میں نے بالکونی سے جھانک کر دیکھا تو بیوی رفیع جنرل اسٹور والے سے سامانِ خوردونوش ادھار خرید کر اس سے خوش گپیوں میں مصروف تھی۔ پھر ایک دو گاہک اور آئے تو بیوی پلاسٹک کے بیگ اٹھائے واپس مکان کی جانب آنے لگی۔ اس نے نگاہ اٹھا کر میری طرف دیکھا، تو چہرے پر بے حسی اور لا تعلقی کے تاثرات پیدا کرکے دروازہ کھٹکھٹانے لگی۔ بچوں میں سے کسی نے دروازہ کھولا تو وہ سانسوں سانس اوپر بالکونی ہی میں چلی آئی۔ چند لمحے سانسوں پر قابو پاکر بولی:
’’بڑی مشکل سے رام ہوا حرامی! وہ بھی مشکریاں کرکے۔ ماں بہن نہیں اس کی۔ کیا کروں میرا مرد نکھٹو اور بچے…‘‘
بیوی نے رونا دھونا شروع کیا تو میں بالکونی سے ہٹ کر پچھلے کمرے کی مسہری پر آلیٹا۔ جھجکتے جھجکتے چھوٹا بیٹا سگریٹ کی ڈبیا مجھے تھما کر چلا گیا۔ سگریٹ سلگا کر میں سوچوں میں ڈوب گیا۔ آج صبح اور کل شام حاجی میر داد دوبار مجھے دکان پر ملازمت دینے آیا تھا۔ وہ پہلے ہی میرا معاوضہ بڑھا دیتا تو کیا تکلیف تھی اسے؟ کئی مہینوں کی بے روزگاری کے بعد اب وہ میری آدھی شرائط تسلیم کرکے بیوی بچوں کو میرے خلاف اکسا رہا ہے۔ میں کوئی گرا پڑا آدمی نہیں۔ محنت اور ایمانداری سے کام کیا ہے۔ تبھی تو حاجی میرے گھر کے چکر لگاتا ہے۔ سنا ہے اس کا کسی سے مقدمہ چل رہا ہے۔ اور گرم مصالحے کی دکان پر اسے قابلِ اعتماد آدمی چاہیے۔ قابلِ اعتماد آدمی کو تو وہ کئی مہینے قبل رعونت سے نکال باہر کرچکا ہے۔ اور اب … نہیں … میں کہیں اور ملازمت تلاش کرلوں گا۔ اس ظالم مصالحہ فروش کے پاس نہیں جاؤں گا… نہیں جاؤں گا۔ میری بڑبڑاہٹ سن کر بڑا بیٹا کمرے میں آکر میرا منہ تکنے لگا۔ اس کے گھٹنے سے چوٹ کی وجہ سے خون رس رہا تھا۔ اور نیکر کئی جگہ سے ادھڑی ہوئی تھی۔ میںنے اس سے نگاہیں چرا کر تلخی سے کہا … ’’کیا بات ہے؟‘‘ وہ سرکھجا کر قدرے سہم کر بولا…’’ابو! آج اسکول سے نام کٹ گیا— وہ فیس!‘‘ وہ چپ ہورہا تو مجھے آج صبح پڑوسیوں کے بچوں کے تازہ دھلے کپڑے اور ان کے قہقہے یاد آگئے۔ تروتازہ چہروں اور دھلی دھلائی یونیفارم والے بچوں کے ہجوم سے میرا بچہ کیوں کٹ گیا؟ میرے اندر کے انسان نے اس سوال کا گھونٹ بھرا اور ڈکار لے کر بولا: ’’تم جو انا اور خودداری کی مچان پر چڑھے بیٹھے ہو، کہیں اپنوں کا ہی تو شکار نہیں کررہے؟‘‘ میں نے دلیل و حجت سے کام لیا۔ بولا:’’تم سمجھتے ہی نہیں۔ اس ظالم شخص کو میرے مطالبات پہلے ہی مان لینے چاہیے تھے۔ اب کیا فائدہ؟ میںنے کئی مہینے مفلسی، بھوک اور بے غیرتی کا کشٹ کاٹا ہے — بتاؤ!‘‘ اندر والا ایک اور ڈکار لے کر بولا: ’’میں کیا بتاؤں؟ خود سے پوچھو۔ بیٹی جوان ہورہی ہے۔ بچے ادھر ادھر رُل رہے ہیں۔ اور بیوی نے اشیا کے حصول کے لیے دکانداروں سے خوش گپیاں بھی۔‘‘ ’’چپ، نادان! بکومت، دفع ہوجاؤ!‘‘ ایکا ایکی بیٹے کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا۔ وہ کپکپاتی آواز میں بولا: ’’چلا جاتا ہوں ابو – چلا جاتا ہوں – میں نہیں فیس مانگتا – میں نہیں۔‘‘ وہ چلا گیا تو میں روہانسا ہوکر بولا: ’’بیٹے! میں نے تم سے یہ نہیںکہا تھا، میں تو اندر والے سے…! ‘‘ رات کا کھانا بیٹی ٹرے میں لائی تو میری بھوک ختم ہوچکی تھی۔ میں دوراہے پر کھڑا تھا۔ مصالحے فروش حاجی کی دکان پر واپس چلا جاؤں تو گھر اور بچوں کے معاملات کو سنبھالا مل سکتا ہے۔ مگر سبکی بہت ہوگی۔ نہ جاؤں تو – میرے اندر سے دوسرا شخص گویا غرارے کرنے لگا۔ آدھی رات تک میں شدید بے چینی میں سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا۔ سگریٹ کی مزید طلب ہوئی تو بیوی کا سراپا نگاہوں کے سامنے ناچنے لگا۔ تو گویا رات کے اس لمحے بیوی سے سگریٹ مانگنا۔ مصالحے والے حاجی سے دوبارہ ملاز مت مانگنے کے برابر نہیں کیا؟ اس پر میرے اندر کھلبلی مچ گئی۔ میں برسوں پہلے کے نچلی منزل پر واقعہ نیم چھتے کی جانب آگیا۔ کبھی ماں نیم چھتے میں بیٹھ کر چرخے سے سوت کاتتی اور مشقت کرکے مجھے اور بہن کو پالتی رہی تھی۔ نیم چھتے کا بلب کب کا فیوز تھا اور ماں کو گزرے کتنے سال – مجھے اندھیرے ہی میں نیم چھتے کا نقشہ یاد آنے لگا۔ بائیں کونے میں ٹوٹا ہوا چرخا پڑا ہوگا۔ ماں زندہ تھی تو دائیں جانب سوت کے گولے رکھے رہتے تھے۔ وہ سوت کاتتے کاتتے مرحوم ابا کی باتیں کیا کرتی۔ روتی اور گیت گایا کرتی۔ کشمیری زبان کے گیت ہماری سمجھ سے بالا تر ہوا کرتے۔ انہی دنوں سوت والے شیخ سے ماں کی معاوضے پر ان بن ہوگئی۔ تو گھر میں چرخا چلنا بند ہوگیا۔ فاقوں کی نوبت آگئی۔ ماں نے بازار جاکر کام ڈھونڈنا چاہا۔ مگر سب دکاندار شیخ کے ہمنوا تھے۔ کسی نے بھی ماں کو سوت کاتنے کو نہ دیا۔ روکھی سوکھی بھی جب خطرے میں نظر آنے لگی تو ماں نے کشمیری گیتوں کا سوت کاتنا شروع کردیا۔ سردیوں کی لمبی راتوں کو میں اور بہن کئی دنوں کی اکڑی روٹی پانی میں بھگو کر کھاتے- اور ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ جاتے- ماں خالی خالی نگاہوں سے چرخے کو دیکھتی اور گاتی۔ پھر اس کا گانا بھی بند ہوگیا۔ سردیوں کی سخت بارش ہورہی تھی… اس دن۔ بہن سردی سے کپکپا کر حلوہ مانگ رہی تھی اور ماں کی زبان پر ادھورے گیت تھے۔ چرخا خاموش تھا۔ تھوڑی دیر ماں نے صبر کیا۔ پھر اٹھی اور برستی بارش میں، سوت والے شیخ کی دکان پر چلی گئی۔ شام کو بارش تھم چکی تھی۔ ماں روئی کی گٹھڑی اٹھائے واپس آئی۔ گٹھڑی سے سوجی اور چینی اور گھی کی پوٹلی نکال کر حلوہ بناکر ہم دونوں بہن بھائیوں کو کھلایا اور دئیے کی روشنی میں لگی سوت کاتنے- پہلی بار میں نے کشمیری گیت گاکر ترجمہ بھی سنایا۔ ’’اگر مجھ اکیلی کی ذات نیچی ہوتی ہے اور میرے بچوں کے قد بڑھتے ہیں… تو اے دل، سودا مہنگا نہیں۔ سودا مہنگا نہیں ۔ وہ بارش والا دن اور ماں کی کچلی اَنا حلوے میں رچ کر کچھ عجب ذائقہ پیدا کرگئی۔ نیم چھتے میں روشنی کا چھپاکا ہوا۔ اور ماں کا پُر نور ہیولا چرخا کاتنے لگا۔ میرا جسم تپنے لگا۔ اور میں انا کی مچان سے اتر کر اندھیرے میں رکھے ٹوٹے چرخے سے لپٹ گیا۔