ایک نہایت دلکش نسوانی آواز اچانک بلند ہوئی کہ لندن جانے والے پاکستانی مسافر تیار رہیں کیونکہ ان کا جہاز عنقریب پرواز کرنے والا ہے۔ اس نے جلدی سے اپنا بیگ سنبھالا اور وسیع ہال میں سے گزر کر ویٹنگ روم کی طرف بڑھنے لگا۔چاروں طرف بھانت بھانت کے لوگ جمع تھے، پاکستانی بھی تھے اور غیر پاکستانی بھی۔ سگریٹ کے دھوئیں سے فضا کچھ دھندلائی سی تھی۔ وہ بڑی احتیاط سے چکنے فرش پر چل رہا تھا۔ ویٹنگ روم کے فرش پڑ بے حد قیمتی اور قالین تھا۔ وہ ایک صوفہ کے کنارے سے ٹک سا گیا۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ پورے جسم میں ایک عجیب سی لرزش تھی۔ حلق خشک ہوا جارہا تھا۔ ہتھیلیاں نم آلود ہورہی تھیں۔ اس کے عین سامنے دو انگریز لڑکیاں بغیر آستین اور کھلے گلے کی فراکوں میں ملبوس بڑی لاتعلقی سے کھڑی تھیں۔ ان کہنیوں تک بازو، سینے اور پشت کا بالائی حصہ سورج سے گہرے سنہرے ہوگئے تھے۔ لمبی لڑکی کا چہرہ اور بازو سنہری تلوں سے اٹے پڑے تھے۔ اس کی آنکھیں نیلی اور کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ٹھنڈی اور بغیر کسی تاثیر کے تھیں۔ غالباً انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ مشرق میں گزارا تھا۔ وہ خاموشی سے سگریٹ پی رہی تھیں۔ ان کے قریب ہی ایک فرانسیسی بلونڈ لڑکی کسی رسالہ کی ورق گردانی کرہی تھی۔ اس کی سلیکس بہت تنگ اور ٹخنوں سے اونچی تھی۔ اس کا مرد ساتھی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اخبار دیکھ رہا تھا۔
اس نے اپنے سراپا پر نظر دوڑائی۔ ایرکنڈیشنڈ کمرے میں ہونے کے باوجود کنپٹیوں پر پسینہ کے قرطے ابھر آئے۔ وہ بے حد نروس ہورہا تھا۔ جسم کی رگیں کھینچ سی رہی تھیں جیسے وہ غلط جگہ آگیا ہو، اس نے پیچھے نظر دوڑائی۔ اس طرف چند پاکستانی تھے۔ ایک سانولی سی لڑکی اچھی طرح ساری لپیٹے نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ انگریز اور فرانسیسی دوشیزاؤں کو دیکھنے کے بعد اسی وہ سانولی ہی لگی، ہوسکتا ہے اچھا خاصا کھلتا ہوا گندمی رنگ ہو۔ لڑکی بہت زیادہ گھبرائی ہوئی تھی۔ غالباً پہلی پہلی بار پردے سے باہر آئی تھی۔ اس کے ہاتھوں پر مہندی کی پھیکی پھیکی سی پیلاہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ چند برقعہ پوش عورتیں اور ایک بوڑھا شخص اسے تسلیاں دے رہا تھا۔