اندھا فرشتہ

ڈاکٹر بلند اقبال

محبت … بس امر بیل کی طرح ہوتی ہے۔ کبھی دھیمے سے دل کی منڈیروں پر چڑھ جاتی ہے تو کبھی چپکے سے کواڑوں میں الجھ جاتی ہے۔ کبھی چاندنی راتوں میں چاند سے شرما جاتی ہے تو کبھی شبنم کے قطروں کی طرح پتیوں کے دل میں سمٹ جاتی ہے۔ محبت … بس تتلیوں کے رنگوں کی طرح ہوتی ہے۔ کبھی بنفشی تو کبھی سرمئی، کبھی عنابی تو کبھی زعفرانی۔ جیسے پھولوں کے بوسوں سے تتلیوں کے کنوارے بدن پر سہاگن کے رنگوں کی طرح ، اور نہیں تو پھر محبت … کسی حسین مورنی کی طرح ہوتی ہے جیسے خانم بیگم کی محبت، چاندی کے پازیب باندھے چھن چھنا چھن قاسم میاں کے دل کے نہاں خانوں میں ناچ رہی تھی۔

مگرجسم کیا جانے تتلیوں کے کیا خواب ہوتے ہیں؟ ست رنگی کرنوں میں چھپے ہوئے کون سے آفتاب ہوتے ہیں؟ تو خانم بیگم کی بنجر زمین میں بھی پھول کھل نہ سکے اور لمس، جنس کی لذت سے آشنا ہوکربھی تتلیوں کے خواب بُن نہ سکے۔ خانم بیگم اجڑی کوکھ کے غم میں ساری عمر اشکبار ہی رہیں مگر قاسم میاں اپنے دل کے آ بگینوں میں ان کی محبت کی چاندنی میں سرشار رہے۔ مگر جسموں کی تو عمر ہوا کرتی ہے۔ وہ کب محبت کی طرح وقت کے پنجرے سے آزاد ہوا کرتے ہیں؟ تو پھر وقت چپکے چپکے گزرتا رہا اور قاسم میاں کے بالوں میں سفیدی اور خانم بیگم کی آنکھوں میں اداسی بھرتا رہا۔ بالآخر ایک رات ایسی آندھی چلی کہ قاسم میاں کے دل کے چراغ بجھتے چلے گئے اور پھر وہ سیاہ رات آئی کہ اس گھپ اندھیرے سے چاند سورج بھی پناہ مانگنے لگے۔

خانم بیگم کو اچانک دل کا دورہ پڑا اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملیں۔

کچھ دنوں تک تو قاسم میاں بے بس نگاہوں سے زمین کو تکتے رہے اور جب کوئی جواب نہ ملا تو آسمان کو دیکھ کر بلک بلک کر رو دیے۔غم اشک بن جائے تو دوا ہوجاتا ہے اور اگر درد بن جائے تو سوا ہوجاتا ہے۔قاسم میاں خانم بیگم کی یاد میں ایسے روئے کہ اپنی بینائی ہی کھو بیٹھے۔ عزیز و اقارب قاسم میاں سے منت سماجت کرتے تھے۔ انہیں اپنے ساتھ رہنے پر راضی کرتے تھے مگر قاسم میاں اپنے گھر کی دیواروں سے جڑے بیٹھے تھے۔ بالآخر عزیز و اقارب نے تنگ آکر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔

اب خالی گھر میں قاسم میاں دیواروں سے باتیں کرتے تھے۔ کبھی زمین تو کبھی آسمانوں سے باتیں کرتے تھے۔ بس ایک ہی آرزو میں جیتے تھے کہ کبھی خانم بیگم ان کے پاس آئیں گی اور وہ ان کے دکھڑے اپنے آنسوؤں سے دھوئیں گی۔ تو ایک رات وہ محبت کے مارے نابینا بوڑھے کے خواب میںآہی گئیں۔

اماوس کی اس سیاہ رات میں جب چاند بادلوں کی اوٹ میں بھی نہ تھا، قاسم میاں کے دل کے نہاں خانوں میں محبت کی چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ محبت … وہ کب وقت کی محتاج ہوتی ہے۔ وہ تو لمحہ بھر میں دل کی منڈیروں اور کواڑوں پر امر بیل کی طرح پھیل جاتی ہے۔ خانم بیگم نے پیار سے اپنے ہونٹوں کو قاسم میاں کے اشکوں سے نم کرلیا۔ اور ان کی نابینا آنکھوں کو محبت سے چوم لیا۔ پھر دھیمے سے کہنے لگی… دیکھونا! مجھے دیکھنے کے لیے تو تمہیں بینائی نہیں چاہیے۔ اور سنو جی… تمہیں پتا ہے نا؟… وہاں ساری حوریں بانجھ ہیں …… میری طرح۔ اور سارے فرشے خدا کی محبت میں اندھے ہیں۔ تمہاری طرح۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146