کل شب میرے ایک دوست کی بیٹی نے ایک دردناک قصہ سنایا۔ ان کے والد صاحب چند دن پہلے رحلت فرماگئے ہیں۔ مرحوم نے ایک طویل مدت تک مرض میں مبتلا رہ کر اذیت برداشت کی ہے۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں نے بڑے صبر کے ساتھ ان کے سالوں پر محیط دکھ دیکھے اور بہت دولت صرف کی۔ ان کی اولاد نے خدمتِ والدکی بھی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ ان کی تیمار داری میں اپنی ملازمت سے چھٹیاں لیں اور کاروبار سے ناغہ کیا۔ لیکن مریض کو صحت نصیب نہ ہوئی اور بالآخر وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں جابسے۔
آخری دن ان کے جسم میں درد کا بے تحاشا اضافہ ہوا۔ مرغِ بسمل کی تڑپ تو ایک گھڑی کے لیے ہوتی ہے۔ وہ گھنٹوں تک بے بسی اور بے چارگی سے درد کے مارے لاچار ہوگئے تو ان کے تیماردار سوچنے لگے، کسی قریب کے ڈاکٹر کو بلاتے ہیں۔ شاید وہ کوئی مسکن دوا دے دیں۔ یا کوئی نیند آور خوراک تجویز کریں اور مریض کی زندگی کی یہ ساعتیں بے اضطراب گزر سکیں۔
سہ پہر کے چار بجے تھے۔ مرحوم کے ایک بیٹے نے ڈاکٹر صاحب کے دروازے پر دستک دی۔ وہ باہر تشریف لائے، انہیں بیمار کا حال بتایا گیا اور ساتھ چلنے کی درخواست کی گئی وہ فرمانے لگے… ’’میں سات بجے سے پہلے نہیں جاسکتا۔‘‘ ان سے کہا گیا کہ مریض کی قیام گاہ آپ کے گھر سے کوئی تین سو میٹر ہوگی۔ آپ کو پیدل بھی نہیں لے جایا جائے گا۔ گاڑی حاضر ہے، آپ دس پندرہ منٹ میں واپس آجائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’میری اپنی والدہ کی طبیعت اچھی نہیں۔ میں اس وقت نہیں چل سکتا۔‘‘ اور وہ واپس اندر چلے گئے۔
ڈاکٹر صاحب کے بارے میںاس خاندان کی بہت اچھی رائے تھی۔ وہ ایک طرح ان کے عقیدت مند تھے اور ان پر انہیں بڑا مان تھا۔ لیکن اس جواب نے ان کے جذبات پر اوس ڈال دی۔ وہ غمگین اور دل برداشتہ ہوکر واپس پہنچے تو اس بیٹی نے ایک اور جاننے والے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا۔ انھوں نے بتایا کہ میں آپ کے گھر سے کوئی بیس منٹ کی مسافت پر ہوں اور میں آپ کی طرف گاڑی نکال کر روانہ ہورہا ہوں۔ اور وہ ٹھیک اپنے وقت پر آپہنچے۔ اس دوران اللہ جل شانہ نے اپنے کرم سے مریض کو سلا دیا یا بے ہوش کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تیمارداروں سے جب مریض کا حال سنا، تو انھوں نے یہی بہتر خیال کیا کہ انہیں سردست ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور وہ سلام کرکے رخصت ہوگئے۔
ادھر لوگ نمازِ مغرب پڑھ چکے اُدھر مریض کو بندش بول کی تکلیف شروع ہوگئی۔ اس نے جہاں مریض کی بے چینی میں بے انتہااضافہ کیا وہیں تیمارداروں کے کرب کی بھی انتہا نہ رہی۔ مرحوم کا ایک بیٹا پھر کار لے کر پہلے قریبی ڈاکٹر صاحب کے ہاں گیا۔ اب وقت بھی سات بجے سے آگے نکل چکا تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ ’’نکاسی پیشاب والی نالی ڈالنی ہے۔ آپ میرے ساتھ چلئے۔‘‘
’’میں گھر پر جاکر وزٹ کرنے کی فیس ایک ہزار روپے لیتا ہوں۔‘‘
’’آپ چلئے، یہ فیس پیش کردی جائے گی۔‘‘ گھر پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے اپنا عمل شروع کیا اس سے مریض کی بلبلاہٹ نے سارے افرادِ خانہ کو بے حد پریشان کردیا۔ نالی ڈالی جاچکی لیکن پیشاب جاری نہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے واپسی کا ارادہ کیا۔ فیس پانچ سو دی گئی تو وہ ناخوش ہوئے ان سے عرض کیا گیا کہ آپ کا عمل لاحاصل رہا ہے۔ اس لیے آپ کی آمد کی فیس اتنی ہی دی جارہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا: ’’میں نے کبھی یہ کام نہیں کیا تھا۔‘‘ … اگر آپ یہ کام نہیں جانتے تھے تو گھر سے یا کلینک سے روانہ ہونے کی بجائے یہی عذر کردیتے… آپ خود دیکھئے کہ فیس کی ہوس نے ڈاکٹر صاحب کو مریض تک چلنے کا حوصلہ تو دیا لیکن اپنی ناکامی کا یقین ہونے کے باوجود مریض کو مشقِ ستم سے گزارنا بھی کیا ضروری تھا۔ پانچ سو دے کر ڈاکٹر صاحب کو واپس پہنچادیا گیا۔
پھر ایک دوسرے ڈاکٹر کو لایا گیا۔ انھوں نے آرام سے نالی ڈالی اور نکاسی پیشاب ممکن ہوئی۔
شب کے گیارہ بجے مریض کو دوپہر والی تکلیف پھر شروع ہوگئی۔ شدتِ درد اور طبیعت کی بے چینی نے حالتِ زار کو ناقابلِ برداشت بنادیا تو گھر والوںنے فون کرکے ایمبولینس منگوا کر مریض کو ہسپتال منتقل کردیا۔ ایمبولینس والے کارکن بڑے فرض شناس اور ہم درد ثابت ہوئے۔ وہ کال ملنے کے دس منٹ بعد ہی آ پہنچے۔ خود ہی مریض کو گاڑی میں لٹایا اور ہسپتال پہنچایا۔ جہاں صبح تین بجے نمازِ تہجد کے وقت مریض نے آخری سانس لی۔ یہ وہ ساعت تھی جب وہ ہمیشہ اپنے رؤف و رحیم رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہوتے تھے۔ اُس دن مالک یوم الدین نے انہیں اپنی جنت میں لا بسایا۔ مرنے والا مرگیا۔ اور ہر انسان کو ایک دن مرنا ہی ہے، لیکن آج ایک طرف باپ کی وفات پر اس کا خاندان سوگوار ہے، دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کے مشینی رویے پر رنجیدہ بھی۔
میں سوچتا ہوں کہ لوگ دولت کی ہوس میں آخر اس قدر اندھے کیوں ہوئے جاتے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے ان ڈاکٹر صاحب کا تعلق ایک دینی جماعت سے تھا اور وہ اس کے فعال مبلغ بھی تھے۔
——