اتوار کو جب ہم خالو کے یہاں سے زوردار دعوت اُڑا کر واپس ہونے لگے تو باہر نکلتے ہی ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ کار کے شیشے چڑھادئیے گئے اور ہم سب جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور آپے کو سمیٹے روانہ ہوگئے۔ اچانک ایک سنسان جگہ موٹر خراب ہوگئی۔ اب بڑی پریشانی ہوئی۔ کہاں جیب سے ہاتھ نہیں نکل رہے تھے کہاں اب اُتر کر موٹر کو دھکا لگانے کی نوبت آگئی۔ چارو ناچار اترنا پڑا، ابھی ہم بمشکل دو چار قدم ہی چلے تھے کہ ہماری نظر سڑک پر پڑے ہوئے ایک شخص پر پڑی۔ ابا جان نے گاڑی رکوائی ، بھائی جان اور اباجان فوراً اس کے پا س پہنچے…۔ پھر انھوں نے آواز دے کر پرویزؔ بھیا کو بلایا جو خیر سے ڈاکٹر تھے۔ یہ شخص بے ہوش تھا اور سردی سے اس کا جسم اکٹر گیا تھا۔ ہم لوگ اسے گھر لے گئے۔
پرویز بھیا نے بڑی توجہ سے اس کا علاج کیا اور پندرہ روز میں وہ بالکل اچھا ہوگیا۔ اس نے اپنا نام رونی بتایا۔ اس سے بہت پوچھا گیا کہ وہ کون ہے؟ اس کے عزیز یا رشتہ دار ہیں کہ نہیں؟ لیکن اس نے مزید کچھ نہ بتایا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس قسم کے سوالات سے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ اس نے یہاں سے جانے کی قطعی خواہش ظاہر نہ کی، اس کی عمر اندازاً تیس پینتیس برس رہی ہوگی، صورت سے نہایت ذہین، شریف اور سمجھ دار نظر آتا تھا لیکن اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب قسم کی زہریلی مسکراہٹ دوڑتی رہتی، چہرے پر افسردگی چھائی رہتی جس سے اس کی مسکراہٹ اور خوفناک بن جاتی۔
پھر اس نے ہمارے گھر ہی میں ملازمت کرلی لیکن معاوضہ پیسے کی صورت میں لینے سے انکار کردیا۔ وہ ہر وقت کھویا کھویا سا رہتا، اکثر کام اس سے بگڑ جاتے جس پر بعد میں وہ بہت شرمندہ ہوتا۔
جب وہ تنہا ہوتا تو اس کے چہرے پر عجیب عجیب رنگ دکھائی دیتے، کبھی جوش سے اس کا چہرہ سرخ ہوجاتا، کبھی ندامت سے اس کی گردن جھک جاتی۔ کبھی غصہ اور نفرت کے آثار اس کے چہرے پر ابھرتے۔ ہم لوگوں نے یہ تماشا بارہا دیکھا تھا۔ وہ گفتگو کے وقت نہایت ذہین و متین معلوم ہوتا۔ بھائی جان کا خیال تھا کہ اسے دوکان پر رکھ لیں شاید وہاں اس کا دل بہل جائے۔ ہم لوگ ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ کسی طرح اس کی پریشانی کا سبب معلوم ہوجائے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ہمیں بھی تکلیف ہوتی تھی مگر اس کے غم کا پتہ چلانا نہایت مشکل تھا۔
ہمارے یہاں رہتے اسے چھ مہینے ہوگئے تھے۔ ان چھ مہینوں میں اس کے اندر جو تغیر ہوا تھا وہ حیرتناک تھا، بڑھاپا بڑی تیزی کے ساتھ اس پر چھا رہا تھا، اب وہ اس قدر کھویا کھویا رہنے لگا تھا کہ … آواز دو تو اسے خبر تک نہ ہوتی۔ بعض دفعہ تو اسے جھنجھوڑکر مخاطب کرنا پڑتا۔
اتوار کا دن تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ سب لوگ بیٹھے مشورہ کررہے تھے کہ آج پکنک کو چلا جائے؟ آج کا دن تو باہر نکل کر سیر کرنے کا ہے۔ ابا جان نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔ امی نے مخالفت کی ’’کیا خاک سیر کا لطف آئے گا، اس بارش میں۔‘‘ ’’واہ اصل مزا تو برسات ہی میں ہے سیر کا‘‘ پرویز بھیا نے کہا۔ ’’ہاں کوئی بیمار ویمار پڑگیا تو پورا مزا آجائے گا پکنک کا۔‘‘ امی نے کہا ’’ہم نے فوراً مشورہ دیا کہ پرویز بھیا آپ نہ جائیے تاکہ اگر ہم لوگ بیمار پڑجائیں تو آپ علاج کرسکیں، ورنہ اگر خدانخواستہ آپ بھی بیمار پڑگئے تو کیا ہوگا؟‘‘ اور سب قہقہے لگانے لگے۔ امی بڑے زور سے بگڑ گئیں۔ بھائی صاحب نے کہہ سن کر امی کو راضی کرلیا اور پکنک کی ٹھہر گئی۔ بھائی جان نے میری اور پرویز بھیا کی طرف دیکھ کر کہا: ’’پرویز تم رونی سے کہو کہ سامان وغیرہ باندھ لے۔ ساجدہ تم جاکر سامان ٹھیک کرالو۔‘‘ میں اور پرویز بھیا اٹھ کر رونی کے کمرے کی طرف چل دئیے۔ کمرے کے قریب پہنچ کر پرویز بھیا نے رونی کو آوازیں دیں مگر جواب نہ ملا۔ ہم کمرے میں داخل ہوگئے۔ رونی تکیہ میں منھ گاڑے اوندھا پڑا تھا۔ ’’رونی……‘‘ پرویز بھیا نے اسے شانوں سے جھنجھوڑا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ تکیہ آنسوؤں سے تر تھا۔ میں نے عمر میں کسی مرد کو پہلی مرتبہ روتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس لیے مجھے بہت حیرت تھی۔ اس کے چہرے سے ندامت ٹپک رہی تھی، وہ سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا، ’’رونی‘‘ پرویز بھیا نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا: ’’دیکھو میں تمہیں اپنا بھائی سمجھتا ہوں، امید ہے تم بھی مجھے اپنا بھائی سمجھتے ہوئے اپنی تکلیف کا سبب صاف صاف بتادو گے۔…… میں اب تک تمہاری حرکات کا بغور مطالعہ کرتا رہا ہوں جس سے میں نے اتنا اندازہ لگا لیا ہے کہ تم سے کوئی ایسی غلطی سر زد ہوئی ہے جو ناقابل تلافی ہے! لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غلطی کا احساس خود غلطی کی آدھی تلافی ہے اور اگر اس پر ندامت و پریشانی کے ساتھ بندے اور خدا سے معافی بھی مانگ لی جائے تو یہ اس غلطی کی مکمل تلافی کے لیے کافی ہے۔‘‘ بھیا یہ کہہ رہے تھی اور رونی پھٹی پھٹی آنکھوں سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ بھیا نے پھر کہنا شروع کیا ’’میں تمہارے قصہ سے بڑی حد تک واقف ہوں، اب میں دیکھنایہ چاہتا ہوں کہ تم کو مجھ پر کتنا اعتماد ہے۔ امید ہے تم مجھے اپنا سمجھو گے اور کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کروگے۔‘‘
آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ کس طرح معلوم ہوا؟ کس سے معلوم ہوا؟ کیا معلوم ہوا؟ اس نے دیوانہ وار سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ میں خود حیران تھی کہ یا الٰہی پرویز بھیا کو رونی کے حالات کیسے معلوم ہوئے؟ اس سے پہلے انھوں نے گھر میں اس کے متعلق کوئی ذکر تک نہیں کیا؟ ’’بھائی! گھبراؤ نہیں‘‘ پرویز بھیا نے پھر کہنا شروع کیا۔ ’’تم سہولت سے اپنی داستان سنادو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے راز کو اپنا راز سمجھوں گا۔‘‘
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ آپ میری داستان سننے کے لیے اس قدر بضد ہیں تو سن لیجیے۔ آج میں اپنی تمام رذالت آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس کے بعد میں آپ کی نظروں سے گر جاؤں گا۔ پھر آپ مجھے بھائی بنانا تو دور اپنے پاس بٹھانا تک پسند نہ کریں گے… پھر میں خود بھی جینا نہ پسند کروں گا… لیکن یہ میری آپ سے التجا ہے کہ میری داستان کو راز میں نہ رکھیں بلکہ اس کا چرچا اس قدر کریں کہ سب مجھ پر لعنت بھیجنے لگیں۔ نفرت کریں، عبرت حاصل کریں تاکہ میری روح کا بوجھ ہلکا ہوسکے۔
’’میں ایک اچھے خاندان کا چشم و چراغ تھا، ہمارے خاندان میں ننہیال و ددھیال دونوں طرف کوئی لڑکا نہ تھا، لڑکیوں کی بھی کمی تھی۔ میں تمام خاندان کا چہیتا تھا، سب کی تمناؤں کا واحد مرکز… میری اپنے چچا کی لڑکی شائستہ سے بچپن ہی میں منگنی ہوگئی تھی۔ یہ نہایت بلند اخلاق و بلند کردار لڑکی تھی، خوبصورت تھی، خوب سیرت بھی۔ تعلیم بھی اس نے اپنے خاندان کی ریت کے خلاف پائی تھی۔ ہم دونوں بچپن سے ساتھ کھیلے، پلے بڑھے اور شعور کو پہنچے۔ جب میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے باہر جانے لگا تو وہ نہایت افسردہ نظر آرہی تھی… میں چلا گیا، امی برابر اس کے متعلق لکھتی رہتیں کہ وہ بہت افسردہ رہتی ہے۔ واپسی پر ہماری شادی ہونی تھی۔
کالج میں ایک لڑکی کملا پڑھتی تھی، اس کی بہن ارملا اکثر آتی رہتی جب بھی آتی مجھ سے ضرور ملتی… ایک روز میں سیر کی غرض سے باہر نکلا تو مجھے راستے میں ارملا مل گئی اور مجھ سے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ اس ملاقات کی بنا پر جو کالج میں ہوتی رہتی تھی میں بے سوچے سمجھے اس کے ساتھ چلا گیا۔ گھر پہنچ کر اس نے عجیب حرکت کی …… میرے پیروں پر گر پڑی اور رونا شروع کردیا۔ میں گھبرا گیا۔ بمشکل تمام جب اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ سخت مصیبت میں ہے۔ خواہ مخواہ کسی غلط فہمی کی بنا پر اس پر مقدمہ چلا دیا گیا ہے، اور مقدمہ جس نوعیت کا ہے اس میں اس کی سخت بے عزتی ہے۔ لہٰذا اس کو میری مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے اسے اطمینان دلایا اور وعدہ کرلیا کہ میں اس کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن اس نے مقدمہ کی نوعیت سے مجھے آگاہ نہ کیا اور دوسرے روز مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے کوئی خاص خیال نہ کیا۔ مقدمہ کی نوعیت تک معلوم نہ کی اور دوسرے روز آنے کا وعدہ کرکے چلا آیا۔
میں دوسرے روز وقت مقررہ پر پہنچ گیا۔ وہ میری منتظر تھی۔ چلتے ہوئے اس نے کہا کہ میں عدالت میں اپنے کو اس کا شوہر ظاہر کروں۔ یہ سنتے ہی میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں اس قسم کے الفاظ سننے کے لیے قطعاً تیار نہ تھا، لیکن میں انکار نہ کرسکا اور میں نے ہامی بھر لی۔ وہ پھر بولی: ’’ممکن ہے ہم بعد میں یہ رشتہ کرلیں۔‘‘ یہ الفاظ بھی میرے کانوں کے لیے بالکل غیر متوقع تھے۔ ایک لمحہ کے لیے شائستہ میری نگاہوں کے سامنے اپنی پوری معصومیت کے ساتھ ابھری اور دوسرے لمحے میں نے اسے اس طرح اپنے دماغ سے نکال دیا جیسے کام کے وقت کوئی فضول خیال آجائے۔ جب عدالت نے دریافت کیا کہ ’’کیا تم ارملا کے شوہر ہو؟‘‘ تو میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ البتہ اتنا یاد ہے چند آدمیوںنے مجھے لے جاکر موٹی موٹی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا۔ میری نگاہوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا جس میں مجھے صرف ارملا کا مکّار چہرہ نظر آرہا تھا جو میرے ہتھکڑی لگتے ہی غائب ہوچکا تھا۔ ماں باپ کے خیال میں میں پڑھ رہا تھا اور میں یہاں ایک دور دراز مقام پر ڈھائی سال کی قید کاٹ رہا تھا۔
ڈھائی سال بھی گزرگئے، جب میں رہا ہوا تو … ارملا کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں نے کملا سے دریافت کیا۔ اس نے میرے غائب رہنے کی وجہ پوچھی تو میں نے تمام قصہ سنادیا۔ میری داستان وہ بڑے غور سے سنتی رہی۔ پھر اس نے اس طرح سر ہلایا جیسے اب ساری بات سمجھ گئی ہو۔ پھر اس نے کہا : ’’افسوس میں اسے اس قدر عیار نہ سمجھتی تھی …… کتنی مکار نکلی وہ!‘‘ میں نے کہا : ’’تمہاری بہن تھی نا وہ‘‘ ، ’’نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔ وہ میرے پڑوس میں رہتی تھی۔ اس کا شوہر کہیں باہر چلا گیا تو تنہائی کی وجہ سے ہم دونوں ساتھ رہنے لگے۔ بڑی مدت کے بعد اس کاشوہر باہر سے واپس آیا۔ پھر کسی سنگین جرم کے الزام میں اس کا وارنٹ نکلا۔ وہ بھاگ گیا لیکن ارملا حراست میں لے لی گئی اس کی رہائی کی پہلی شرط تھی کہ اس کا شوہر عدالت پہنچادیا جائے۔اس نے وعدہ کیا کہ وہ خود اپنے شوہر کو عدالت کے حوالے کردے گی۔ اس کی سزا کا فیصلہ ہوچکا تھا …… ڈھائی سال قید …… چونکہ آپ اس کے شوہر کے بالکل ہم شکل تھے اس لیے اس نے آپ ہی کو پھانسا اور آپ اس کے پھندے میں آگئے۔ ’’اب ارملا کہاں ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’وہ تو اسی دن غائب ہوگئی۔‘‘ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ’’اف کتنا بڑا دھوکا کھایا میں نے۔‘‘ شدتِّ جذبات سے میرا سر چکرا رہا تھا۔ کملا سے مجھے معلوم ہوا کہ میرے غائب ہونے پر تمام ہوسٹل میں کھلبلی مچ گئی۔ ادھر سے میرے والد، چچا، ماموں، سبھی آئے۔ چھ ماہ تک مسلسل میری تلاش ہوتی رہی۔ جو کوئی جوکچھ بھی کرسکتا تھا کیا۔ آخر صبر کرکے بیٹھ گئے۔ اب میرا دل وہاں کیا خاک لگتا۔ میں وہاں سے اٹھا تو سیدھا ہوسٹل پہنچا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہوسٹل پر کتنا غل ہوا، کتنے سوالات کی مجھ پر بوچھاڑ ہوئی۔ میں بمشکل تمام ایک گھنٹہ ہوسٹل میں ٹھہرا ہوں گا۔ میرا تمام سامان پرنسپل صاحب کے پا س محفوظ تھا۔ میں اسی دن بلکہ اسی وقت گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔ سچی بات ہے کہ اس کے بعد مجھے دنیا بھر کی عورتوں سے نفرت ہوچکی تھی … میری نظر میں تمام عورتیں ’’مکار‘‘ تھیں۔ فریبی اور خود غرض تھیں۔
گھر پہنچا تو ایک تہلکا مچ گیا۔ میری طرف سے سب صبر کرچکے تھے۔ میری موجودگی پر کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا، میرے خاندان کی حالت کیا ہوگئی تھی اور میرے اچانک مل جانے سے گھر والوں کا کیا حال تھا؟ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ شائستہ سخت بیمار ہے، یہاں تک کہ سب اس کی زندگی سے بھی مایوس ہوچکے ہیں۔ میں نے اس کی پرواہ نہ کی۔ مجھے شائستہ سے بھی انجانے طور پر نفرت ہوچکی تھی …… میں نے سوچ لیا تھا اب عمر بھر شادی نہ کروں گا۔ میری نظر میں دنیا کی سب عورتیں ایک طرح کی تھیں۔ میں شائستہ اور ارملا میں کوئی فرق نہ سمجھتا تھا۔ شائستہ کے لیے میرے دل میں کوئی ہمدردی پیدا ہوتی بھی تو اسے ارملا کا خیال دبا دیتا … ایک مہینے کے بعد شائستہ چلنے پھرنے کے لائق ہوگئی اور حالات و ماحول کچھ اس قسم کے بن گئے کہ میں شادی سے انکار نہ کرسکا…… اور ہماری شادی چھ ماہ کے اندر اندر ہوگئی لیکن میرے دل میں غصہ و نفرت کے جذبات اسی طرح موجزن تھے اور میںطرح طرح سے انتقام لینے کی سوچ رہا تھا۔ ارملا ہو یا شائستہ عورت ہی سے میں نے وہ دکھ اٹھایا تھا اور عورت ہی سے انتقام کا جنون میرے دماغ پر سوار تھا۔ میں ہر وقت نئے نئے منصوبے بناتا اور بگاڑتا رہتا۔ ایک روز ناشتہ پر معلوم نہیں کیا خیال آیا۔ میںنے شائستہ سے کہا۔ ’’شائستہ مجھے تم سے نفرت ہے۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ میں نے کہا ’’تم مذاق سمجھتی ہو…… میں سنجیدہ ہوں۔‘‘
اس نے کہا ’’اچھی بات ہے …… صاف گوئی بہت اچھی چیز ہے……‘‘
’’میں تم سے کبھی محبت نہیں کرسکتا۔‘‘ میں نے جھنجھلا کر فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’لیکن میں نے کہا کب کہ آپ مجھ سے محبت کیجیے۔‘‘
’’میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔‘‘ میں نے غصہ سے کہا۔
’’کیے جائیے! میری محبت کو آپ کی محبت کے جواب کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔
’’کیا تم سچ مچ مجھ سے محبت کرتی ہو؟‘‘
’’آپ کو شک ہے؟‘‘
’’ہاں! میں تمہار امتحان لینا چاہتا ہوں، کیا دوگی؟‘‘
’’کیوں نہیں‘‘
’’تم تیا رہو؟‘‘ اگر میں تم سے زہر کھانے کو کہوں تو کیا تم کھا لوگی؟‘‘ خدا جانے میں کیوں پاگل ہورہاتھا۔
’’کیا معلوم کھا ہی لوں۔‘‘ اور وہ دوبارہ ہنس پڑی۔ ’’آپ مجھ سے کیسی بچوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’مذاق نہیں! میں حقیقتاً کہہ رہا ہوں۔ مجھے یقین نہیں کہ میرے کہنے پر تم ایسا کرسکتی ہو۔‘‘
’’تو آزما لیجیے نا‘‘ اس نے پھر ہنستے ہوئے کہا ۔ درحقیقت وہ میری باتوں کو مذاق سمجھ رہی تھی۔ میں جھنجھلا کر خاموش ہوگیا۔ خدا جانے میں اس سے کیا کہلوانا چاہتا تھا۔ اس بات کو کئی روز گزر گئے۔ ایک دن سارا خاندان سیر کو گیا ہوا تھا۔ سب تو ادھر ادھر پھر رہے تھے میں اور شائستہ گھومتے گھومتے اس خوفناک کنوئیں کے پاس پہنچ گئے جس کی گہرائی کا کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ جہاں نیچے بہت سی مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ اور جسے دیکھ کر ہی چکر آنے لگتا ہے، خدا جانے میرے دماغ کو کیا ہوا کہ میں نے کہا: ’’شائستہ اگر میں تم سے اس کنوئیں میں کودنے کو کہوں؟‘‘
شائستہ پھر مسکرانے لگی ’’تم مذاق سمجھ رہی ہو… مجھے تم سے ہی نہیں دنیا کی ساری عورتوں سے نفرت ہے۔ … میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس کنوئیں میں کود جاؤ۔‘‘ میری آواز میں گرج تھی۔ غصے کی کپکپاہٹ تھی۔ میری یہ کیفیت دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی اور سہم سی گئی۔ اور تعجب سے میری طرف دیکھنے لگی۔ ’’آپ خود ہی پھینک دیجیے۔‘‘ اس نے خشک لہجہ میں کہا۔
’’اچھا‘‘ میں نے کہا اور دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دئیے۔ جیسے میں اسے دھکیل رہا ہوں۔ اس مضحکہ خیز حرکت پر اسے پھر ہنسی آگئی، ’’تم مذاق سمجھ رہی ہو، میں واقعتاً تمہیں گرانا چاہتا ہوں اس میں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہاں تو میں نے کب منع کیا ہے؟‘‘ اور اس نے شرارت سے کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔
’’شائستہ‘‘ میں چیخا’’میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔ میں تمہیں اس میں دھکیل دوں گا۔‘‘
’’تو دھکیل دیجیے نا، منع کون کررہا ہے۔‘‘ معلوم نہیں کیوں وہ اس ساری بات کو مذاق ہی سمجھنے پر مصرتھی۔ طیش کی انتہا نے مجھے دیوانگی کی حد تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد معلوم نہیںمیں نے کیا کیا۔ ایک دلدوز چیخ سنائی دی اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں گھر میں پلنگ پر پڑا ہوا تھا۔ ڈاکٹر اور گھر کے لوگ میرے گرد جمع تھے ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ شائستہ اچانک گر پڑی اور اس صدمہ سے میں بے ہوش ہوگیا…… مجھے معلوم ہوا کہ تین دن کے بعد مجھے ہوش آیا ہے… مجھ میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ شائستہ کے متعلق پوچھتا۔ اور لوگوں نے مصلحتاً مجھ سے کچھ ذکر نہ کیا۔ میرا حال اب یہ تھا کہ سب کی ہمدردی اور خاطرمدارات میرا منہ چڑھاتی۔ مجھے ہر طرف شائستہ ہی نظر آتی …… اور عجیب عجیب خوفناک شکلیں مجھے کھانے کو دوڑتیں۔ اب گھر میں میرا بالکل دل نہ لگتا تھا۔ آخر ایک رات گھر سے بھاگ نکلا … کس قدر سخت جان تھا میں، تین روز بارش اور سردی کا مقابلہ کرتا رہا مگر زندہ رہا اور پھر شاید مرجاتا کہ آپ لوگ پہنچ گئے۔ اُف خدا …… رونی پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا، پرویز بھیا بھی رو رہے تھے، میری خود ہچکی بندھی ہوئی تھی۔ اس وقت گھر کے تمام لوگ جمع ہوچکے تھے۔ لیکن ہم کو خبر تک نہ ہوئی۔
اچانک رونی کے فلک شگاف قہقہہ نے سب کو چونکا دیا۔ مجھ پر دہشت طاری ہوگئی۔ پرویز بھیا جم کر کھڑے ہوگئے۔ رونی چیختا قہقہہ لگاتا صحن کی طرف دوڑا۔ ’’شائستہ! شائستہ! میں آرہا ہوں… مجھے پکڑ لو شائستہ، تم ناراض ہوگئیں، وہ امتحان … شائستہ! دیکھو تمہارا مجرم میں نہیں ارملا ہے۔ دیکھو وہ بھاگ رہی ہے، دنیا سے بھاگ رہی ہے، سمجھتی ہے کہ وہاں بھی بھاگ جائے گی، نہیں نہیں شائستہ! اسے بھاگنے نہ دینا… پکڑ لو مجھے بھی پکڑلو۔ اب خدا کی عدالت میں ہمارا فیصلہ ہوگا … تمہارا گنہگار میں نہیں ارملا ہے … رونی دیوانہ وار چیخ رہا تھا۔ اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اس طرح اچھل رہا تھا جیسے پرواز کرنا چاہتا ہو۔ اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا اور سب ہی دم بخود کھڑے اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ دیکھو دیکھو وہ موت کے فرشتے مجھے لینے آرہے ہیں … شائستہ … ان خوفناک شکلوں سے مجھے بچالو ……‘‘ اور اچانک اس کی آواز بند ہوگئی۔ وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا … سب اس کی طرف دوڑے ، لیکن … وہ سب آنے والوں سے بے نیاز ہوچکا تھا …… پرویز بھیا نے جھک کر اس کی نبض پر ہاتھ رکھا …… انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔