انبیاء کی دعائیں

صبا پروین

اللہ کے رسول ﷺ نے دعا کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ’’مجھے پکارو میں تمہاری پکار سنوں گا۔‘‘

اگر ہم انبیائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور قرآن کو بغور پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اللہ کے نبیوں پر کس قدر سنگین حالات آئے، انھوں نے اپنے رب سے دعا کی اور رب پاک نے دعا قبول فرما کران کی مشکل کو دور کردیا۔

قرآن مجید تمام مسلمانوں کو انبیا کی ان دعاؤں کا حوالہ دے کر اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ ہی سے مدد مانگیں اور ہر مشکل کے لیے اس سے مدد کے طالب ہوں۔

آج امت مسلمہ سخت مصائب و مشکلات سے دوچار ہے۔ یہ وقت ہے کہ امت کے افراد اللہ کی طرف رجوع کریں۔ اس سے مدد طلب کریں اور اپنی زندگی کو اسی کے احکام کا تابع بنائیں کیوں کہ انبیاء صالحین اور نیک بندوں کا یہی طریقہ رہا ہے۔ ذیل میں ہم انبیاء کے چند واقعات اور ان کی وہ دعائیں درج کررہے ہیں جنھوں نے انہیں مصیبت اور مشکلات سے نجات دلائی۔

آدم و حوا:

جب آدم و حوا کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی عام آزادی دی اور کہا کہ تم دونوں صرف ’’فلاں‘‘ درخت کے پاس نہ جانا۔ لیکن شیطان کی وسوسہ اندازی سے انھوں نے اس شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا۔ پھل کا کھانا تھا کہ سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان کا لباس چھین لیا۔ اور شرم و حیا کے فطری تقاضے کے مطابق وہ درختوں کے پتوںسے اپنا جسم ڈھانپنے لگے۔ ساتھ ہی وہ اپنی غلطی پر نادم بھی ہوئے۔ تب خدا تعالیٰ سے جس کو وہ اپنی امیدوں کا مرکز سمجھتے تھے معافی کے لیے دعا مانگی :

رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ (الاعراف: ۲۳)

’’اے ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر بڑا ظلم کیا۔ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔‘‘

دعائے نوح:

جب حضرت نوح کی آنکھوں کے سامنے ان کا اپنا بیٹا غرق ہورہاتھا، آپ نے اس کو کشتی میں آکر بیٹھنے کی دعوت دی، مگر اس نے آپ کی بات نہ مانی، اس وقت شفقت پدری سے مجبور ہوکر آپ نے کہا رَبِّ اِنَّ اِبْنِیْ مِنْ اَصْلِیْ اے میرے رب! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے اور تو نے میرے اہل کو اس طوفان سے بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ تیسرا وعدہ سچا ہے اس لیے میرے بیٹے کو بچا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی کہ اے نوح: ’’وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ وہ یہ عمل ہے نیک و صالح والا نہیں ہے تم ہمارے نبی ہونیک و عمل صالح والے یہ بدعمل تمہارا اہل کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ اسے نوح کو اپنی غلطی کا احساس ہوا پھر انھوں نے اس طرح دعا مانگی:

رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُ ِبکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْ اَکُنْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ (الہود: ۴۷)

’’اے میرے رب! میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجاؤں گا۔‘‘

دعائے ابراہیم

جب نمرود کے حکم سے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جارہا تھا اس وقت حضرت ابراہیمؑ نے اپنے رب سے دعا کی اور اللہ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے نمرود کی آگ کو حکم دیا : ’’اے آگ تو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا۔‘‘

اسی طرح جب خوشی کا موقع آیا اور اللہ نے انہیں اولاد دی تو صرف خدا کا ہی شکر ادا کرتے ہوئے یہ دعا فرمائی:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمَاعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَائِ۔ (ابراہیم: ۳۹)

’’ شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق (جیسے بیٹے) دئیے حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ہی دعا کوسننے والا ہے۔‘‘

دعائے موسیٰ:

جب ان سے ایک قبطی اتفاقاً مارا گیا اس وقت انھوں نے بھی صرف اور صرف اللہ سے دعا مانگی۔

رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔ (القصص: ۱۶)

’’اے میرے پروردگار! میں نے اپنے اوپر ظلم کرڈالا پس تم مجھے بخش دے۔ تو اس نے اسے بخش دیا۔ بے شک وہ بخشنے والا اور رحم کرنا والا ہے۔‘‘

پھر جب فرعون کے پاس انہیں دعوت حق پیش کرنے کے لیے بھیجا جارہا تھا اس وقت بھی اس گراں ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ سے دعا فرمائی:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ۔ (طٰہٰ: ۲۵-۳۵)

’’ اے پروردگار! مجھے شرح صدر عطا فرما، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میری بات لوگ سمجھ سکیں۔‘‘

دعائے یوسفؑ:

جب عزیز مصر کی بیوی نے شہر کی بیگمات کے سامنے ان کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی تو میں اسے جیل بھیج دو ںگی۔ تو حضرت یوسفؑ نے عورتوں کی چال کے مقابلے کے لیے اللہ تعالیٰ کو پکارا اور کہا:

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَہُنَّ اَصِبُ اِلَیْہِنَّ وَاَکُنْ مِّنَ الْجَاہِلِیْنَ۔ (یوسف: ۳۳)

’’یوسفؑ نے کہا اے میرے پروردگار! مجھے قید زیادہ پسندیدہ ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ مجھ سے چاہتی ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہورہوں گا۔‘‘

اور اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ان عورتوں کی چالوں کو ناکام کردیا۔

دعائے ایوبؑ:

جب ایوبؑ بیمار ہوگئے تھے اور آپ کے جسم میں کیڑے لگ گئے تھے۔ جبکہ ان کے اہلِ خاندان، ان کے پاس آنے سے کترانے لگے، اولاد، مال اور حسن صورت یہ سب کچھ ان سے چھن گیا پریشانی کے اس عالم میں بھی انھوں نے صرف ایک خدا کو پکارا اور دعا کی اور اس دعا میں انھوں نے اپنے رب سے شکوہ شکایت اور رونا دھونا نہیں کیا دیکھئے دعا کے الفاظ کس قدر صبر و شکر کی نشان دہی کرتے ہیں:

اَنِّیْ مَسَّنِیْ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ (الانبیاء: ۸۳)

’’اے میرے رب! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا (سراپا رحمت) ہے۔‘‘

دعائے یونسؑ:

حضرت یونسؑ اپنی قوم سے ناراض ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیے بغیر اپنے مقام کو چھوڑ کر چل دیے۔ دورانِ سفر آپ کو کشتی پر سوار ہونا پڑا۔ کشتی پانی میں ہچکولے کھانے لگی تبھی ملاحوں نے کہا کہ کوئی غلام اس کشتی میں مالک کی اجازت کے بغیر آکر بیٹھ گیا ہے۔ اس کی جانچ کے لیے انھوں نے قرعہ اندازی کی اتفاق سے قرعہ اندازی میں حضرت یونسؑ کا ہی نام نکلا تو انھوں نے آپؑ کو پانی میں پھینک دیا۔ وہاں آپ کو ایک مچھلی نے نگل لیا۔ مچھلی کے پیٹ کے اندھیرے اور تکلیف دہ جگہ میں وہ تین دن اور تین رات رہے۔ اس مشکل کے وقت میں حضرت یونسؑ نے اپنی غلطی پر توبہ کی اور ایک ہی خدا کو مدد کے لیے پکارا اور کہا:

لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ (الانبیا:۸۷)

’’اے پروردگار! نہیں ہے کوئی الہ سوائے آپ کے۔ پاک ہے آپ کی ذات مبارکہ۔ بیشک میںہی ظلم کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی انہیں اس گھٹن اور تاریکی سے نجات دی اور اس کی شکل یہ ہوئی کہ مچھلی نے سمندر کے کنارے آکر انہیں اگل دیا۔

انبیاء کرام کے یہ اور اس طرح کے بے شمار واقعات ہمیں قرآن اور اللہ کے رسول کی احادیث سے معلوم ہوتے ہیں۔ ان واقعات کو پڑھ کر ہمارا تعلق اپنے رب سے مضبوط ہونا چاہیے اور ہمارے اندر یہ ایمانی خلوص و جذبہ پیدا ہونا چاہیے کہ ہم ہر حالت میں اپنے رب کو ہی پکاریں۔ اسی سے مدد طلب کریں اور اسی سے مغفرت کے طالب ہوں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں