ایک دن ایک عورت بکریوں کی تلاش میں نکلی جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی تھیں۔ وہ ان کی کھوج میں کھیتوں میں ادھر ادھر پھرتی رہی، لیکن بے سود۔ آخر کار وہ سڑک کے قریب پہنچی، یہاں ایک بہرا آدمی اپنے لیے کافی بنا رہا تھا۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بہرا ہے۔ اس نے اس سے پوچھ لیا، تم نے ادھر میری بکریاں دیکھی ہیں؟‘‘ بہرا آدمی سمجھا وہ پانی کا پوچھ رہی ہے۔ اس نے دریا کی طرف اشارہ کر دیا۔ عورت نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دریا کی جانب چل پڑی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ اسے وہاں بکریاں مل گئیں۔ بس ایک میمنا چٹان سے گر کر اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ جب وہ بہرے آدمی کے قریب سے گزری تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رک گئی اور اس کی مدد کے عوض اسے میمنا پیش کر دیا۔ بہرا آدمی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ جب اس نے میمنا اس کی طرف کیا تو وہ سمجھا عورت اسے میمنے کی بدقسمتی کا ذمے دار سمجھ رہی ہے۔ وہ ناراض ہوگیا۔
’’میں اس کا ذمے دار نہیں۔‘‘ اس نے واویلا کیا۔
’’لیکن آپ نے مجھے راستہ دکھایا تھا۔‘‘ عورت بولی۔
’’بکریوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ آدمی بولا۔
’’لیکن یہ مجھے ادھر ہی ملیں، جہاں آپ نے بتایا تھا۔‘‘
آدمی غصے سے بولا: ’’چلی جاؤ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ یہ میمنا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
لوگ اکٹھے ہوگئے اور ان کے دلائل سننے لگے۔ عورت نے انہیں بتایا۔ ’’میں بکریوں کی تلاش میں تھی، اس نے مجھے بتایا کہ وہ دریا کے قریب ہیں۔ اب میں اسے یہ میمنا دینا چاہتی ہوں۔‘‘
آدمی غصے سے چیخا۔ ’تم میری توہین نہ کرو۔ میں نے اس کی ٹانگ نہیں توڑی۔‘‘ اور ساتھ عورت کو تھپڑ رسید کردیا۔
’’آپ دیکھ رہے ہیں، اس نے مجھے مارا ہے۔ عورت مجمع سے خطاب کرتے ہوئے بولی۔ میں اسے منصف کے پاس لے کر جاؤں گی۔‘‘
اس طرح اپنے بازوؤں میں میمنا اٹھائے عورت بہرا آدمی اور تماش بین منصف کی طرف چل پڑے۔
منصف ان کی شکایت سننے گھر سے باہر آگیا۔ پہلے عورت نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پھر آدمی نے اپنی داستان سنائی۔آخر میں مجمع نے منصف کو صورت حال بتائی۔ منصف اپنا سر ہلاتا رہا۔
بہرے آدمی کی طرح وہ بھی کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس کی نظر بھی کمزور تھی۔ آخر اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ لوگ چپ ہوگئے۔
اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ’’اس طرح کے گھریلو جھگڑے بادشاہ اور کلیسا کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔ پھر اس نے اپنا رخ آدمی کی طرف کیا: ’’اپنی بیوی سے برا سلوک چھوڑ دو۔‘‘
اب وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ ’’تم سست ہوگئی ہو۔ اپنے میاں کو وقت پر کھانا دیا کرو۔‘‘
اس نے پیار سے میمنے کی طرف دیکھا۔ ’’خدا اسے لمبی عمر دے اور یہ آپ دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہو۔‘‘
مجمع تتر بتر ہوگیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ ’’واہ کیا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کتنا فاصلہ طے کرنا پڑا۔lll