پر لیٹے تھے۔ اس کے نشانات آپؐ کے جسم مبارک پر پڑگئے تھے۔ حضرت عمرؓ یہ دیکھ کر روپڑے۔ پیارے نبی ﷺ نے حیرت سے اس اضطراب کی وجہ پوچھی تو عمر ؓ اپنے احساسات نہ چھپا سکے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی یہ سخت زندگی دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکا۔ آنحضورﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپؐ نے حیرت سے کہا: ’’عمر! بڑے افسوس کی بات ہے، کیا تمھیں اللہ کے وعدے پر شبہ ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے اس جواب پر شرمندگی سے اپنا سر جھکالیا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگی۔ پھر حضرت عمرؓ نے ازواجِ مطہرات کی طلاق کے بارے میں پوچھا تو حضورﷺ نے انکار کیا۔ اس پر آپ نے رسول کریم کے کمرے سے جلدی نکلنے کی کوشش کی کیونکہ باہر مسجد میں منتظر مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنانی ہے کہ حضورﷺ نے اپنی ازواج کو طلاق نہیں دی ہے۔ یہ واقعہ تاریخِ اسلام کا اہم ترین واقعہ بن گیا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک آیت نازل کی اور امہات المؤمنین کو اس کا اختیار دیا گیا کہ اگر انھیں دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتیں عزیز ہیں تو وہ رسولؐ کے ساتھ نہیں رہ سکتیں، اور اگر آخرت کی زندگی انھیں عزیز ہے تو پھر دنیا کی لذتوں کی بات چھوڑ دیں اور رسولؐ اللہ کے ساتھ رہیں۔ ظاہر ہے کہ امہات المؤمنین نے آخرت کی زندگی کو ترجیح دی۔ حضرت حفصہؓ نماز اور روزہ سے بہت شغف رکھتی تھیں، سرورِ کائنات ﷺ نے ایک بار ان کو ایک (رجعی) طلاق دے دی تو جبرئیل ؑ نے آکر عرض کیا کہ حضورؐ حفصہؓ کو اپنے نکاح ہی میں رکھیں کیوں کہ وہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور راتوں کو بہت زیادہ نماز پڑھنے والی ہیں اور جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی چنانچہ پیارے نبی ﷺ نے رجعت فرمائی یعنی ان کو اپنے نکاح میں ہی رکھا۔ ازواجِ مطہرات اور خاص طور سے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہؓ کے ذریعہ اسلامی شریعت کے بہت سے احکام واضح ہوتے ہیں۔ حضرت حفصہ ؓ ذہین بھی تھیں اور جری بھی خود ان کے کئی اقدامات ایسے ہیں جن کے سبب خداوند تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بعض خصوصی احکام جاری ہوئے۔
حضرت نافعؓ کا بیان ہے۔ حضرت حفصہؓ نے اس حال میں وفات پائی کہ روزہ پر روزہ رکھتی تھیں۔ حضرت حفصہؓ نے ۴۵ھ میں وفات پائی۔ آپ کے جنازہ کی نماز مدینہ کے گورنر مروان بن حکم نے پڑھائی۔ ابوہریرہؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرامﷺ اس میں شریک تھے۔ پھر آپ کو بقیع میں دفن کیا گیا اس وقت آپ کی عمر ساٹھ سال سے کم تھی