اندرا گاندھی بہ حیثیت ماں

ترجمہ: طاہر منصور فاروقی

۱۹۴۴ء میں میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا۔ میرے والد اس کا کوئی اچھا سا نام رکھنا چاہتے تھے۔ میں نے انہیں ناموں کی ایک فہرست بھیجی۔ اسی طرح انھوں نے بھی ایک فہرست بھیجی۔ میری ایک سہیلی نے بھی کچھ نام تجویز کیے جن میں راجیو بھی شامل تھا۔ تب تک میں نے کسی کا نام راجیو نہیں سنا تھا۔ راجیو کے معنی ہیں کنول کا پھول۔ میری والدہ کے نام کا مطلب بھی کنول ہے۔ میرے بیٹے کا پورا نام راجیو رتنا ہے۔ رتن کا مطلب بھی وہی ہے جو جواہر کا ہے۔ یوں یہ نام میرے والد اور والدہ کے ناموں کا امتزاج ہے۔
میری شادی کی ایک وجہ میری بچوں کی خواہش بھی تھی، لیکن اس ضمن میں کچھ عرصہ میرے لیے پریشانی بھی رہی۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ ایام حمل کے دوران میں زندگی سے ہاتھ دھوسکتی ہوں۔ بدقسمتی سے اس نے یہ بات لکھ کر دے دی تھی۔ چنانچہ میں جب امید سے ہوئی تو بہت سے خدشات نے ہمیں گھیر لیا۔ الہٰ آباد میں ڈاکٹر نے میرا کیس لینے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہ بھی ہماری ملنے والی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں بمبئی چلی گئی۔ اور وہاں اپنی پھوپھی کے پاس رہی۔ وہاں میرے ہاں راجیو پیدا ہوا۔ ایک مکمل اور صحت مندبچہ۔ خود میںبھی صحت مند اور ہر طرح ٹھیک رہی۔ نہ تو زچگی کی کوئی تکلیف ہوئی اور نہ کوئی دوسرا مسئلہ کھڑا ہوا۔
یہ لمحات میری لیے زندگی کے خوبصورت اور پُر مسرت تھے۔ تاہم ایک بات ہے کہ اس وقت راجیو زیادہ خوبصورت نہیں تھا۔ ٹیگور نے لکھا ہے کہ ’’ہر آنے والا بچہ اپنے ساتھ یہ پیغام لاتا ہے کہ خدا ابھی بنی نوعِ انسانی سے مایوس نہیں ہوا۔‘‘
ایک عورت کے لیے ماں بننا اس کی عظیم ترین تکمیل ہوتی ہے۔ ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانا اس کے ننھے منھے ہاتھ پاؤں کو دیکھ کر اس کے اعلیٰ مستقبل کے خواب دیکھنا زندگی کے تمام تجربات سے بڑا اور کیف آور تجربہ ہے۔ اس سے انسان حیرت اور سرفرازی سے لبریز ہوجاتا ہے۔
دسمبر ۱۹۴۶ء میں میرے ہاں دوسرے بچے یعنی سنجے کی پیدائش ہوئی۔ گھر مہمانوں سے بھرا پڑا تھا۔ لیڈی کرلپس اور کئی دیگر شخصیات بھی موجود تھیں۔ میری خواہش تھی کہ بیٹی پیدا ہو۔ ہم نے لڑکیوں کے کئی نام بھی سوچ رکھے تھے۔ دوسرے بیٹے کا نام عجلت میں رکھا گیا۔
سیاسی جدوجہد کی وجہ سے میرا بچپن غیر معمولی رہا تھا جس میں تنہائی اور عدم تحفظ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے بچوں کو پورا وقت دینا چاہتی تھی۔ ایک بچے کے لیے ماں کی محبت اور توجہ اتنی ہی بنیادی اور ضروری ہے جتنی کسی پودے کے لیے دھوپ اور پانی۔ کسی بھی ماں کے لیے سب سے پہلی ترجیح اس کے بچے ہوتے ہیں کیوںکہ وہ ایک مخصوص انداز میں ماں پر انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری زندگی کا اصل مسئلہ یہی تھا کہ میں عوام کے لیے اپنی ذمہ داریوں اور گھر اور بچوں کے فرائض کے درمیان ہم آہنگی کیسے پیدا کروں۔
جب راجیو اور سنجے ابھی کم سن تھے۔ تو ان کی ضروریات کے لیے کسی آیا وغیرہ کا تصور میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ چنانچہ مجھ سے جو ہوسکتا تھا کرتی رہی۔ بعد میں جب وہ اسکول جانے لگے تو میں نے اپنی مصروفیات ان کے اسکول سے واپس آنے تک محدود کرلیں تاکہ بچوں کو واپسی پر میں فارغ ملوں۔ ایک دفعہ سنجے ابھی بہت چھوٹا تھا تو اس کے ایک کلاس فیلو کی والدہ ہمارے گھر آئی۔ بچے کی ماں ایک سماجی خاتون تھی۔ وہ میرے عوامی کاموں پر تنقید کرنے لگی۔ اس کا کہنا تھا کہ میں اپنے بیٹوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار رہی۔ سنجے کو یہ بات بری لگی اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتی وہ دوڑتا ہوا میری مدد کے لیے آیا اور بولا… میری ماں کو بہت سے اہم کام کرنا ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ میرے ساتھ کھیلتی ہے۔ اور اس سے زیادہ وقت ہمیں دیتی ہے جتنا تم اپنے بچے کو دیتی ہو۔ اس کا اشارہ برج کھیلنے کی طرف تھا، جس پر سنجے کا دوست ماں کی شکایت کیا کرتا تھا۔
بچے کے ساتھ گزارنے جانے والے وقت کا عرصہ اتنا اہم نہیں جتنا وقت کا مناسب مصرف اور انداز ہے جس کسی کے پاس بچوں کے لیے کم وقت ہو تو اسے میسر وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہیے تاکہ بچے مطمئن ہوسکیں۔ میں چاہے کتنی ہی مصروف ہوتی، کتنی ہی تھکی ہوئی ہوتی چاہے بیماری ہوتی میں نے کبھی بھی بچوں کے ساتھ کھیلنے اور پڑھنے سے گریز نہیں کیا۔
بچوں کی تربیت مثالیطور پر ہونی چاہیے۔ بچے غیر معمولی طور پر معمولی چیزوں کو سمجھتے اور آپ کا احترام کرتے ہیں۔ تو وہ چھوٹی سی عمر میں بھی آپ سے تعاون کریں گے۔ میرا بڑا بیٹا راجیو بہت ہنس مکھ اور خوش باش قسم کا بچہ تھا، لیکن تین سال کی عمر میں جب اس کا چھوٹا بھائی سنجے پیدا ہوا تو ہمیں الٰہ آباد چھوڑنا پڑا۔ چھوٹے بچے کی موجودگی اور مانوس ماحول سے محرومی جیسی تبدیلیوں نے اسے الجھا دیا۔ خود میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ چنانچہ راجیو کی جھلاہٹ مجھے برہم کردیتی۔ اسے جھڑکنا مزید خراب کردیتا۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اسے ذہنی طور پر مطمئن کیا جائے۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے اتنے عزیز ہو کہ تمہارا چیخنا اور رونا پریشان کردیتا ہے۔
وہ بولا… ’’میں کیا کروں میں رونا نہیں چاہتا لیکن یہ خود بخود ہی ہوجاتا ہے۔‘‘
میں نے کہا…’’ہمارے باغ میں ایک خوبصورت چشمہ ہے۔ جب تم رونا چاہو تو وہاں چلے جایا کرو۔‘‘
اس کے بعد جب بھی اس کے رونے کے آثار نمودار ہوتے میں سرگوشی کرتی… چشمہ… اور وہ فوراً وہاں چلا جاتا۔ باغ میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جو بچے کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ اس طرح راجیو بھی وہاں جاکر اپنی تکلیف بھول جاتا۔
جب بچے اتنے بڑے ہوگئے کہ وہ اسکول کے بورڈنگ میں رہنے لگے تو میں نے پارٹی کے کام کے لیے دوسرے شہروں میں جانا شروع کردیا۔ جب وہ گھر نہ ہوتے تو میں دور دراز کے سفر بھی کرلیا کرتی، لیکن چھٹیوں کے دنوں میں میں انہیں خوب وقت دیتی۔ جب میں بچوں سے دور ہوتی تو انہیں ہفتہ میں ایک یادو خط ضرور لکھتی تاکہ وہ مطمئن رہیں کہ ماں انہیں بھلائے ہوئے نہیں۔
زندگی غموں اور خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ تعلیم کا وسیع ترین مفہوم یہ ہے کہ جسم اور ذہن دونوں کی تربیت ہو اور ایسی متوازن شخصیت تشکیل پائے جو ہر طرح کے حالات میں خود کو سنبھال سکے۔ اور زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ آسانی سے ہم آہنگی پیداکرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ یہ محض اسکول کی پڑھائی اور کتابوں کے علم سے ممکن نہیں۔ اس کا انحصار زیادہ تر ماں کے رویے اور تربیت پر ہے۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ بچے میں خود نظمی اور کردار کی مضبوطی پیدا کرنے میں مدد کرے۔ حقیقی محبت یہ نہیں کہ بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کی جاتی رہے بلکہ یہ ہے کہ اسے منظم ہونا اور ضرورت کے مطابق حالات کو سمجھنا سکھایا جائے۔
بارہ سال کی عمر میں راجیو کو ایک آپریشن کے مرحلہ سے گزرنا پڑا۔ سرجن اسے بہلانے کے لیے کہنے لگا کہ اس اقدام سے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ لیکن میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اس طرح بچے کی ذہانت کی توہین ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے سرجن کی بات کاٹتے ہوئے کہا دیکھو راجیو یہ آپریشن ہے بعد کے چند روز تمہیں اچھی خاصی تکلیف اور درد ہوگا۔ اس لیے تمہیں خود کو تیار رکھنا ہوگا۔ اگر میرے لیے ممکن ہوتا کہ اس کی تکلیف میں برداشت کرسکتی تو ایسا کرلیتی لیکن چونکہ یہ ممکن نہ تھا اس لیے اسے ہی یہ سب کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے تھا۔ رونے دھونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ سردرد میں اضافہ ہوجاتا اور نتیجہ یہ نکلا کہ راجیو نے خندہ پیشانی سے سب کچھ برداشت کیا اور ڈاکٹر کو کہنا پڑا کہ اس نے بڑی عمر کے لوگوں میں بھی ایسا حوصلے والا مریض نہیں دیکھا۔
عوامی کام بعض اوقات مجھے بچوں سے دور لے جاتے۔ لیکن وہ اسے محسوس نہ کرتے۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اس طرح میں ہندوستان کے سبھی بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہوں۔ بہت زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بچوں کی شخصیت کو تسلیم کرنا اور ان کے خصوصی حقوق کا تحفظ نسبتاً ایک نئی بات ہے۔ تجربات، غلطیوں کے عمل نے دنیا سے منوالیا ہے کہ بچے کی شخصیت کو تسلیم نہ کرنا اور اس بات کی اعانت کے لیے ضروری اقدامات نہ کرنا معاشرے کو گمبھیر مسائل سے دوچار کردیتا ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد ہماری زندگیوں میں سنگ دلی کے ساتھ ایک تیزی پیدا ہوگئی ہے۔ بقا کی جدوجہد، تلاش معاش اور آسمان تلے اپنی جگہ کا حصول ذہنی دباؤ پیدا کررہا ہے۔
حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی فرد کو ہر وقت تبدیل ہوتی ہوئی صورت حال سے مطابقت پیدا کرنا پڑتی ہے۔ جوں جوں آدمی بڑا ہوتا ہے قدرتی طور پر یہ عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے اس کے نتیجے میں ہر نسل اور آنے والی نسل کے درمیان سوچوں (اندازِ فکر) کی خلیج وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔
مشہور فلاسفر اور شاعر خلیل جبران نے بچوں کے بارے میں لکھا ہے:
تم انہیںاپنی محبت دے سکتے ہو خیالات نہیں
کیوں کہ ان کے اپنے تصورات اور خیالات ہوتے ہیں
تم ان کے جسموں کی نشو ونما کرسکتے روحوں کی نہیں
کیونکہ ان کی رو حیں آنے والے کل کے مکانوں میں رہتی ہیں
جن میں تم کبھی نہیں جاسکتے
یہاں تک کہ اپنے خوابوں میں بھی نہیں
کتنے والدین فاصلوں کی گہرائی سے آگاہ ہوتے ہیں۔ بہت سے والدین اپنے بچوں کو محض اپنے وجود کی توسیع سمجھتے ہیں اور انہیں اپنی ناکام خواہش پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ اپنے والدین کی محبت اور احترام میں بچے جوان ہوکر اپنی خواہشات اور رجحانات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ انہیں اپنے پسندیدہ شعبے سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ چاہے اس شعبے میں ان کا میلان اور غبت فطری ہو لیکن وہ اپنے والدین یا سرپرست کے آگے سر جھکا دیتے ہیں۔
والدین کی خواہشات کا احترام عملی زندگی میں آنے والے نئے فرد کا جوش و جذبہ مردہ کردیتا ہے۔ یوں معاشرہ اپنی مشین میں ایک نئے پرزے کا اضافہ کردیتا ہے۔ حالاںکہ اسے ایک ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے جو پورے جوش و خروش، توانائی اور لگن سے انسانی برادری کی خدمت کرسکے۔ نہ کہ نیم ولی سے میکانکی انداز میں ایک پرزہ بن کر رہ جائے۔
اگر ماں کے بس میں ہو تو وہ اپنے بچے کی تمام مصیبتوں کو خوشی کے ساتھ خود جھیل لے لیکن افسوس بہت جلد ہمیں علم ہوجاتا ہے کہ انجام کار ہم نہ تو باپ ہیں اور نہ ماں۔ نہ شوہر اور نہ بیوی اور بچہ۔ ہم سب الگ الگ ایک ذاتی اور اکیلی کائنات ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے قانون اور اپنی نوعیت کے سچ میں رہنا پڑتا ہے تو کیا پھر والدین کو چاہیے کہ محض تماشائی بن کر رہ جائیں اور بچوں کو اپنی پسند کے راستے پر جانے دیں۔ کسی طرح کی نگرانی یا نگہبانی نہ کریں؟ نہیں زندگی اتنی بھی آسان نہیں۔ ہم والدین کے سامنے ایک پیچیدہ اور نازک فریضہ ہوتا ہے کہ ہم بچوں کی تربیت مداخلت کے بغیر اس طرح کریں کہ نہ تو بچوں کی شخصیت پر ہماری چھاپ پڑے اور نہ ان پر ہماری خواہشات نافذ ہوں۔
ہمیں بچے کو جرأت، خود اعتمادی اور پختہ کار ہونے میں مدد دینا ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے آکسفورڈ کے مسٹر اسمتھ نے انگلینڈ کے وزیر اعظم کو ۱۹۱۹ء میں لکھا تھا ’’کھلا ذہن، واضح نظر اور سچائی سے محبت ثبوت ہے کہ غلط استدلال، دقیانوسی باتوں اور بازاری زبان کے خلاف ایک بچے کی مناسب تربیت ہوئی ہے۔
اگر ہمارے پیشِ نظر یہی مقصد ہو تو ہم بچوں کو ایسی ٹھوس بنیاد فراہم کریں، جو ان کے لیے کامیاب زندگی اور گہرا تحفظ یقینی بنائے اور وہ محض آسان کام تلاش کرنے پر اکتفا نہ کریں۔
(اندرا گاندھی کی آپ بیتی سے ماخوذ)

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146