انار کا پودا

محمد طارق ،کولہا پور

عارفہ پرائمری اسکول کے ماسٹر عبدالکریم کی بڑی بیٹی تھی۔ وہ خوبصورت تو تھی ہی، مگر شباب کا ملمع جب اس پر چڑھا تو حسن دوبالا ہوگیا۔
جوانی کی بہارمیں حسین درخت پر پاس پڑوس سے پتھر آنے لگے۔ لیکن کوئی پتھر ٹھیک نشانے پر نہیں لگا۔ ویسے تو شکاری بھی نشانچی تھے مگر ان سے زیادہ چالاک اور ہوشیار عارفہ کے والدین تھے — ’’درخت کے رکھوالے۔‘‘
آج عبدالکریم کے ہاں دو پتھر آئے تھے۔ ایک پتھر پرائمری اسکول کے ماسٹر عبدالوہاب کا تھا اور دوسرا زمیندار عابد خان کا۔
عبدالوہاب شریف النفس بھی تھا اور خوبصورت و توانا جواں مرد بھی جبکہ عابد خان زمیندار سیٹھ عبدالوہاب کا اکلوتا فرزند تھا۔ عبدالکریم نے اس پتھر کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر حجرِ اسود کی طرح عقیدت سے چوم لیا اور اپنی بیوی سے کہا: ’’بیگم یہ وہ پتھر ہے جو عارفہ کی زندگی کو سنوار دے گا — بالکل پارس ہے پارس —اسے دو منزلہ پختہ بلڈنگ، خادمہ، اعلیٰ لباس اور پہننے کے لیے سونے چاندی کے بہترین زیوارت، زندگی میں آرام اور سکھ چین دے گا۔‘‘
یہ سن کر بیگم نے حامی بھرنے میں بالکل دیر نہیں لگائی تھی اور عارفہ وہ تو اپنے ہونے والےسرتاج کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی اس لیے اس کے ذہن میں عابد کی کوئی امیج نہیں بن پائی تھی۔ ہاں تصور میں عابد اسے ایک بااخلاق، نیک سیرت اور سمجھ دار آدمی لگ رہا تھا۔
اپنے اسی تصور کو ذہن میں سنبھالے وہ دلہن بنی۔ دولہے والوں کی جانب سے لائے گئے سونے چاندی کے قیمتی زیورات سے اسے لاددیا گیا۔
اس کے والدین اپنی دختر کو سر سے پاؤں تک زیورات میں لدی پھندی دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ نہایت پُرمسرت انداز سے انھوں نے عارفہ کو وداع کیا۔
عارفہ عابد خاں کے ہمراہ اپنے مٹی کے مکان سے سیمنٹ کی دو منزلہ پکی بلڈنگ میں چلی گئی۔ شگفتہ گلاب کی طرح کھلا ہوا چہرہ، مسرور دل، رنگین سپنوں میں کھویا ہوا ذہن لے کر۔
پندرہ روز بعد عارفہ اپنے میکے آئی تو اس کے چہرہ پر وہ چمک دمک نہیں تھی جو اس کے جسم پر چڑھے ہوئے زیورات میں — قیمتی ساڑی اور بلاؤز میں تھی، اس کے پاؤں کی جوتیاں تک اس کے چہرے سے زیادہ چمک رہی تھیں۔ اس کا چہرہ بجھا بجھا اور کمھلایا ہوا تھا۔ ایک مسلے ہوئے پھول کی طرح۔
والدین نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا، اس کا سجا سجایا بدن دیکھا اور خوش ہوتے رہے۔ ماں نے بلائیں لیں ’’مہارانی لگ رہی ہے میری بیٹی، خدا نظر بد سے بچائے!‘‘
عارفہ کے لبوں پر تلخ سے مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’کیسی ہو بیٹی؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں امی!‘‘ عارفہ نے مختصر جواب دیا اور آنگن میں رکھے ہوئے خالی گملے کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی جس میں اس نے انا رکا چھوٹا سا پودا لگایا تھا اور ماں سے کہا تھا، ’’امی! جب یہ کچھ بڑھ جائے تو اسے زمین میں لگا دینا۔‘‘
خالی گملہ دیکھ کر اس نے ماں سے پوچھا: ’’امی! انار کا پودا آپ نے کہاں لگایا؟‘‘
’’وہ — وہاں!‘‘ اس کی ماں نے پتھریلی زمین کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
اس نے دیکھا، وہ ننھا پودا سوکھ چکا تھا۔
’’امی، انار کے پودے پتھریلی زمین میں پروان نہیں چڑھتے۔ کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتیں۔‘‘ 
’’اوں — جانے دے، مفت کا پودا تھا ، خریدا ہوا تو نہیں تھا۔‘‘
وہ خاموش ماں کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر ماں سے کہا: ’’امی! میرے ساتھ بھی اس انار کے پودے کا سا سلوک کیا گیا ہے۔‘‘
انار کے سوکھے ہوئے پودے کی طرف دیکھ کر وہ خاموش کچھ سوچنے لگی۔ لڑکی کی زندگی گملے میں لگے ہوئے پودے کی طرح ہی تو ہوتی ہے۔ والدین کا گھر اس کے لیے گملے کی طرح ہوتا ہے، جس میں اسے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جب وہ جوان ہوجاتی ہے تو اس کا بیاہ کردیا جاتا ہے پھر وہ دوسرے گھر چلی جاتی ہے، جس طرح گملےمیں لگایا ہوا پودا جب زمین میں لگانے کے لائق ہوجاتا ہے تو اسے مناسب زمین میں لگادیا جاتا ہے۔
’’کیسا سلوک؟!‘‘ ماں نے بے چین ہوکر اس سے پوچھا۔ — وہ اپنے خیالات سے چونکی تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا: ’’امی! وہاں کی زمین پتھریلی ہے۔ میں اندر سے بالکل اس انار کے پودے کی طرح سوکھ چکی ہوں۔ وہ شرابی ہے، عیاش، بداخلاق آدمی ہیں، مگر آپ فکر نہ کیجیے آپ نے میرا ان کے ساتھ بیاہ کیا ہے۔ میں اپنی زندگی گزار ہی لوں گی۔ جس حال میں بھی گزرے گزار لوں گی۔ آپ سے صرف ایک درخواست ہے کہ میری چھوٹی بہن صادقہ کے لیے کوئی ایسا گھر دیکھنا جہاں اسے تن کا نہیں من کا سکھ مل سکے۔ اس انار کے پودے کا سا سلوک اس کے ساتھ مت کرنا امی! کسی صورت مت کرنا۔‘‘ عارفہ کی آواز بھراگئی تھی۔ماں ایک مجرم کی طرح خاموش خالی گملے کی طرف دیکھ رہی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146