کل بازار میں ایک ہجوم نظر آیا۔ مسکراتا، قہقہے لگاتا، سیٹیاں بجاتا اور آوازے کستا ہواہجوم۔ یہ ہجوم یکے بعد دیگرے دکانوں پر رکتا، کچھ قہقہے بلند ہوتے اور پھر آگے چل پڑتا۔ قریب پہنچا تو اس ہجوم کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا لنگور اچھلتا پھاندتا دکھائی دیا۔ مگر پھر جو غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ ابنِ آدم نے مانگنے کی یہ نرالی ترکیب نکالی ہے۔اس نے لنگور کی سی کھال پہن رکھی تھی۔ ایک لمبی سی دم زیب بدن تھی اور چہرے پر کالک ملی ہوئی تھی۔ وہ بالکل بندروں کی طرح اچھلتا پھاندتا اور کرتب دکھاتاتھا اور ہجوم سے قہقہوں اور دکانداروں سے بھیک کی صورت میں خراج تحسین وصول کررہا تھا۔ لیکن میں، اس شخص کی اپج اور ذوقِ ہنرمندی پر داد تحسین کے پھول نچھاور کرنے کے بجائے سوچوں میں کھوگیا۔
’’روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر‘‘ توسنا اور پڑھا تھا مگر شاید روٹی کے لیے انسانیت اتنی ذلیل اور خوار پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ ذہن کی گہرائیوں سے سوچ کی پہلی لہر اٹھی۔ ’’انسان روٹی کی تلاش میں عزت و شرف کے راستے کو چھوڑ کر اکثر ذلّت اور پستی کی ایسی راہوں پر جانکلا ہے، جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔‘‘ معاً سوچ کی دوسری لہر نمودار ہوئی ’’اور یہ وہ انسان ہے جسے اس کے خالق نے اپنے فنِ تخلیق کا اعلیٰ اور حسین ترین شاہکار بناکر کرئہ ارضی پر بھیجا جس کو ساری مخلوقات پر شرف اور فضیلت و برتری عطا کی اور انسانیت کو حیوانیت سے امتیاز کرنے والی صلاحیتوں سے نوازا۔‘‘ ایک سوچ اور ابھری ’’مگر اس شخص پر کیا موقوف ہے یہ تو جاہل اورعامی ہے۔ شاید اس کا پیشہ ہی سوانگ رچا کر روٹی کمانا ہے۔ ہم لوگ جن کے قلب و نظر علم کی روشنی سے منور ہیں، جو تہذیب اور شائستگی سے آراستہ ہیں اور جن کے ناموں کے ساتھ قدرومنزلت اور عزت کے بڑے بڑے القاب نتھی ہوتے ہیں۔ ہم پیٹ بھرنے اور روٹی کمانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے۔ حق ماری کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں، مہذب انداز میں چوریاں کرتے اور ڈاکے ڈالتے ہیں۔ چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، اسمگلنگ، دھوکہ، فریب اور جعل سازی کون سا حربہ اور سوانگ ہے جو ہم اختیار نہیں کرتے۔ آخر ہمارے مہذب سوانگوں اور اس شخص کے غیر مہذب سوانگ میں جوہری فرق کیا ہے؟‘‘
اور پھر جیسے ذہن سے سوچ کی ایک لہر اور اٹھی: ’’انسان اب انسان کہاں رہا۔ وہ تو بہروپیا بن چکا ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں وہ بہروپ بھرتا ہے۔ آخری بہروپ جو وہ بھرسکتا تھا، وہ جانور کا تھا اور اب وہ کردار اور سیرت کے اعتبار سے حیوانات کی سطح پر اتر چکا ہے، وہ درندوں کی طرح ایک دوسرے کو چیرتا پھاڑتا اور حیوانات کی طرح حلال و حرام سے بے نیاز ہوکر ہر اُس شے پر منہ مارتا ہے جس سے وہ اپنا اور اپنی تجوریوں کا پیٹ بھرسکتا ہے۔‘‘ انسان جب حیوان کا روپ دھار لے تو انسانیت کب اور کیسے رہے گی؟