دشمن کی فوجیں شہر میں داخل ہوچکی تھیں۔ زنگی اپنی جائیداد چھوڑ کر بھاگنا نہیں چاہتا تھا۔ لہٰذا وہ اس گڑھے میں چھپ گیا جس میں رنگریزی ہوتی تھی۔ اس کی بیوی شہر کے نواح میں اپنے رشتہ داروں کے پاس بچے کو لے کر جانے والی تھی، لیکن اسباب بٹورنے میں اتنی دیر ہوگئی کہ گھر کے دروازے پر فوجی دستک دینے لگے۔ خوف ودہشت سے وہ بچے کو لیے بنا پچھلے دروازے سے فرار ہوگئی۔ بچہ جھولے میں پڑا کھیلتا رہا۔ صرف ایک ملازمہ لڑکی تھی، جو پیچھے رہ گئی تھی۔ جب مخمور فوجی گھر کا سامان لوٹ رہے تھے۔ وہ زینہ چڑھ کر اوپر چھت پر چھپ گئی۔ اس کا نام انّا تھا۔ اتفاق سے وہ اور جھولے میں پڑا بچہ دونوں فوجیوں کی دستبرد سے بچ گئے۔ جب فوجی چلے گئے تو وہ بچے کو گود میں لے کر نکل گئی اس نے دیکھا کہ گڑھے میں چھپے اس کے مالک کو فوجی تکا بوٹی کرچکے تھے۔
وہاں سے وہ اپنی بہن کے گھر گئی اور اپنے بہنوئی کو لے کر اپنی مالکہ زنگی کی بیوہ کے ایک رشتہ دار کے گھر گئی، جہاں مالکہ چھپی تھی تاکہ بچے کو اس کے حوالے کردے، لیکن وہ بدخوئی سے پیش آیا اورکہا کہ اس کی مالکہ وہاں نہیں ہے اور نہ وہ اس بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے اور یہ کہہ کر اپنا دروازہ بند کرلیا۔ لیکن اس کے بہنوئی نے پردہ ہٹتے ہوئے دیکھا اور ان کو یقین ہوگیا کہ انّا کی مالکہ یعنی بچے کی ماں وہیں چھپی ہوئی تھی۔ مادام زنگی کا خون سفید ہوچکا تھا وہ بچے کو لینے سے کترا رہی تھی۔
وہاں سے وہ بچے کو لے کر اپنے بھائی کے ہاں چلی گئی۔ اس نے ان کو جھوٹ موٹ بتایا کہ یہ اسی کا بچہ ہے، لیکن اکیلے میں بھائی کو سارے حقیقت بتادی۔ انّا اس طرح محنت مزدوری کرکے بھائی کے ساتھ رہنے لگی اور بچے کو اپنے بچے کی طرح پالنے پوسنے لگی۔
لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ بچے کا باپ کون ہے اور اب تک اسے دیکھنے کیوں نہیں آیا۔ لہٰذا ایک عدد شوہر کا انتظام ضروری ہوگیا اور بالآخر ایک غریب کسان اس سے شادی کرنے کو تیار ہوگیا جو زندہ درگور تھا۔ اس سے شادی میں یہ مصلحت تھی کہ وہ مرجائے گا اور اس طرح بچہ کے بن باپ ہونے کا داغ بھی دھل جائے گا۔ غرض انّا خوشی خوشی اس شادی سے لوٹی۔ اس طرح بچے کو اس کے باپ کا نام مل گیا اور وہ حرامی ہونے کے الزام سے بچ گیا، لیکن جسے وہ درگور سمجھ رہے تھے ہٹا کٹا ہوکر آگیا۔ بچہ بھی اب رینگنے لگا تھا۔ وہ بالکل انّا پرگیا تھا (حالانکہ اس کا بیٹا نہ تھا) لیکن اس کے لیے اپنے شوہر کے گندے گھر میں رہنا محال تھا۔ اس کی زندگی دوبھر ہوچکی تھی، اس لیے وہ ایک دن بچے کو لے کر وہاں سے نکل گئی۔ لیکن زمین تنگ تھی اور آسمان دور۔ تھک ہار کر پھر وہ اپنے شوہر کے پاس واپس آگئی۔ جہاں زندگی پہلے سے بہتر ہوگئی۔ اس طرح کئی سال گزرگئے۔ بچہ بھی کافی بڑا ہوگیا، لیکن ایک دن وہ گاؤں کچھ خریدنے گئی اور جب واپس آئی تو بچہ غائب تھا۔اس کے مجہول شوہر نے بتایا کہ ایک وجیہہ خاتون گاڑی میں آئی اور بچے کو لے کر چلی گئی۔ وہ دیوار کو پکڑ کر گرنے سے بچی وہ بری طرح چکراگئی تھی۔ اس کی حالت غیر تھی۔ پھر اسی شام وہ ایک چھوٹی سی پوٹلی لے کر آگز برگ بچے کی تلاش میں چلی گئی اور سیدھی اپنی مالکہ کے گھر گئی۔ جہاں اسے اندر بھی آنے نہیں دیا گیا اور وہ اپنے بچے کی صورت بھی نہ دیکھ سکی۔ اس کے بھائی اور بھابی نے اسے دلاسہ تسلی دینے کی کوشش کی، لیکن بے سود۔ پھر وہ سرکاری عہدیداروں کے پاس گئی اور دہائی دینے لگی کہ اس کا بچہ چوری ہوگیا۔ اسے کچھ بھی حاصل نہ ہوتا اگر اچانک تقدیر اس پر مہربان نہ ہوتی۔ اس کا مقدمہ ایک غیرمعمولی لائق جج ڈولنگر کی عدالت میں چلا جانے والا تھا۔ جج ڈولنگر ذرا بگڑا لیکن نہایت ہی قابل اور فاضل جج تھا۔ اپنے بھائی اور بھابی کے ساتھ وہ جج کی پیشی میں حاضر ہوئی۔ وہ مثلوں کے ڈھیر میں ڈھکا ہوا تھا۔ اس کی بات سننے کے بعد اس نے اسے ایک جگہ کھڑے رہنے کو کہا، جہاں کھڑکی سے روشنی آرہی تھی۔ اس کے چہرے کا غور سے جائزہ لینے کے بعد اس نے اسے اشارہ سے بڑھا دیا۔
دوسرے دن اس نے اسے بلانے ایک آفیسر بھیجا۔ اور سخت لہجے میں اس سے مخاطب ہوکر کہا: ’’تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تمہاری نظر اس جائیداد پر ہے جو بچے کے ساتھ ملنے والی ہے۔ انّا سختی سے اس بات پر اڑی رہی کہ وہ صرف اپنا بچہ لینا چاہتی ہے۔ اسے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’اس خیال میں نہ رہنا کہ تم جائیداد ہڑپ کرسکوگی۔‘‘ جج نے چیخ کر کہا اگر لڑکا تمہارا ہے تو جائیداد زنگی کے رشتہ داروں کو ملے گی۔
انّا نے اثبات میں سر ہلایا لیکن اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ پھر اس نے کہا کہ اسے ایک تنکہ بھی نہیں چاہیے۔
پھر اس نے چلا کر پوچھا : ’’کیا یہ لڑکا تمہارا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے کہا اگر وہ صرف اس وقت تک اسے رکھ سکے کہ وہ خود اس حقیقت کا اعتراف کرے۔ ابھی تو وہ اس قابل نہیں ہے۔
’’بچے کو تم بھی رکھنا چاہتی ہو اور وہ بھی جس کے پاس ریشم کے ۵؍اسکرٹ ہیں، مگر جج اصل ماں کی تلاش میں ہے۔‘‘
جی سرکار انّا نے کہا اور جج کی طرف دیکھا۔
چلے جاؤ، جج دہاڑا، مقدمہ ہفتے کے دن چلے گا۔
ہفتے کے دن عدالت جانے والی سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ عدالت میں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ جج اپنے اجلاس میں بیٹھ گیا۔ ایک رسی لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکے ہوئے تھی۔ اسی کٹہرے میں ایک طرف مادام زنگی اور دو متمول تاجر کھڑے تھے۔ دوسری طرف انّا اپنی بہن کے ساتھ کھڑی تھی۔ ایک نرس بچے کو پکڑے مادام زنگی کے بازو کھڑی تھی۔ جب بچے نے انّا کو دیکھا تو ایک چیخ مار کر اس سے لپٹنے کے لیے لپکا۔ نرس سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ زور لگانے لگا۔ جج نے حکم دیاکہ اسے عدالت کے کمرے سے باہر لے جایا جائے، پھر مادام زنگی کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ پھر اس کے رشتہ داروں سے جرح کی۔ انھوں نے بتایا کہ زنگی کو فوجیوں نے ماردیا، لیکن انھوں نے مادام کے خلاف خو ب خوب زہراگلا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ کیس ہار گئی تو وہ جائیداد کے مالک ہوجائیں گے۔ پھر جج نے مادام زنگی سے پوچھا کہ کوئی ماں بچے کو چھوڑ کر اس طرح بھاگ سکتی ہے، جس طرح تم بھاگی تھیں۔ کیوں نہ ایسی ماں کی کمر پر کوڑے برسائے جائیں، جو چاہے وہ پانچ اسکرٹ کیوں نہ پہنے ہوئے ہو۔ مادام زنگی کوئی جواب نہ دے سکی۔
پھر انّا سے جرح کی، اس نے اپنی رام کہانی سنائی۔
دونوں فریقوں کو سن کر جج ڈولنگر نے ایک تقریر کی جس میں ان لوگوں کو لتاڑا جو کورٹ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، پھر ایک لمبے وقفے میں اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں پریشان ہوگیا ہے۔ اس کی عقل کام نہیں کررہی ہے۔ پھر اس نے کہنا شروع کیا یہ طے نہیں ہوسکا کہ حقیقی ماں کون ہے۔ بچہ کی حالت قابلِ رحم ہے۔ ہم نے باپوں کے بارے میں تو سنا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں، مگر یہاں دو مائیں ہیں، جو ایک بچے کی دونوں ہی دعویدار ہیں۔ عدالت نے ان کو تفصیل سے سنا جتنا کہ سننا چاہیے۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ دونوں ہی جھوٹ بول رہی ہیں۔ پھر نہایت غیرمتوقع طور پر اس نے عدالت کے ملازم کو ایک چاک لانے کے لیے کہا۔ پھر اس کو حکم دیا کہ اس چاک سے ایک دائرہ کھینچو۔ اتنا بڑا دائرہ کہ تین افراد اس میں کھڑے رہ سکیں۔ چنانچہ دائرہ بنایا گیا۔ پھر جج نے حکم دیا کہ نرس سے چھڑا کر بچے کو دائرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس نے اس کی پرواہ نہیں کی کہ بچہ پھر زور زور سے رونے لگا اور انّا کے پاس جانے کے لیے تڑپنے لگا۔
پھر مادام زنگی اور انّا کو مخاطب ہوکر اس نے کہا تم دونوں بھی چاک سے کھینچے گئے دائرے میں کھڑی ہوجاؤ۔ اب بچے کا ایک ایک ہاتھ تم دونوں تھام کر جب میں ’’شروع‘‘ کہوں تو بچے کو پوری طاقت سے اپنی طرف دائرے کے باہر کھینچو۔ دونوں میں سے جس کی بھی محبت زیادہ طاقت ور ہوگی وہ اتنی ہی طاقت سے اسے اپنی طرف کھینچے گا اور اس طرح بچے کو اپنی طرف لے آئے گا۔
ہال میں ہل چل مچ گئی۔ مجمع پنجوں کے بل کھڑا ہوکر اپنے آگے والوں سے بات چیت کرنے لگا۔
لیکن جو دونوں عورتیں دائرے کے اندر داخل ہوئیں تو خاموشی طاری ہوگئی۔ ہر ایک نے بچے کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑلیا۔ بچہ بھی خاموش ہوگیا۔ گویا اس نے محسوس کرلیا تھا کہ کیا چیز داؤں پر ہے۔ اس نے اپنا آنسو بھرا چہرہ انّا کی طرف کردیا۔ تب جج نے زور سے شروع کہا۔ اور پھر ایک زوردار جھٹکے کے ساتھ مادام زنگی نے بچے کو دائرے کے باہر پوری طاقت سے کھینچ لیا۔ بے چاری حیران و پریشان انّا کو یقین نہیں آرہا تھا اس کی نظریں بچے کا تعاقب کر رہی تھیں۔ اس نے اسی ڈر سے کہ جب بچے کے ہاتھوں کو دو مخالف سمتوں میں کھینچا جائے گا تو کہیں اس کے ہاتھ نہ ٹوٹ جائیں اس نے اس کا ہاتھ فوراً چھوڑ دیا۔ اب جج ڈولنگر نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا:
اس طرح بھی معلوم ہوگیا کہ حقیقی ماں کون ہے۔ اس حرافہ سے بچے کو چھڑا لیا جائے۔ وہ نہایت بے رحمی سے بچے کے ٹکڑے ٹکڑے کردے گی اور انّا کو دیکھ کر سر ہلادیا۔ اور تیزی سے کمرہ عدالت سے نکل گیا۔
اور بعد میں کسانوں نے جو مقدمے کی سماعت کے وقت کمرہ عدالت میں موجود تھے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سب کچھ دیکھ رہے تھے بتایا کہ کس طرح جج نے بچے کو ان کے حوالے کرتے ہوئے اس کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا تھا۔
——