حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیین بنا کر بھیجا گیا اور آپؐ کی امت کو انسانوں کی راہ نمائی کا شرف حاصل ہوا، اور امت مسلمہ کو ’’درمیانی اور بہترین امت‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’اور اس طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا تاکہ تم انسانیت پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنیں۔‘‘ (البقرہ)
درمیانی امت وہ قوم ہے جہاں پر قدیم دور کا اختتام اور جدید دور کا آغاز ہوتا ہے۔ یعنی اسلام نے انسانیت کو قدامت پسندی سے نکال کر جدت پسندی کی طرف راغب کیا۔ یہی وجہ ہے جدید اور تجرباتی سائنس کا آغاز ظہور اسلام کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ قدیم یونانی دور جو کہ نظریاتی اور فکری دور تھا اسے تجربات اور حقائق سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ اسلام نے انسانیت کو وحی کی روشنی میں فطرت اور تاریخ کے مطالعے کی دعوت دے کر ایسے سر چشموں کی راہ نمائی کی جو حقائق کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور انسان کے بس میں بھی تھے۔ اسلام نے نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کیا، اور اس کے ساتھ ہی موروثی بادشاہت اور مذہبی پیشوائی کا بھی خاتمہ کر دیا، انسان کو عقل اور تجربے کے استعمال کی دعوت دی اور یوں اسلام کا وہ تاریخی کردار مقرر کیا جہاں ایک طرف اس کا رشتہ وحی کے ذریعے قدیم دنیا سے بھی قائم تھا اور دوسری طرف وحی کی روح نے اس کا رابطہ جدید دور سے بھی قائم کر دیا۔
اب تحصیلِ علم ہر انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں رہا ہے۔ تاریخ انسانی کا طویل ترین دور ایسا گزرا ہے کہ جب کاہنوں اور پجاریوں یا خصوصی مرتبے کے حامل طبقے ہی کی علم پر اجارہ داری تھی۔ عوام الناس کو علم سے دور رکھنے کے لیے سخت ترین سزاؤں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ اسلام ہی نے ہر فرد پر حصولِ علم واجب قرار دیا اور علم کی روشنی کو عام کرکے انسانی زندگی میں عظیم ترین انقلاب برپا کیا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’تمام انسانوں میں سے تم بہترین امت ہو، تم بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ (آل عمران)
انسانو ں کی راہ نمائی کا جو فریضہ مختلف انبیاء ادا کرتے تھے اب وہی فرض امت مسلمہ کے لیے مقرر ہوا۔ پہلے جو کردار علاقوں اور قوموں تک محدود تھا، اب ساری انسانیت کے لیے عام کر دیا گیا۔ اسلام نے معاشرتی اونچ نیچ کو ختم کر کے ’’وحدتِ انسانیت‘‘ اور مساوات کا درس دیا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو برابری کے حقوق دیے اور شرف انسانیت بخشا اور عزت و تکریم کا معیار خاندانی و موروثی حیثیت کے بجائے عمل اور تقویٰ کو قرار دیا۔ دیگر معاشروں کی بنیاد رنگ و نسل اور علاقوں پر ہے جب کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد مشترک منزل کی طرف پیش قدمی پر ہے۔ اسلامی معاشرہ بھائی چارے کے اصول پر قائم ہے اور اس میں افراد کے درمیان رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاتی۔ امت مسلمہ ایسے افراد کا مجموعہ ہے جو خدا کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر رہے ہوں۔
شریعت ان اسلامی ضوابط اور قوانین کا مجموعہ ہے، جن کا منبع قرآن و حدیث اور اجماع ہے۔ شریعت انسان کی تمام سرگرمیوں، خواہ وہ معاشرتی ہوں یا معاشی، سیاسی ہوں یا اخلاقی اور ثقافتی‘ کا احاطہ کرتی ہے۔ اسلام دینی اور دنیاوی زندگی میں تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی انہی تعلیمات کی وجہ سے لوگ جوق در جوق اسلام کی طرف متوجہ ہوئے، خصوصاً معاشرے کے پسے ہوئے طبقے نے اسلام میں پناہ حاصل کی اور اپنے گلے سے اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق اتار پھینکا اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں مقام حاصل کیا۔
اسلامی تعلیمات نے تمام معاشروں میں انقلاب برپا کیا۔ باقی معاشروں کی طرح برصغیر پاک و ہند میں بھی انسان ذات پات کی تقسیم اور چھوت چھات کا شکار تھا۔ یہاں جب اسلام کی روشنی آئی تو صرف ان لوگوں میں ہی تبدیلی نہیں آئی جنھوں نے اسلام قبول کیا، بل کہ خود ہندوستانی معاشرے پر بھی اس کے اثرات پڑے۔ اسلامی تعلیمات سے برصغیر کی سماجی، سیاسی اور مذہبی زندگی میں بھی انقلابی تبدیلیاں آئیں۔
اسلامی تعلیمات دنیا کے ہر کونے میں پہنچیں۔ انسان کو انسانی خداؤں سے نجات ملی۔ انسانیت کو اس کے حقوق ملے، انہی تعلیمات کا اثر ہے کہ بادشاہوں کو آئین کا پابند بنانے کی تحریکیں چلیں اور سیاسی میدان میں دنیا جمہوریت کی طرف گام زن ہوئی۔ انسانوں کے بنیادی حقوق کے لیے تحریکیں چلیں اور آخر بیسویں صدی میں عالمی برادری انسانی حقوق کے منشور کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اسلامی تعلیمات میں عمل کی انفرادی ذمے داری کے تصور سے مذہبی پیشوائی کا بھی خاتمہ ہوا۔ ان تعلیمات کے اثرات اندلس اور شام کے راستے یورپ میں پہنچے۔ جب اسلامی علوم کی کتابیں یورپ کی زبانوں میں ترجمہ ہوکر یورپی اہل علم تک پہنچیں اور یورپ میں علم کا چرچا ہوا۔ جہاں ایک طرف ان علوم کا چرچا تھا تو دوسری طرف مذہبی طبقے اسے تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ اس بیداری پر کئی طرح کی پابندیاں لگائی جاتی رہیں۔ کلیسا نے اپنے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کیا ہوا تھا۔ چناں چہ ان اختیارات کے خلاف جو تحریکیں اٹھیں ان میں بھی اسلامی روح کار فرما نظر آتی ہے۔
الغرض اسلامی تعلیمات نے پوری دنیا کے انسانوں میں بیداری پیدا کی اور ان کو ان کے بنیادی حقوق سے آگاہ کر کے انہیں اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کے لیے اکسایا اور انسانوں کی اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے راہ نمائی کی۔ غلاموں کے حقوق مقرر فرما کر ایسا لائحہ عمل اختیار کیا کہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا۔ خواتین جنہیں اسلام سے پہلے دوسری اجناس کی طرح محض ایک جنس تصور کیا جاتا تھا، ان کے بھی حقوق مقرر کیے گئے اور انہیں بھی مردوں کے برابر حقوق ملے۔ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو صاف پتا چلتا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے، جس نے انسانوں کو شرف انسانیت سے نوازا۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود جب ہم آج کی امت مسلمہ پر نظر ڈالتے ہیں تو موجودہ حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ ایسا کیوں اور کس طرح ہوا اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اتنا واضح ہے کہ اسلام کی تعلیمات نے دنیا کے تمام معاشروں پر ہمہ جہت اثرات مرتب کیے اور قرآنی علوم و فنون نے انسانوں کو بحث و تحقیق کے لیے جہات فراہم کیے جس نے دنیا کو موجودہ ترقی کی منزلوں تک پہنچایا ہے۔lll