ناول انتہائی کلائمکس پر تھا۔ وہ ارد گرد سے بے خبر پوری طرح ناول میں غرق تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے سے کوئی کال بیل بجا رہا تھا۔ اسے اس کی خبر اس وقت ہوئی جب گھنٹی کے ساتھ دروازہ بھی دھڑدھڑانے لگا۔ اس وقت گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ امی، ابو کسی کی عیادت اور مزاج پرسی کے لیے گئے تھے۔ چھوٹا بھائی عاکف اس وقت اسکول میں تھا، اس لیے وہ اکیلی تھی۔ فرصت کو غنیمت جان وہ گھر کا مین دروازہ لاک کرکے اپنے کمرے میں آکر ناول پڑھنے میں مگن ہوگئی۔ جسے وہ اپنی سہیلی حنا سے مانگ لائی تھی۔ ناول انتہائی دلچسپ تھا، اس لیے وہ جلد از جلد اسے ختم کرنا چاہ رہی تھی اور اس لیے بھی کہ اس کی امی کو ناول پڑھنا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ وہ اکثر اسے ٹوکتی رہتیں اور کہتیں بیٹی ناول پڑھنے سے اردو سے دلچسپی تو ہوتی ہے اور کسی حد تک زبان بھی ٹھیک ہوجاتی ہے، لیکن بعض اوقات ذہن برائیوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے، اس لیے احتیاط کیا کرو۔
آج امی گھر پر نہیں تھیں، اس موقع سے فائدہ اٹھا کر وہ ناول پڑھنے میں اتنی غرق تھی کہ کال بیل کی آواز بالکل بھی سنائی نہیں دی۔ ناول پڑھنے کا سارا مزہ اس وقت کرکرا ہوگیا جب گھر کا مین دروازہ دھڑدھڑانے لگا۔ کون ہوسکتا ہے اس وقت؟ امی، ابو تو اتنی جلدی آنے سے رہے، عاکف بھی اتنی جلدی نہیں آسکتا۔ پھر آخر یہ کون ہے جو کال بیل کے ساتھ دروازہ بھی دھڑدھڑا رہا ہے، اس نے ناول ایک طرف رکھا، دوپٹہ سر پر اوڑھا اور چپل الٹی سیدھی پہن کر بڑبڑاتے ہوئے دروازے پر پہنچی اور پوچھا: ’’کون ہیں؟‘‘
’’میں ہوں۔‘‘ آواز آئی۔
اس نے جھنجھلا کر پوچھا: ’’ارے کون ہیں؟ نام کیا ہے آپ کا؟ کس سے ملنا ہے آپ کو؟ اس وقت گھر میں کوئی نہیں ہے۔ شام میں آجائیے۔‘‘ وہ ایک ہی سانس میں کہہ گئی۔
’’عرفان انکل کا یہی گھر ہے نا؟‘‘ باہر سے پوچھا گیا۔
’’جی ہاں، یہی ہے مگر آپ کون ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں ان کے بھائی کا بیٹا کاشف ہوں۔ ان سے ملنے کے لیے آیا ہوں، کیا میں اندر آسکتا ہوں۔‘‘
اس نے سوچا عجیب مصیبت ہے، نہ جانے کون ہے، ابو کے بھائی کابیٹا کہہ رہا ہے۔
اس نے کہا: ’’دیکھئے اس وقت تو کوئی بھی نہیں ہے۔ شام میں آجائیے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اندر آگئی… ناول کا بھوت سر پر سوار تھا۔ چاہتی تھی کہ ناول جلد ختم کرلے۔
ناول اختتام پر تھا کہ پھر کال بیل کے ساتھ آواز آئی۔
’’صدف دروازہ کھولو۔‘‘
’’ارے یہ تو امی کی آواز ہے۔‘‘ اس نے جلدی سے ناول چھپا کر سرپر دوپٹہ اوڑھا اور دروازہ کھول دیا۔
’’السلام علیکم‘‘ امی، ابو کو دیکھ کر اس نے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘ اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے امی ، ابو کاشف کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے۔ کاشف کو ساتھ دیکھ کر یہ گھبرائی کہ یہ اب تک یہیں موجود ہے۔ کہیں گیا ہی نہیں۔ اب تومیری خیر نہیں۔
اندر آکر عرفان صاحب کاشف سے گھر کا حال احوال پوچھنے لگے۔
صدف ڈر رہی تھی کہ کاشف کوئی شکایت نہ کردے اور ابو برس نہ پڑیں، ابو تو برسے نہیں بلکہ امی بڑی تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کمرے میں چلی گئیں۔ اس نے اطمینان کی سانس لی کہ امی سے کاشف نے کچھ نہیں کہا لیکن اس کی خوش فہمی زیادہ دیر رہ نہ سکی۔ امی نے کمرے سے آواز دی۔ وہ ڈرتے ڈرتے کمرے میں آئی، اس کی امی نے غصے بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’تم نے دروازہ کیوں نہیں کھولا؟‘‘
صدف نے اٹکتے ہوئے کہا: ’’وہ امی… میں ان کو نہیں جانتی تھی۔‘‘
اس کی امی نے کہا: ’’جب اس نے تمہارے ابو کا حوالہ دیا تھا تو تم کو جان لینا چاہیے تھا۔‘‘
وہ تو کاشف کے ابو نے فون کرکے بتلایا کہ’’کاشف آپ کے دروازے پر کھڑا ہے اور آپ کا انتظار کررہا ہے؟ آپ لوگ کہاں ہیں؟‘‘
’’یہ سن کر ہم بھاگے ہوئے آئے۔ تمہارے چاچا کیا کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘
کاشف نے اپنی چاچی کی بات سن لی، اس نے کمرے میں آکر کہا:’’آنٹی ان کا کوئی قصور نہیں، انھوںنے تو مجھے دیکھا بھی نہیں اور یہ مجھے جانتی بھی تو نہیں ہیں، انھوں نے جھٹ دروازہ نہیں کھولا۔ اس سے مجھے خوشی ہوئی کہ یہ محتاط ہیں۔‘‘
اس کی امی نے پوچھا: ’’ہمارے جانے کے بعد تم کیا کررہی تھیں؟‘‘
یہ سن کر وہ گھبراگئی… کیسے کہتی کہ ناول پڑھ رہی تھی۔
وہ ہکلانے لگی: ’’… وہ… وہ۔‘‘
اس کی امی نے کہا:’’ٹھیک ہے آئندہ اس بات کا خیال رکھنا۔ سب کے لیے چائے لاؤ۔ ہم چائے چھوڑ کر آئے ہیں۔‘‘
اجازت ملتے ہی نیچی گردن کیے ایسی بھاگی کہ تھوڑے سے فاصلے پر کھڑے کاشف کے ساتھ ٹکرائی، کاشف گرتے گرتے بچا، یہ بھاگ کر سیدھی کچن میں چلی گئی۔ چائے کا پانی چولہے پر رکھتے ہوئے سوچنے لگی، کاشف بھائی کیوں آئے ہیں۔ کتنے دن رہیں گے، کل ناول بھی واپس کرنا ہے۔ جب تک یہ یہاں ہیں، ناول بمشکل پڑھ پاؤں گی۔ ویسے بھی ہمارے چھوٹے گھر میں کیا وہ رہ پائیں گے؟
اسی خیال میں اس نے چائے کا برتن اٹھایا اسی وقت آواز آئی’’بن گئی‘‘ وہ گھبرا کر پلٹی تو گرم گرم چائے کاشف پر گر گئی۔
کاشف نے گھبرا کر قدم پیچھے ہٹایا اور زور سے کہا’’ارے یہ کیا کردیا کپڑوں کا ستیاناس ہوگیا۔‘‘
وہ دم بخود کھڑی رہ گئی کہ یہ اچانک کیا ہوگیا؟
وہ تو خیریت گزری کہ اس کی امی نے نہیں دیکھا اور نہ کاشف کی بات سنی ورنہ ایک اور مصیبت کھڑی ہوجاتی۔
اس نے جلدی سے کاشف سے کہا: ’’آپ امی کے پاس بیٹھئے میں چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘
جلدی سے اس نے پھر چائے بنائی۔ چائے پی کر کاشف اپنے انکل کے ساتھ نماز پڑھنے مسجد چلا گیا۔ وہ بھی نماز کے لیے چل دی۔
عرفان صاحب کے دو ہی بچے تھے۔ صدف اور عاکف۔ صدف ڈگری ختم کرکے کچھ کورس کرنے کی خواہشمند تھی۔ جب کہ عاکف ابھی ہائی اسکول میں تھا۔ رقیہ بیگم ایک اچھے تعلیم یافتہ مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی ایک بڑی بہن اور دو بڑے بھائی تھے۔ بھائی بہن کی شادی بھی اونچے اور مالدار گھرانے میں ہوئی تھی۔ دولت کی ریل پیل اور آزادی نے رقیہ بیگم کو متاثر نہیں کیا تھا۔ وہ شروع سے نیک و سیدھی سادھی تھیں۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد وہ برقع اوڑھ کر کالج جانے لگیں تو باپ اور بہن بھائیوں نے اعتراض کیا۔
مگر انھوں نے’’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘ کہہ کر سب کو خاموش کرادیا۔
کورس کی کتابوں کے ساتھ دینی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی تھیں۔ ان کے لیے بھی اچھے اور مالدار گھرانوں کے رشتے آنا شروع ہوئے لیکن یہ تیار نہیں ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ یہ ایک دینی کتاب کا مطالعہ کررہی تھیں کہ ایک تحریر پڑھی جسے انھوں نے کتاب سے نقل کرکے اپنے پاس محفوظ کرلیا کہ کہیں وہ ادھر ادھر نہ ہوجائے۔ جب ان کے والدین نے ان پر زور دیا کہ ان رشتوں میں سے کوئی رشتہ پسند کرلیں۔ وہ فوراً اٹھیں اور الماری میں سے وہ کاٹا ہوا کتاب کا حصہ لاکر دیا اور کہا: ’’یہی ان کی پسند ہے۔‘‘ وہ رکی نہیں سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئیں اورمعاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔
باپ نے وہ تحریر پڑھی جو یوں تھی:
’’عبداللہ بن مبارک نسباً غلام تھے۔ ان کے والد مبارک غلام تھے۔ بڑے ہی دیانتدار، حق شناس۔ آقا ان کی دیانتداری سے بے حد متاثر تھا۔ اور بہت احترام کرتا تھا۔ اس کی ایک جوان بیٹی تھی جس کی شادی کے ہر طرف سے پیغام آرہے تھے۔ لیکن وہ فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا کہ کس کا پیغام قبول کرے۔ ایک روز اس نے مبارک سے مشورہ کیا کہ ’’مبارک میں اپنی لڑکی کی شادی کہاں اور کس سے کروں۔‘‘
انھوں نے کہا: ’’عہدِجاہلیت میں لوگ حسب و نسب تلاش کرتے تھے، یہودیوں کو مالدار کی جستجو ہوتی تھی اور عیسائی حسن و جمال کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن امتِ محمدیہ کے نزدیک تو معیار بس دین اور تقویٰ ہے۔ آپ جس چیز کو چاہیں ترجیح دیں۔‘‘
مبارک کا یہ ایمان افروز اور دانشمندانہ مشورہ آقا کے دل میں گھر کر گیا، اس نے فوراً فیصلہ کرلیا۔ بیوی کے پاس آیا اور کہا ہم اپنی لڑکی کا بر تلاش کررہے ہیں۔ میرے نزدیک تو مبارک سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں، دیندار، متقی اور دیانتدار و نیک ہے۔ نیک بخت خاتون بھی مبارک کے اخلاق و کردار سے بہت متاثر تھی۔ چنانچہ اسے یہ رائے پسند آئی اور مبارک کی شادی آقا کی لڑکی سے ہوگئی۔اس سے عبداللہ جیسے مشہور عالم پیدا ہوئے۔
’’اوہ تو یہ پسند ہے ہماری بیٹی کی۔‘‘ رقیہ بیگم کے والد نے کہا: ’’ٹھیک ہے اس کا فیصلہ ہمارا فیصلہ۔‘‘
انھوں نے فیصلہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ اس لیے کہ اپنی بڑی بیٹی کی پریشانی وہ دیکھ ہی رہے تھے۔ تعلیم یافتہ مالدار داماد کا مزاج بیٹی کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔ ناچ گانا، کلب جانا، غیر عورتوں سے میل جول اس کی زندگی کا ایک حصہ تھا۔ انسان دولت کے لالچ میںہر اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ نتیجہ آئے دن کی لڑائیاں، گالی گلوج، جس سے تنگ آکر بیٹی ماں باپ کے گھر آجاتی۔لیکن ماں باپ اپنی اور خاندان کی عزت کا واسطہ دے کر واپس بھیج دیتے۔ بیٹی داماد ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے مہینوں بات چیت نہیں ہوتی تھی۔ بیٹی کی پریشانی ماں باپ سے دیکھی نہیںجاتی تھی۔ ایسے میں رقیہ کا فیصلہ انہیں بہترین لگا ۔ رقیہ کی ماں نے بھی تحریر پڑھ کر اپنے شوہر سے کہا: ’’دیکھو جی … بچی جہاں چاہتی ہے وہاں اس کی شادی کردو اسے اپنی زندگی نبھانی ہے، اللہ فضل فرمائے گا، مال دار کے گھر شادی کرکے دیکھ لیا۔‘‘
دور کے ایک رشتے کی بہن رقیہ بیگم کا ہاتھ مانگ رہی تھیں۔ لڑکا دیندار، نمازی ، اچھے اخلاق والا اور پڑھا لکھا تھا۔ گھرانہ دیندار تھا، مالدار نہیں تھا۔ لڑکا اچھی جاب پر تھا۔ دونوں میاں بیوی نے یہ رشتہ منظور کرلیا۔ بھائیوں نے مخالفت کی بھابیوں نے طنزیہ باتیں کیں کہ قلیل آمدنی میں گزارا کیسے ہوگا۔ پھر ماں باپ اور بھائیوں کے گھر آجائے گی۔ لیکن رقیہ بیگم اور ان کے والدین پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور یہ رشتہ رشتہ ازدواج میں تبدیل ہوگیا۔ رقیہ بیگم اپنی ازدواجی زندگی سے بہت خوش تھیں اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی تھیں۔
اب جبکہ صدف کو عرفان صاحب کے بھائی نے کاشف کے ذریعے اپنے بڑے لڑکے عمر کے لیے پسند کیا جو کہ خوبصورت اور اچھے عہدے پر فائز تھا۔ لیکن مزاج شاہانہ اور عادتیں مختلف تھیں۔
رقیہ بیگم کو یہ رشتہ موزوں نہیں لگا۔ اکیس سال پہلے جو فیصلہ انھوں نے اپنے لیے لیا تھا وہ فیصلہ کرنے میں انھوں نے ذرا بھی دیر نہیں لگائی کہ عمر کے بدلے کاشف جس کی ابھی جاب بھی نہیں لگی تھی۔ لیکن تھا خوش اخلاق، بڑوں کی عزت کرنے والا۔ اورنمازی دیندار۔
رات کو جب عرفان صاحب نے اپنی بیوی سے اپنے بھائی کے بیٹے کے پیغام کے بارے میں مشورہ لیا تو رقیہ بیگم نے بغیر کسی پس و پیش کے کہہ دیا کہ ’’آپ انہیں کہیں کہ عمر کے بدلے کاشف ہو تو ٹھیک ہے۔ ورنہ نہیں۔‘‘
——