میں تو اسے حسنِ اتفاق ہی کہوں گا کہ ہم سب بلند مرتبہ اور پیشہ لوگ ایک ہی پِک اپ میں سوار ہوئے۔ جیسے وہ پک اپ نہیں، کشتیٔ نوح تھی۔ دریا جب بغاوت پر آتے ہیں اور انسانی آبادیوں کو بہانے لگتے ہیں تو بھاگتے ہوئے انسانوں کے درمیان سے سماج کی تمام سخت کھردری،بلکہ نرم و نازک اقدار بھی بغاوت پر اتر آتی ہیں۔ ہم سب یقینا خوش قسمت تھے کہ ہم سب ایک ہی سطح کے آدمی اس پک اپ میںآگئے تھے۔ حسنِ اتفاق میں نے یوں کہا کہ ایسے نازک موقعوں پر طبقاتی تقسیم بلکہ تخصیص کہاں سلامت رہتی ہے اور عام دنوں کی بات ہی کیا، ان میں تو یہ امتیاز سانسوں کی آمدورفت کی طرح ضروری ہوتا ہے۔
ہم نے جب قصبہ چھوڑا تو دریا کی سرکش موجیں اتنی قریب آگئی تھیں کہ ہمیں کچھ سوچنے کا موقعہ نہ ملا۔ وہ تو کہیے خوش قسمتی سے ایک گھنٹہ قبل ہی سرکاری جیپیں ٹرک اور پک اپ اس ناگہانی آفت سے ہمیں رہائی دلانے کے لیے آگئے تھے۔ ورنہ نہ جانے کیا ہوتا، مگر اس وقت تک ہمیں اپنے گھر ے ہونے کا احساس نہ تھا۔ خدا کی رحمت پر توکّل ایسے موقعوں پر بڑا کام آتا ہے۔ لیکن موت کے آہنی پنجوں کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر زندگی کے سوا کچھ یاد بھی تو نہیں رہتا۔
اس پک اپ میں ۴ خواتین اور ۸ مرد سوار ہولئے۔ ہمیں دوسری گاڑیوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ ہوش تو کسے تھا جو معلوم کرتا۔ ہمیں تو قصبہ چھوڑتے ہوئے صرف موجوں کی مہیب شکل یاد تھی۔ اور زندگی کے بچاؤ کے لیے ’’جلِّ جلال تو‘‘ کا وظیفہ، جو لبوں پر اتنا گاڑھا ہوگیا کہ باچھوں سے رال بن کر بہہ رہا تھا۔ لیکن قصبہ نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہی تمام ارضی رشتے اس قدر یاد آئے کہ خواتین نے تو اونچے سروں میں نوحہ بھی شروع کردیا۔ ہم میں شاید ہی کوئی کٹھور ہوگا جس کی آنکھوں میں ستارے نہ آگئے ہوں۔ ستارے جو آج بھی انسانوں کی بے بسی ہیں اور ان کی بے بسی کے راز دار۔ باہر فضا میں دھندلکے، دھیرے دھیرے اتھاہ تاریکی کا روپ اختیار کرتے جارہے تھے اور ہمارے ذہنوں میں ہمارے گھر، جائداد، کپڑے ، سکّے ا ور اجناس، چراغوں کی صورت میں ابھر رہے تھے، کپکپاتے، لرزتے روشنی کے تراڑے۔
لیکن وقت یقینا سنگدل تھا وہ ہمارے احساسات و جذبات کے مدّ و جزر سے قطعی بے نیاز گزرتا ہی رہا۔ پک اپ میں بیٹھے بیٹھے ہمارے جسم کے نچلے حصے منجمد سے ہوگئے، امدادی کیمپ جو سطح سمندر سے کافی بلند علاقہ کے ایک شہر میں تھا، نہ جانے کتنا دور ہوگیا تھا، حالانکہ ہم تو روز کے آنے جانے والے تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ بمشکل تین گھنٹے کا راستہ ہے۔
پھر خاموشی ہماری رفیق اور معاون ہوگئی۔ اس سے گفتگو کرتے کرتے بھی اکتاگئے، باہر کی فضا خواب کی پرچھائیوں کی طرح محسوس ہورہی تھی اور کانوں میں پھڑ پھڑاتے انجن کا بے ہنگم شور! وقت گزرتا جارہا تھا، دھڑلے سے گزرتا رہا، جیسے کسی کپڑے پر مشین کی سوئی دھاگے کے جوڑ ابھارتی چلی جائے۔
کسی نے ’’یا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا، کسی نے جماہی لی، کسی نے ٹھنڈی سانس بھری اور کسی خاتون کی گود میں کسی بچے نے دیپک چھیڑ دیا۔ ایک ایک لمحہ، صدیوں کی مسافت طے کرتا ہوا محسوس ہوتا رہا اور جب ہم خطرہ سے بالکل دور ہوگئے کہ پانی کے دیوپیکر دھارے ہماری گرد بھی نہ پاسکتے تھے، تو ہمارے درمیان گفتگو اس محتاط طریقے پر ہونے لگی، جس طرح بلّی کسی چوکنّے چوہے کو شکار کرنے کے لیے اس کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔
اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ اگلی سیٹ پر خان بہادر صاحب بیٹھے ہیں اپنی بیگم کے ساتھ۔ میں ان کاپرانا مصاحب تھا، ان سے گفتگو کرنے کے لیے میرا پیٹ پھولنے لگا۔ اگلے اور پچھلے حصے کے درمیان فولادی دیوار کے ایک دریچے سے جو غالباً ہوادان کے طور پر قائم کیا گیا تھا، میں نے جھانک کر انہیں سلام پہنچایا۔
ان کی آواز میں اتنا بلغم تھا کہ مجھے ان کا جواب بڑا ہی وزنی معلوم ہوا۔ میں نے عرض کیا: ’’حضور !اس بلائے ناگہانی کی کسے خبر تھی؟‘‘
’’خبر ہو بھی جاتی تو بہر حال بھاگنا تھا، غم تو یہ ہے کہ آج بالکل کنگال ہوگئے۔‘‘
’’یہ کیا فرمارہے ہیں، ماشاء اللہ شہر کے مکانات بھی بہت ہیں۔‘‘
’’ہا— آں آں لیکن اونٹ کے منھ میں زیرہ۔‘‘ انھوں نے اس طرح سانس لی جیسے پھنسے نہیں بلکہ بھینچے بیٹھے ہیں۔
’’کیا کچھ تکلیف میں بیٹھے ہیں؟‘‘
’’ہائے جائے تنگ است‘‘ ان کی آواز میں ایک کھوکھلا قہقہہ بھی سمٹا ہوا تھا۔
’’ادھر تشریف لے آئیں۔‘‘
’’تم لوگوں کو زحمت ہوگی اور پھر بیگم ادھر تنہا رہ جائیں گی۔‘‘
’’گنجائش تو ادھر کافی ہے، بیگم صاحبہ بھی آسکتی ہیں۔‘‘
جواب میں ان کے بے ربط فقرے سنائی دیے۔
’’بڑی تاریکی ہے۔‘‘ ’’خدا بندے سے خود پوچھے۔‘‘
بیگم صاحبہ کی کھسر پھسر ہوا کے جھونکے کی طرح کانوں کے پردوں سے جاٹکرائی۔ میں ان دونوں کی صحت اور صدمہ کے بارے میں سوچنے لگا۔
اسی وقت پک اپ ایک جھٹکے سے رک گئی۔ مجھ پر ایک صاحب اندھے ہوگئے اور پک اپ کا فولادی جسم میری کھال کی سختی آزمانے لگا۔ باہر سے ایک منمناتی آواز کانوں میں در آئی، کچھ دیر بعد ایک سایہ سا ہمارے درمیان آگیا، جس کے ہاتھوں میں ٹوکری نما کوئی شے تھی۔ دھندلی دھندلی فضا میں یہ پیکر کچھ خواب آلود سا لگا۔
پک اپ پھر چل دی۔ اور ہماری قوتِ شامّہ جاگ اٹھی۔ ہلکی ہلکی سوندھی سوندھی بو جیسے کوئی بیسن بھون رہا ہو، ہماری ناکوں میں رچ بس گئی اور ایک سوئی ہوئی بھوک انگڑائی لے اٹھی۔
’’یہ مہک کیسی ہے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’حضور پکوڑے ہیں۔ ڈرائیور صاحب نے بڑا کرم کیا مجھے جگہ دے دی، ورنہ میں تو مر ہی جاتا، گاؤں والے تو سارے ہی مجھے اکیلا چھوڑ گئے، غریب کو بھلا کون پوچھے؟‘‘
یہ بوڑھی آواز پک اپ میں وارد نئے مسافر کی تھی۔
’’کیا آپ پکوڑے بیچتے ہیں؟‘‘ میںنے پوچھا، اس لہجے میں جیسے مطلب ہو کہ کمال کرتے ہیں آپ بھی۔ میں نے انگلیوں سے جیبیں ٹٹولیں جہاں کچھ بھی نہ تھا سوائے چند بوسیدہ کاغذات کے۔
’’جی ہاں، بس دال روٹی کا سہارا تھا۔ اب اللہ جانے کیا ہو؟‘‘ بڑے میاں نے جواب دینا ضروری سمجھا۔
’’تو ایک آنے کے دیجیے!‘‘ کسی نے کہا۔
کچھ دیر تک کاغذوں کے کھڑ کھڑ اور پکوڑوں کی تیز سوندھی بو، پک اپ میں رقصاں رہی بلکہ منڈلاتی رہی۔ میں تاب نہ لاسکا۔ ایک خیال کوندا، تاریکی ہے، ذرا سی ہمت درکار ہے اور پکوڑے میرے ہاتھ میں ہوں گے۔ اس وقت یہ خیال بھی نہ رہا کہ چوری کرنا گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔
مگر جس احساس نے اس خیال سے باز رکھا، وہ یہ تھا کہ سب اپنے ہی جاننے والے ہیں اور پتہ لگ گیا تو کرکری ہوجائے گی۔ اتنا باعزت آدمی اور اتنی چھوٹی بات! لیکن جب کانوں میں کسی کے پکوڑے چبانے کی ’’چپ چپ‘‘ آئی تو معدہ میں جو ہوا، سو ہُوا، دل میں بار بار یہ آیا کہ کاش میں کوئی چھوٹا آدمی ہوتا۔
میں نے دھیان دیا تو ایسا لگا کہ جیسے سب کے سب اسی قسم کی بے چینی میں مبتلا تھے۔ برابر والے صاحب مسلسل جیبیں ٹٹول رہے تھے اور ماہر آثارِ قدیمہ بن گئے تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً سب کے ہیولے گردش زدہ معلوم ہورہے تھے۔
مجھ میں کچھ دیر تک اخلاق اور بھوک میں جنگ جاری رہی۔ اور پھر میں نے قدرے جھک کر پکوڑوں کی جھبیاکی طرف ہاتھ کھسکانا شروع کردیا۔
اس وقت میرا دل پون چکّی تھا۔
ایک دو بار میں نے کھنکار کر بڑے میاں کو بھانپنے کی کوشش کی اور انتہائی چابکدستی سے اپنا ہاتھ جھبیا پر ڈھکا ہوا کپڑا ہٹا کر اندر ڈال دیا۔ مٹھی بھری اور بھر کر ہاتھ گھسیٹنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں پکوڑوں کے بجائے کوئی اور ہاتھ آگیا تھا۔ جو میرے ہاتھ سے نکلنے کے لیے بیتاب تھا۔ سامنے بیٹھے ہوئے صاحب مسلسل کھنکھار رہے تھے۔ان کی کھنکھار میں بے ربط، تنفس بھی شامل تھا میں نے ان کا ہاتھ چھوڑ کر اپنا ہاتھ نکالنا چاہا تو مجھے احساس ہوا کہ جھبیا میں ان کے دو ہاتھوں کے علاوہ بھی کئی ہاتھ تھے۔
سینے میں پھڑپھڑاتی پون چکّی، دل کی طرح دھڑکنے لگی اور میرے ماتھے کا پسینہ خود بخود خشک ہوگیا۔
پک اپ اسی رفتار سے رواں دواں تھی مگر نہ جانے کس راستے سے جارہی تھی کہ تین گھنٹے کا راستہ تیس گنا طویل ہوگیا تھا۔