اس کا روز کا معمول تھا ادھر قریب کے اسکول کی گھنٹی بجی اور ادھر وہ اپنے دو ڈھائی سال کے بچے کو بوڑھی ماں کے پاس چھوڑ کر آس پاس کے گھروں میں جھاڑو برتن کرنے نکل جاتی۔ مگر جاتے ہوئے راستے میں پڑنے والے اسکول کے سامنے ذرا بھر رکنا نہ بھولتی۔ اسکول کے گیٹ کے اس پار قطار میں کھڑے ہوئے بچوں کے ساتھ تصور میں اسے ہمیشہ اپنا سونو نظر آتا۔ اپنے سونو کو اس اسکول میں پڑھانا اس کا سب سے بڑا خواب تھا۔ وہ اپنی آس پاس کی جھگیوں کے بچوں کی طرح اسے میونسپلٹی کے اسکول میں نہیں پڑھانا چاہتی تھی بلکہ ایک اچھے اسکول میں پڑھانے کا خواب اس نے سونو کی پیدائش سے ہی دیکھنا شروع کردیا تھا۔ تبھی سے اس نے ہر ممکن کوشش کرکے پیسے بچانے شروع کردیے تھے۔ دوچار گھروں میں اور کام لگالیا تھا۔ صبح سے شام تک جب وہ کام کرکے واپس آرہی ہوتی تو اس کی ہڈیوں تک میں تھکن اتر جایا کرتی تھی۔ مگر راستے میں پڑنے والا اسکول کا گیٹ اسے جیسے نئی حیات بخش دیتا تھا۔ آج بھی لمحہ بھر رک کر اس نے اسکول کی طرف دیکھا اور پھر بیگ صاحب کے گھر کی طرف چل دی۔ چوری ہونے کے خیال سے اس نے پیسے اپنے ساتھ ہی رکھ لیے تھے ۔ گھر میں چونکہ کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ اپنے پیسے حفاظت سے رکھ سکے، اس لیے چوری ہونے کے خیال سے وہ اکثر اپنے پیسے پروین باجی (جن کے گھر وہ کام کرتی تھی) کے گھر جمع کردیتی تھی۔ مگر پروین باجی کے گھر جانے سے پہلے اسے بیگ صاحب کے گھر کام کرنے جانا تھا۔ وہ بیگ صاحب کے گھر میں داخل ہوکر اپنے مخصوص کاموں میں مصروف ہوگئی۔ برتن دھوتے دھوتے بیگم صاحبہ کے چیخنے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ غالباً وہ کسی پر غصہ ہورہی تھیں۔ اس نے معاملے کی نوعیت جاننے کے لیے کچن کے دروازے سے بیڈ روم کی طرف جھانک کی دیکھا۔ تو اسے مسز بیگ کی غصہ سے تمتمائی ہوئی شکل نظر آئی۔’’میں نے ابھی کچھ دیر پہلے دو ہزار روپئے یہاں بیڈ پر رکھے تھے اور اب وہ غائب ہیں۔ میں پوچھتی ہوں انھیں زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔‘‘ مسز بیگ آئینہ کے سامنے بال سنوارتی ہوئی اپنی بیٹی سے استفسار کررہی تھیں۔
’’مجھے کیا پتا ممی۔‘‘ ڈولی نے اپنے بالوں کو سنوارتے ہوئے لاپرواہی سے کہا اور کنگھا رکھ کر اپنا کالج بیگ اٹھا کر چل دی۔
’’اچھا ممی میں کالج سے ذرا دیر سے آؤں گی اور ہاں پیسے آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں گی دھیان سے تلاش کیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مین گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
گھر بھر میں تلاش کرنے کے بعد بھی جب بیگم صاحبہ کو پیسے نہیں ملے تو اب ان کے شک کا رخ اس کی طرف ہوگیا۔ انھوں نے ایک غضبناک آواز کے ساتھ اس کو طلب کیا۔ وہ ڈری سہمی ان کے سامنے حاضرہوگئی۔ تھوڑی بہت پوچھ تاچھ کے بعد بیگم صاحبہ نے اس کی تلاش لی اور وہ پانچ پانچ سو کے چار نوٹ اس کے پاس سے برآمد کرلیے جو اس نے نہ جانے کتنی گرم تپتی دوپہروں اور سردی کی یخ ہواؤں کے درمیان رہ کر جمع کیے تھے۔ وہ بہت کچھ کہہ رہی تھی مگر اتنے بڑے بنگلے کی اونچی اونچی دیواروں کے درمیان جیسے اس کی آواز کہیں گم ہوکر رہ گئی تھی۔ ان لمبی لمبی راہداریوں میں اس کی آواز سننے والا کون تھا؟
خالی ہاتھ اور خالی دماغ لیے وہ اس عالیشان بنگلے سے باہر نکلی۔ اب آگے اور کسی کے گھر جانے کا اس میں حوصلہ نہیں تھا۔ دل پر بھاری بوجھ لیے وہ گھر کی طرف چل دی۔ آج ساری گلیاں سارے راستے اداس لگ رہے تھے۔ لمحے بھر میں اس کی متاع حیات لٹ گئی تھی۔ اسکول کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے قدم لرز گئے مگر پھر خود کو سنبھال کر وہ تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔ ٹوٹے ہوئے خوابوں کی سسکیاں اسے بہت دور تک سنائی دیتی رہیں۔ گھر پہنچ کر نہ اس نے کھانا بنایا اور نہ سونو کو پیار کیا بس منھ سر لپیٹ کر پڑی رہی ۔ ننھا سونو بھوک سے بلکتا رہا اور ماں یہ سوچ سوچ کر روتی رہی کہ وہ اس بچے کے لیے کھانا کہاں سے لائے۔
اگلے روز جب وہ کام کے لیے جاتے ہوئے بیگ صاحب کے گھر سے گزر رہی تھی تو ایک جمعدارنی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ کل بیگ صاحب کی چھوٹی بیٹی جو دسویں کی طالبہ ہے ایک لڑکے کے ساتھ ’’سجاتا نرسنگ ہوم‘‘ گئی تھی اور اس نے ہاؤ کہہ کر اپنے دونوں کانوں پر ہتھیلیاں رکھ لیں۔
——